تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-03-2013

خودشکنی

ہمارا کام بس اتنا ہے کہ سچی بات کہہ دیں۔دوسرے یہ کہ اس دنیا میں کوئی کسی کے ہاتھوں برباد نہیں ہوتا ،کارِسیاست میں ہر دفن ہونے والا اپنی قبر خود کھودتا اور کفن آپ بُنتا ہے۔ 1996ء کے الیکشن میں شرکت اور جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کے بعد، میرے محترم دوست عمران خان نے سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور یہ غلطی اسے مہنگی پڑے گی۔ وہ بات دہراتا ہوں، جو ہمیشہ عرض کرتا ہوں: غلطیوں سے آدمی برباد نہیں ہوتا بلکہ ان پر اصرار کرنے سے۔ تمام انسان خطا کار ہیں، سبھی کے اندازے نا درست ہو سکتے ہیں اور کوئی بھی پھسل سکتا ہے۔ بربادی اس لیے آتی ہے کہ آدمی غور کرنے سے، تصحیح کرنے سے انکار کر دے۔ ایک آدھ نہیں، لاہور میں تحریک انصاف کے درجنوں کارکنوں نے مجھے بتایا کہ الیکشن میں بڑے پیمانے کی دھاندلی ہوئی؛ اگرچہ ضرورت پڑنے پر یہ فرض بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ مگر میرا کام فردِ جرم عائد کرنا اور عدالتی معیار پر پورے اترنے والے شواہد مہیا کرنا نہیں۔سامنے کی حقیقت بیان کرنا ہے۔ ان مخلص کارکنوں کا کہنا یہ ہے کہ اوّل تو فریقین نے علاقے باہم بانٹ لیے، ثانیاً ووٹ خریدے گئے، ثالثاً نگرانی پر مامور عملے نے بعض امیدواروں کے ووٹ ضائع کرنے کے لیے ان پر دُہرے نشانات لگائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بیلٹ بکس مقررہ مقام پر غیر معمولی تاخیر سے پہنچے۔ اعلان کردہ انتخابی نتائج کے مطابق علیم خان صدر اور رشید بھٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئے۔ کسی پیمانے سے وہ نیک نام نہیں۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ بالواسطہ کی بجائے اگر براہ راست الیکشن ہوتے تو ان کے منتخب ہونے کا سوال ہی نہ تھا۔ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر قاف لیگ کا حصہ بننے والے رشید بھٹی، ایک معروف اخبار نویس کی سفارش کے ساتھ تحریک انصاف کا حصہ بنے ۔ راوی کے مطابق انہیں بتایا گیا کہ پارٹی میں ان صاحب کو گوارا کیا جاسکتا ہے لیکن ٹکٹ نہ دیا جاسکے گا۔ اس پر انہوں نے کہا : میرا نہیں یہ پارٹی کا درد سر ہے۔ اللہ کی شان کہ اب وہ شخص لاہور میں پارٹی کا اہم ترین لیڈر ہے، مبیّنہ طور پر جس پہ قتل کے درجنوں مقدمات درج ہیں۔ کل شب ان کے بھائی نے، جو کہا جاتا ہے کہ دھاندلی کے منصوبے میں شامل تھے، فون پر مجھے یہ کہا کہ وہ میری تنقید کا جواب دینے کے آرزومند ہیں۔ عرض کیا شوق سے، مگر اپنا جواب چیف ایڈیٹر کوبھجوا دیجئے، میں انہیں بتا دوں گا کہ شائع کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ دلائل دینے کی انہوں نے کوشش کی توگزارش کی کہ حضور، میں نے تو ادھوری سی بات کی ہے۔ الزامات بے حد سنگین ہیں۔ اس پر انہوں نے ارشاد کیا: کیا آپ جانتے ہیں کہ میرے بھائی،جیالوجی میں ایم اے کی ڈگری رکھتے ہیں۔ اب میری ہمت جواب دے گئی اور قدرے بلند آواز سے کہا؛ پی ایچ ڈی بھی اگر ہوں تو مجھے اس سے کیا۔ فلاں لیڈر تھا مگر جرائم پیشہ۔ ازراہ کرم، اس التماس کے بعد وہ خاموش ہوئے کہ میں مصروف ہوں اور اس وقت زیادہ تفصیل سے بات نہیں کرسکتا۔ ایک آدھ بار نہیں، درجنوں مرتبہ کپتان کے فیصلوں سے مجھے صدمہ پہنچا ہے۔ زندگی آدمی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتی، زندگی کے ساتھ آدمی کو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ حسن و خیر کا مکمّل مجموعہ کوئی نہیں ہوتا، ہر آدمی کی حدود ہیں۔ خوبیاں ہیں تو خامیاں بھی۔ جب عمران خان کی حمایت کا فیصلہ کیا تو اس بنیاد پر کہ محاسن کا پلّہ بھاری ہے۔ تب بھی معلوم تھا کہ سیاست کی اونچ نیچ وہ نہیں سمجھتا اور مردم شناسی تو نام کو نہیں۔ 42 سال کی عمر میں وہ شرمیلا آدمی سیاست میں آیا اور معاشرے کی ساخت سے آگاہ نہیںتھا ۔ وصف یہ ہے کہ بزدلی کا ارتکاب کبھی نہیں کرتا، دردمند ہے؛ چنانچہ تمام زائد آمدنی اللہ کی راہ میںخرچ کر دیتا ہے۔ اکثر دوسرے لیڈروں کے برعکس دولت سے محبت نہیں کرتا۔ ہر طرح کے دبائو میں ثابت قدم رہ سکتا ہے اور کسی کام کو ادھورا نہیں چھوڑتا۔ اوّل دن سے ذہنی طور پر میں تیار تھا کہ وسیم اکرم کی طرح جو وائیڈ بال کیے بغیر رہ نہیں سکتا، و ہ حماقتوںکا ارتکاب کرے گا۔ مسئلہ مگر یہ تھا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو اس پر ترجیح نہ دی جا سکتی تھی۔ اخلاقی اصولوں سے بالکل وہ بے بہرہ تھے بلکہ لوٹ مار میں مگن۔ الیکشن 1996ء کے ہنگام ایسی بے تکلفی نہ تھی مگر میںاصرار کرتا رہا کہ الیکشن سے الگ رہا جائے کہ پارٹی کا ڈھانچہ تشکیل نہیں پایا ۔ ایک مرحلے پر وہ آمادہ بھی ہوگیا اور مجھ سے اخباری بیان لکھنے کو کہہ دیا۔ ریفرنڈم کے وقت میں بہت چیخا چلایا لیکن جب سنی نہ گئی تو خاموش ہو رہا۔ ان دونوں واقعات پر بعد میں وہ پچھتایا، خاص طور پر مشرف کی وقتی حمایت پر بار بار قوم سے معافی مانگی۔ اب صاف الفاظ میں ،میں اس سے یہ کہتا ہوں کہ لاہور کے مشکوک الیکشن کی توثیق عظیم ترین غلطی ہے۔ میدان جنگ پنجاب ہے اور پنجاب کا تمام تر انحصار لاہور پر۔ اگر لاہورشہرکی قیادت علیم خان اور رشید بھٹی کے ہاتھ میں رہی تو جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہار دی جائے گی۔ لاہور کی گلیوں میں گھوم پھر کر عام لوگوں سے میں نے پوچھا ہے۔وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ اس سے زیادہ صدمہ پارٹی کے کارکنوں کو پہنچا ہے۔ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے عہدیدار میرے پاس آئے اور انہوں نے اصرار کیا کہ کپتان سے میں بات کروں۔ میراموقف مختلف ہے ۔ان کے مطابق الیکشن میں اگر بڑے پیمانے کی دھاندلی ہوئی ہے تو انہیں ازسرنو انتخاب کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ انہیں وہی بات کہنی چاہیے جس کا ثبوت ان کے پاس موجود ہو۔ پارٹی لیڈر سے ملاقات کرکے شواہد انہیں مہیا کرنا چاہئیں اور اصولی موقف پر ڈٹ جانا چاہیے۔ برصغیر کے مزاج میں خود ترحمّی ہے ۔کوئی سا مسئلہ پیدا ہو لوگ لیڈرکی طرف دیکھتے ہیں، حالانکہ ہر چیزمیں رہنما کا کردار فیصلہ کن نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کا۔ یہ بھی ان سے کہا کہ روٹھ جانا اور مایوس ہونا احمقوں کا شیوہ ہے۔ہرمسئلے کا ایک حل اور ایک موزوں حکمت عملی سے اس کا حصول ممکن ہوتا ہے۔1940ء کے پورے عشرے میں مسلم لیگی قیادت اور نوجوان کارکنوں میں اختلافات رہے۔بعض اوقات قائداعظم کی موجودگی میں لڑکوں نے لیاقت علی خان ایسے رہنما کے لتّے لیے ۔ظلم بہرحال ظلم ہے۔پارٹی کے اندر ہو یا باہر۔ صبر ، سلیقہ مندی اور حکمت و جرأت سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔اللہ کے رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو ،خواہ ظالم ہو یا مظلوم ۔پوچھا گیا:یا رسول اللہ ؐ کیا ظالم بھائی کی مدد بھی ؟فرمایا:ہاں !اسے ظلم کرنے سے روک دو ۔ میں بار بار گزارش کرتا ہوں کہ حیات کی رزم گاہ میں صداقت شعاری ہی واحد اثاثہ نہیں ، صبرو تحمل بھی درکار ہے ، حکمت اور حُسنِ بیاں بھی۔رہی مایوسی تو وہ کارِ شیطان ہے۔اپنے بندوں سے خدا یہ کہتا ہے کہ ہر گناہ قابل معافی ہے مگر ایک ہرگز نہیں۔اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔’’اے آدم زاد ، تجھے کس چیز نے اپنے مہربان رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟‘‘ کپتان سے میں یہ کہتا ہوں کہ اسے فوری طور پر ایسے لوگوں کو تحقیقات سونپنی چاہیے جو انصاف کرنے کے اہل ہوں۔اگر یہ ثابت ہوجائے کہ بعض نے منصوبہ بندی کے ساتھ دھاندلی کی تو انہیں نااہل قرار دے کر دوبارہ سے الیکشن کا اعلان کرنا چاہیے۔اگر نہیں تو کارکنوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔سچائی کی طاقت پروپیگنڈے سے بہرحال زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں تک اس ناچیز کا تعلق ہے ، میرے پاس ایک ہی ترازو ہے اور ایک ہی طرح کے باٹ۔نوازشریف اور آصف علی زرداری نے میرے باپ کی زمین پر قبضہ نہیں کررکھا۔ان کے ظلم سے میں نالاں ہوں۔اگرکوئی دوسرا بھی اس کا ارتکاب کرے گا تو اسی ترازو پر تولا جائے گا۔ ہمارا کام بس اتنا ہے کہ سچی بات کہہ دیں۔دوسرے یہ کہ اس دنیا میں کوئی کسی کے ہاتھوں برباد نہیں ہوتا ،کارِسیاست میں ہر دفن ہونے والا اپنی قبر خود کھودتا اور کفن آپ بُنتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved