انسان خود کو فریب دیتے اور خاک چاٹتے ہیں۔ ایک بار پھر اگر کسی نے خود فریبی کا تہیہ کر لیا ہے تو نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔ جسے اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنی ہے‘ کر دیکھے۔ کرے اور نتیجہ بھگتے!۔
حکمران جماعت میں دراڑ پہلے سے موجود تھی۔ خود کو دھوکہ دینے پر تلے نون لیگیوں کے سوا کسی کو اس میں شبہ نہ تھا۔ باخبر اخبار نویسوں کو ناراض ارکانِ اسمبلی کے نام تک معلوم ہیں۔ اگر وہ راز داری سے بات کرنا پسند کرتے ہیں تو صحافتی اخلاق یہ ہے کہ چرچا نہ کیا جائے ۔
ریاض پیر زادہ کیا ‘حمزہ شہباز تک نے کہہ دیا کہ تایا جان کو وہ سمجھا لیں گے۔ میاں محمد شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان پہلے سے واضح ہیں۔ چوہدری کھل کر بات کرتا ہے۔ شہباز شریف مخمصے کا شکار رہے۔ ایک حد تک اب بھی ہیں۔ بظاہر حالات ہموار ہونے یا کسی غیبی امداد کے منتظر۔ اسی اثناء میں راولپنڈی میں شاید کچھ خفیہ ملاقاتیں بھی انہوں نے کیں۔
اختلافات اجاگر ہونے کے بعد مختلف حلقوں سے دو نقطۂ نظر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی کو متحد رکھنے کے لئے تبلیغ کا رستہ اختیار کیا جائے۔ ریاض پیر زادہ ایسے لوگوں کی مذمت کی جائے۔ نقصان کو محدود کرنے کی۔ دوسرا یہ کہ شہباز شریف کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خود بھی وہ خواہش مند ہیں۔ پنجاب حکومت کے ترجمان نے جو ذاتی طور پر وزیراعلیٰ کے وفا دار ہیں‘ جمعرات کو ریاض پیر زادہ کی حمایت کی۔
یہ دعویٰ یکسر بے بنیاد ہے کہ شہباز شریف ہر حال میں‘ اپنے بھائی سے جڑے رہنے کے آرزو مند ہیں۔ بہت پہلے عرض کیا تھاکہ وزیراعظم بننے کے لئے ایک پیر صاحب کے پاس وہ تشریف لے گئے۔ پھر سے تصدیق کی ہے۔ ان پیر صاحب کو آنجناب نے دس ہزار روپے نذرانے کے طور پر پیش کئے تھے۔
عدالت سے وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے فوراً بعد ‘ بعض اہم شخصیات سے انہوں نے کہا کہ وہ وزرات عظمیٰ کے آرزومند ہیں مگر رائے عامہ کی تائید کے ساتھ۔ ان کے الفاظ یہ تھے ''مینڈیٹ لے کر‘‘ ۔
سوال یہ ہے کہ اس مرحلے پر کیا نواز شریف بھی انہی خطوط پر سوچ رہے تھے؟ بعد میں کیا اس وقت انہوں نے بیگم کلثوم نواز کو حلقہ 120 سے امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا‘ جب انہیں بھائی کی وفاداری پر شبہ ہوا؟ کیا خود ان کی اہلیہ‘ صاحبزادی اور فرزندوں نے ان پر دبائو ڈالا؟ یہ اس لئے بنیادی سوال ہے کہ انہی دنوں خود بڑے میاں صاحب نے شہباز شریف کو نون لیگ کا صدر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ خلق خدا کے سامنے۔ خادم اعلیٰ ذہنی طور پر این اے 120 سے الیکشن لڑنے اور مرکز میں ا قتدار سنبھانے کے لئے تیار تھے۔ خاقان عباسی 45 دن کے لئے وزیراعظم بنائے گئے تھے۔ پھر یہ فیصلہ تبدیل کر دیا گیا۔ پھر حمزہ شہباز انتخابی مہم سے لاتعلقی اختیار کرکے لندن چلے گئے۔ پھر رانا ثناء اللہ نے اعلان کیا کہ شہباز شریف کی پنجاب میں زیادہ ضرورت ہے۔ رانا صاحب شہباز شریف کے وفادار ہیں یا نوازشریف کے؟ یہ ایک ضمنی سوال ہے ۔ دوسری جہت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ بیک وقت دونوں کشتیوں میں سوار ہوں۔ بدلتے ہوئے حالات کا ادارک نہ کر سکے ہوں۔ دونوں دھڑے اب مقابل ہیں۔ مگر یہ لگتا ہے کہ ایک دوسرے سے وہ خوف زدہ ہیں۔
توجیہہ یہ کی جاتی ہے کہ اختلاف محض نقطۂ نظر کا ہے۔ نقطۂ نظر کیا اس چیز کو کہا جاتا کہ پارٹی کے سربراہ سے الگ ہونے کا مطالبہ کیا جائے ؟ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز موقف حمزہ شہباز کا ہے: محترمہ مریم نواز سے میرا اختلاف نظریاتی ہے۔ کون سا نظریہ؟ آپ کا نظریہ کیا ہے اور محترمہ کا کون سا ؟ مسلم لیگ کو نظریات سے کیا واسطہ ؟ پیپلز پارٹی کو نظریات سے کیا واسطہ؟ اور اب تو یہ سوال بھی ہے کہ عالی جناب عمران خان کو نظریات سے کیا تعلق۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سمیت بھانت بھانت کے لوگ اس پارٹی میں جمع ہیں۔ جناب شہباز شریف اور میاں محمد نواز شریف ہوں‘ آصف علی زرداری یا عمران خان۔ یہ اقتدار کی جنگ ہے‘ اقتدار کی۔ رعایا کو فیصلہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون کم اذیت ناک ہے۔
ایک فارمولا یہ پیش کیا گیا کہ نون لیگ میں جب فارورڈ بلاک بن چکے۔ عدالت سے میاں محمد نواز شریف ‘ ان کی صاحبزادی اور فرزند جب سزا یاب ہو چکیں تو شہباز شریف کی مدد کی جائے۔ اگر یہ مرحلہ سر ہو جائے تو طاقتور لوگوں کو معاف کر دیا جائے‘ یعنی میاں محمد نواز شریف‘ ان کی دختر نیک اختر اور ان کے فرزندانِ ارجمند کو ۔
فارمولا اچھا ہے اور ان لوگوں کے لئے تو بہت ہی مبارک جو صرف نوازشریف سے نجات کے آرزو مند ہیں۔ مشکل بس ایک ہے۔ اللہ کے آخری رسول ؐ کا ایک قول اپنی پوری شان‘ عظمت اور دائمی صداقت کے ساتھ مقابل کھڑا ہے۔ ایک پہاڑ کی طرح جو اپنی جگہ سے ٹل نہیں سکتا: وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں‘ اپنے طاقتوروں کو جو معاف کرتی اور کمزوروں کو سزا دیتی ہیں۔
شہباز شریف کے ساتھ ساز باز کا نتیجہ تضادات سے بھرپور ایک اور مشکوک عہد کا آغاز ہو گا۔ انجام وہی ہوگا جو پہلے سمجھوتوں کا ہوا۔ شہباز شریف پر قائم مقدمات واپس لینا ہوں گے۔ یہ نظام عدل کی تباہی کے مترادف ہوگا اور اس کا کوئی جواز پیش نہ کیا جا سکے گا۔ ملک اسی بے یقینی سے دوچار رہے گا۔ ظلم اسی طرح پھلتا پھولتا رہے گا۔ شخصی حکمرانی اسی طرح قائم رہے گی۔ فرق یہ ہے کہ کچھ اور لوگ اقتدار کے مواقع اور منافع میں شریک ہو جائیں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف کاروبارِ حکومت کس طرح چلاتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی اور نہ پارلیمانی پارٹی‘ کابینہ اور نہ نوکر شاہی۔ وہ صرف اپنے خوشامدیوں سے مشورہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اپنی پسند کے افسر مقرر کرتے ہیں‘ خواہ وہ پرلے درجے کے نالائق اور موقع پرست ہوں۔ ان پر عنایات کی بارش کرتے ہیں‘ مثلاً‘ نندی پور میں ناکارہ اور بے معنی لوگوں کو تمغے دلا کر۔ ترقیاتی منصوبے وہ اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق مرتب کرتے رہے۔ پینے کا صاف پانی نہیں‘ اورنج ٹرین۔ جانتے بوجھتے کہ اسّی فیصد بیماریاں ناصاف پانی سے جنم لیتی ہیں۔ تعلیم اور صحت نہیں میٹرو‘ حالانکہ لاہور‘ راولپنڈی اور ملتان میں کہیں بھی‘کسی نے بھی اس کا مطالبہ نہ کیا تھا۔ ملتان کی بسیں تو بالکل ہی خالی دکھائی دیتی ہیں۔ صوبے کے کتنے ہی معاملات کو انہوں نے حمزہ شہباز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ سب جانتے ہیں کہ صاحبزادے کا مزاج کیا ہے اور ترجیحات کیا۔
جی نہیں۔ یہ بالکل قابل قبول نہیں۔ مسئلہ ایک شخص یعنی نواز شریف نہیں بلکہ نظام زر و ظلم سے نجات کا ہے۔ کم از کم اس کا آغاز تو ہو۔ نواز شریف اور شہباز شریف ہوں یا عمران خاں اور جہانگیر ترین۔ فیصلے عدالتوں میں صادر ہونے چاہئیں۔ مکمل طور پر قانون کے مطابق۔
قومیں کیسے ادبار سے نجات پاتی ہیں؟ اجتماعی حیات کیونکر ثمر خیز ہوتی ہے؟ فروغ کا در کیسے کھلتا ہے؟ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب۔ زندگی قصاص میں ہے‘ جتنی خطا اتنی سزا۔ کوئی بھی ہو‘ کہیں بھی ہو‘کم نہ زیادہ!
انسان خود کو فریب دیتے اور خاک چاٹتے ہیں۔ ایک بار پھر اگر کسی نے خود فریبی کا تہیہ کر لیا ہے تو نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔ جسے اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنی ہے‘ کر دیکھے۔ کرے اور نتیجہ بھگتے!۔