تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     21-10-2017

دو میں سے ایک

ایک سوال جو بار بار دہرایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کس قدر آزاد ہے اور کتنا مجبور۔ اپنی زندگی میں کس قدر فیصلے وہ اپنی مرضی سے کر سکتا ہے اور کتنی چیزیں اس پر جبرکی صورت میں مسلط ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو زندگی کے سارے بنیادی فیصلے مقدر ہیں۔ مثلاً یہ کہ کون سے ماں باپ کے گھر آپ پیدا ہوں گے۔ اگر آپ ایک نیورو سائنٹسٹ کے گھر پیدا ہوتے ہیں تو وہ کسی داعش کے حامی جنگجو یا ایک طوائف کے گھر پیدا ہونے سے بہت مختلف ہے۔ رزق سارے کا سارا مقدر ہے۔ خدا فرماتا ہے: زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں‘ جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو۔ اس کے بعد وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے، وہ کہاں کہاں سے گزرے گا اور کہاں ٹھہرے گا۔ رزق کی تلاش میں سب جاندار سفر کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی اچھی نوکری کی تلاش میں سعودیہ، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ خدا یہ کہتا ہے کہ جن راستوں سے گزر کر‘ جس جگہ ہم مستقل طور پر ٹھہرتے ہیں، وہ بھی پہلے سے درج ہے۔ خدا نے اپنے آپ کو مکمل طور پر حجاب میں رکھا ہوا ہے کہ اس پر ایمان ایک جبر نہ ہو جائے؛ لہٰذا ہمیں ہر جگہ اپنی محنت، اپنی قوت ہی نظر آتی ہے۔
ان دو بنیادی باتوں کے علاوہ تیسری چیز آپ کی دماغی صلاحیت ہو سکتی ہے۔ اس میں ظاہر ہے کہ ایک بے دست و پا بچّے کا کتنا عمل دخل ہو سکتا ہے، جسے بھوک اور تکلیف میں رونے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں آتا۔ ذہنی صلاحیت اکثر جینز پر منحصر ہوتی ہے، جو کہ انہی ماں باپ سے آتے ہیں، جن کا انتخاب بچّے کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔
انسان جب پڑھ لکھ کر، محنت کر کے، انٹرویوز دے کر یا سفارش سے کسی عہدے پر تعینات ہوتا ہے تو بظاہر لگتا یہی ہے کہ ہم اپنی محنت سے، اپنے زورِ بازو سے یہ سب کما رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اپنی عقل اور اپنی قوت سے رزق کماتا ہے تو وہ باقی پانچ ارب مخلوقات، جنہوں نے اس زمین پر بھرپور زندگی گزاری اور جو انسان کی طرح عقل مند نہیں ہیں، انہیں رزق کون دے رہا ہے؟ کون انہیں زندگی گزارنے کے تمام اصول سکھا کر پیدا کرتا ہے؛ حالانکہ انسان کے برعکس وہ دیر پا منصوبہ بندی (Long Term Planning) کی ذرہ برابر صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ ایک بیلو وہیل کو روزانہ تین ہزار چھ سو کلو گوشت کھانا ہوتا ہے۔ وہ اسے کھاتی ہے اور زندہ رہتی ہے۔ اس کے برعکس ایک انسان کے لیے تو آدھا کلو گوشت بھی کافی ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ بیلو وہیل کا پیٹ بھرنا 7 ہزار انسانوں کا پیٹ بھرنے کے مترادف ہے۔
انسان آج پریشان ہے۔ میڈیکل سائنس میں بہتری کے بعد سے آبادی بڑھتے بڑھتے 7 ارب تک جا پہنچی ہے۔ 2100ء تک خطرہ یہ ہے کہ یہ تعداد 13 ارب تک جا پہنچے گی۔ یہ سب اندازے اور یہ سب پریشانیاں اپنی جگہ درست ہیں۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ذاتِ قدیم نے انسان کو اس قدر زبردست دماغ دیا، کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ انسان کیا کرے گا۔ میڈیکل سائنس میں ترقی سے پہلے جہاں دس میں سے تین چار مائیں اور بچّے زچگی کے دوران مر جاتے تھے، ان کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزار میں سے تین چار تک رہ جائے گی۔ تشنج، ملیریا، ہیضہ اورطاعون جیسی بیماریاں جو آبادیوں کی آبادیاں اجاڑ ڈالتی تھیں، ان کا اور پولیو جیسے وائرس کا علاج ڈھونڈ لیا جائے گا۔ انسان فصلیں اگائے گا اور تیزی سے وزن بڑھانے والے جانور۔
ایک اور سمت میں غور کریں۔ ڈائنا سار، جو کرّۂ ارض کی تاریخ کے سب سے غالب (Dominant) جاندار تھے۔کرّۂ ارض پہ ان کے قیام کی مدت 16 کروڑ سال سے زائد ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ انسان کو دیکھیں تو فاسلز کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ سال پہلے اس زمین پر آیا۔ کہاں تین لاکھ سال اور کہاں 16 کروڑ سال۔ ڈائنا سار کے جثے اور اس کی خوراک سے ہم سب واقف ہی ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ جو پیدا کر رہا ہے، وہ مکمل ذمہ داری اٹھا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زمین میں کوئی جاندار ایسا نہیں، جس کا رزق میرے ذمے نہ ہو اور جہاں جہاں سے وہ گزرے گا اور جہاں ٹھکانہ بنائے گا، سب کچھ لکھا ہوا ہے ۔ پھر وہ کہتا ہے کہ تم تو چاہ بھی نہیں سکتے (کوئی خواہش بھی نہیں کر سکتے ) اگر میں نہ چاہوں۔ خواہشات بھی اس نے انسانوں میں اور سب جانداروں میں پیدا کیں ۔ پھر باقیوں کو تو آزاد چھوڑ دیا اور ہم آدمؑ کی اولاد پر، جنہیں عقل سے نوازا گیا، کچھ پابندیاں عائد کیں۔
ماں باپ، رزق، ذہنی صلاحیت، سبھی کچھ اگر اس نے اپنے ہاتھ میں مرکوز کر رکھا ہے‘ تو پھر انسان کے بس میں کیا ہے؟ لگتا ایسا ہے کہ انسان کو مختلف صورتِ حال (Situations) میں سے گزارا جاتا ہے اور اس میں اسے اپنا منفی یا مثبت ردّ عمل دینے کی اجازت ہے۔ جذبات اور عقل کے درمیان ایک دائمی کشمکش میں سے انسان پر فیصلہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ عقل کا انتخاب کرے گا یا جذبات کا۔ یہ جذبات بار بار گمراہ کرتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی Situation پیدا ہوتی ہے، اس میں سب سے پہلے اگر کوئی چیز Respond کرتی ہے‘ تو وہ جذبات ہیں۔ علمی طور پر انسان جو چیزیں جانتا ہے کہ ان میں میرا نقصان ہے اور ان میں فائدہ، وہ اکثر اوقات اس کے کچھ کام نہیں آتیں ۔ وہ جذبات کی بنا پر Respond کر جاتا ہے۔ عقل کے پاس بند دروازوں کی کنجی ہے لیکن جب تک انسان عقل سے کنجی مانگے نا، وہ خاموش رہتی ہے۔ استاد یہ کہتے ہیں کہ جب تک جذبات غالب رہتے ہیں، نازک سی عقل ان دیوؤں کے سامنے سہم کر خاموش بیٹھی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ غصہ اتر جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا Phase شروع ہوتا ہے۔ انسان ندامت محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ عقل کے پاس جاتا ہے۔ عقل اسے بتاتی ہے کہ معافی مانگ لو۔ یہاں ایک بار پھر جذبات/جبلت مداخلت کرتی ہے۔ نفس اسے یہ بات بتاتا ہے کہ معافی مانگنا اس کی شان کے خلاف ہے۔ اگر وہ اس کی بات مان لیتا ہے تو نفس جیت جاتا ہے۔ اگر وہ اسے رد کر کے معافی مانگ لے تو عقل جیت جاتی ہے۔ یقینی طور پر شیطان کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی ہوگی۔
بطور ایک طالبِ علم، مجھے ایسا ہی لگتا ہے کہ انسان کو جان بوجھ کر بار بار Situations سے گزارا جا تا ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ جتنی دیر کوئی جذبہ مثلاً غصہ حاوی اور متحرک رہتا ہے، انسان اپنے سارے فیصلے اسی کے تحت کرتا ہے۔ غصہ سب کے لیے نقصان دہ ہے لیکن وہ لوگ جنہیں فیصلہ سازی کا اختیار دیا جاتا ہے یا طبعاً جو فیصلہ ساز ہوں، مثلاً کسی بہت بڑے کاروبار کے مالک ہوں، ان کے لیے غصہ دوسروں سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ اپنے بڑے فیصلے غصے کی روشنی میں کر لیتے ہیں۔ اس لیے ایسی کیفیت میں فیصلے ملتوی کر دینے چاہئیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved