تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-10-2017

اللہ بڑا بے نیاز ہے

پھر ایک سوال نے ذہن میں پڑائو ڈال دیا۔ امیر زادوں کو کوئی استاد کیوں نصیب نہ ہوا‘ جو ان میں مطالعے کا ذرا سا ذوق ہی پیدا کر دیتا؟ بات کرنے کا سلیقہ ہی سکھا دیتا۔ بسوں پر لکھے شعر تو نہ پڑھا کرتے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے۔
اب تک وہ تصویر نگاہوں میں گھومتی ہے۔ دیہاتی لڑکے کو حافظ حسین احمد نے ہوا میں اچھالا اور ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ کھلتا ہوا گندمی رنگ‘ تیکھے نقوش‘ درمیانہ قد اور گھنی سیاہ داڑھی۔ پچپن برس بیت گئے‘ جب آخری بار انہیں دیکھا تھا۔ سورۂ اخلاص زبانی یاد کر لی تھی۔ اس پر وہ شاد تھے۔
سکول جانے سے پہلے‘ ہم 42 جنوبی سرگودھا کی اس چھوٹی سی مسجد میں جمع ہوا کرتے۔ اپنا آموختہ دہراتے اور اگلا سبق لیا کرتے۔ ابتدائی کلاسیں سکول کے صحن‘ برآمدے یا سامنے شیشم کے چھتنار شجر کی چھائوں تلے ہوا کرتیں۔ اگر میں ایک مصور ہوتا تو مو قلم سے ماسٹر محمد رمضان کی ہو بہو تصویر بنا دیتا۔ لمبا قد‘ طویل گردن‘ چہرے پر ہمہ وقت سنجیدگی مگر نرمی اور شائستگی۔ شاید ہی کبھی سزا دیتے۔ ایسے گنوار بھی موجود تھے کہ انتباہ کے لیے‘ وہ لکڑی کی سال خوردہ کرسی سے اٹھتے تو طالب علم اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوتا۔ ایسے میں بے بسی کے ایک عجیب احساس کے ساتھ‘ واپس جا بیٹھتے اور زیرِ لب بڑبڑاتے ''تمہیں تمہاری تندرستی تنگ کرتی ہے‘‘۔
اگرچہ اس میں بڑے بھائیوں اور بہنوں کا دخل تھا۔ حافظے پر مگر میں زور دیتا ہوں تو میرا دل یہ کہتا ہے کہ اگر ماسٹر رمضان زندگی میں نہ آتے تو نوشت و خواند کا حال پتلا ہوتا۔ سردیوں کو سرِشام‘ طلبہ ان کے گھر میں طلب کئے جاتے‘ جہاں کبھی دن کے اجالے اور کبھی لالٹین کی روشنی میں اردو یا ریاضی کی مشق کیا کرتے۔
گائوں میں زیادہ تر مشرقی پنجاب کے مہاجر تھے‘ اکثریت جالندھر والوں کی تھی مگر دوسرے بھی۔ ماسٹر صاحب کا لہجہ ذرا مختلف تھا۔ ''تھی‘‘ یا اس کے پنجابی متبادل ''سی‘‘ کو وہ ''طی‘‘ کہا کرتے۔ گائوں کے شریر لڑکے غیاب میں انہیں ''ماسٹر طی‘‘ کہا کرتے۔ 
خوب یاد ہے کہ دوسری جماعت کے اختتام تک پہنچنے سے پہلے سولہ تک کے پہاڑے یاد کر لئے تھے۔ تیسری جماعت کے موسم خزاں تک‘ پانچویں جماعت تک نصاب کی کوئی بھی کتاب پڑھ لیا کرتا؛ اگرچہ بعض اوقات مفہوم کا ادراک نہ کر سکتا۔ معلوم نہیں آغاز کیسے ہوا لیکن پھر یہ معمول ہو گیا کہ گائوں کی کوئی خاتون خط پڑھوانے یا لکھوانے آتی تو یہ ذمہ داری ہم میں سے کسی کو سونپ دی جاتی۔ ''آپ کی خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب ہے‘‘۔ ''بھینس نے کٹا دیا ہے‘‘۔ اور ''عبدالرحیم نے دوسری جماعت کا امتحان پاس کر لیا ہے‘‘۔
موسم گرما کی چھٹیوں میں‘ اپنی بڑی بہن خلد آشیانی آپا جی کے ساتھ‘ لائل پور کے گائوں مڑھ بلوچاں کا سفر کیا‘ جہاں بلوچ قبائل کے جدِّ امجد کا مزار ہے۔ اپنے پھوپھی زاد بھائی‘ نمبردار میاں محمد ایوب کے گھر کا وسیع و عریض درختوں سے اٹا صحن بھی خوب یاد ہے۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ اور کھیل کود۔ چاروں طرف سرسبز کھیت‘ چوڑے پاٹ کی ایک نہر‘ جس کی وسعت حیران کیے رکھتی۔ کبھی جس کی گہرائی سے خوف محسوس ہوتا۔ مہمانوں کے لئے پراٹھے پکائے جاتے اور لذیذ شامی کباب تلے جاتے‘ جن کا ذائقہ آج بے طرح یاد آیا۔
ایک دن آپا نے انکشاف کیا کہ ان کا چھوٹا بھائی کوئی سی اردو کتاب پڑھ سکتا ہے۔ اس کے بعد ایک کھیل شروع ہو گیا۔ خاندان کی خواتین اور بڑے بہن بھائیوں میں سے کوئی ایک کتاب اٹھا لاتا۔ چارپائی کے گرد ایک مجمع ہوتا اور امتحان کا آغاز ہو جاتا۔ ظاہر ہے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہوں گی۔ اکثر لیکن حیرت کا اظہار کیا جاتا گویا یہ ایک چھوٹا سا جادو ہے۔
دو تین برس کے بعد خاندان نے اپنی مختصر سی زرعی زمین اور چھوٹا سا مکان فروخت کر دیا۔ رحیم یار خان کی امانت کالونی میں نوتعمیر کشادہ مکان اس کی منزل تھا۔ یہ ہجرت کسی مجبوری یا کاروباری ترجیح کے تحت نہ تھی بلکہ اس شہر کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے‘ تعمیر ملت ہائی سکول میں بچوں کی تدریس کے لیے۔
آج دوپہر علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال ملنے آئے۔ وہ کرید کرید کر سوال کرنے والے‘ حیرت انگیز یادداشت کے آدمی ہیں۔ کوئی غزل یا نظم نہ تھی‘ جس کا ایک آدھ مصرعہ بھی پڑھا ہو تو انہوں نے کم از کم دو تین شعر نہ سنا دیئے ہوں۔ دو اڑھائی سال پہلے پروفیسر احمد رفیق اختر کے ساتھ اپنی واحد ملاقات کی تفصیل انہیں ازبر تھی۔ اچانک انہوں نے کہا: ان کا ایک سوال سمجھ میں آ نہ سکا تھا۔ ازراہ اکرام خاموش رہا‘ کیا آپ اس کی وضاحت کر سکتے ہیں۔
ایک لمحہ تامل کیا اور الفاظ کی ترتیب کو پوری صحت کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی‘ ''کیا آپ نے یہ بے شمار اشعار کسی تعصب میں یاد کیے ہیں؟‘‘۔ عرض کیا‘ ''اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنے دادا سے ذاتی اور شخصی محبت کا نتیجہ ہے یا فکری وابستگی کا‘‘۔ اپنے دل میں‘ میں نے سوچا: نوجوان لیڈر کو یہ سوال اس وقت‘ انہی سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔ طالب علم اور استاد کے درمیان تامل کی دیوار حائل نہ ہونی چاہیے۔ اس وقت تو بالکل ہی نہیں جب استاد ایسا مشفق‘ مہربان اور کشادہ ظرف ہو۔ جس کے لیے زندگی کا مقصد ہی تعلیم اور اخلاقی بالیدگی ہو۔ 
ولید اقبال 9 نومبر کو یوم اقبال کی تقریب میں شرکت کی دعوت دینے آئے تھے‘ جو ان کے دفتر میں منعقد ہو گی۔ ایسی سادگی اور شائستگی کے ساتھ جو اپنے والد ڈاکٹر جاوید اقبال سے ورثے میں ملی ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا فکرِ اقبال کی روشنی میں‘ عصری سیاست اور اس کے پس منظر پر اظہار خیال ممکن ہے؟۔
مجھے وہ جملہ ان سے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اب اس پر شرمندگی ہے‘ دوستانہ بے تکلفی میں بے احتیاطی نے جس پر آمادہ کر دیا۔ عرض کیا: ساتویں جماعت سے اب تک اقبالؔ کو میں پڑھ رہا ہوں۔ ان کے سیاسی و فکری ارتقا پر کچھ نہ کچھ غورکیا ہے۔ تعمیر ملت ہائی سکول میں میرے اساتذہ بہت اچھے تھے۔ شاید آپ کے ایچی سن سے بہتر۔ ہمیشہ تیاری کرتا ہوں مگر اقبالؔ پر اچانک بات کرنی پڑے تو بھی شاید کچھ نہ کچھ نبھا دوں۔
پھر ایک موزوں خیال وارد ہوا‘ ڈاکٹر خورشید رضوی! سیاست پہ بات کرنا وہ پسند نہ کریں گے لیکن اگر کوئی اقبالؔ کی وسیع و عریض کائنات کے سب دروبام کو پہچانتا ہے تو وہ ڈاکٹر خورشید رضوی ہیں۔ ان کا قول یہ ہے کہ اقبالؔ کا ادراک وہی کر سکتا ہے‘ جو قرآن کریم‘ سیرتِ رسول‘ مسلم تاریخ اور مشرقی و مغربی فلسفے کا شناور ہو۔ کیا خبر کب ان کا اشارہ غالبؔ کے کسی مصرعے یا ہیگل کے کسی فلسفے سے ہاتھ ملاتا ہو۔ ادبی تاریخ کا کوئی کردار‘ سیرتِ رسول یا فرمانِ الٰہی کی کوئی جہت۔ پھر مولانا روم یاد آئے۔
ہفت شہرِ عشق در عطار گشت
میں ہنوز اندر خمِ یک کوچہ ایم
پھر جگر مراد آبادی یاد آئے۔
ان کا حریم ناز کہاں اور ہم کہاں
نقش و نگارِ دیوار و در دیکھتے رہے
چک نمبر42 جنوبی‘ ماسٹر محمد رمضان مرحوم‘ تعمیر ملت ہائی سکول یا اس عظیم مجدد اقبالؔ کے ذکر کا ہرگز کوئی ارادہ نہ تھا۔ میاں محمد شہباز شریف کے ارشاد گرامی پر‘ جسٹس جاوید اقبال کے ردّعمل پہ بات کرنے کے لئے دن بھر سوچتا رہا۔
انسانی ذہن عجیب ہے۔ بھٹکتا ہے تو بھٹکتا ہی چلا جاتا ہے۔ پھر ایک سوال نے ذہن میں پڑائو ڈال دیا۔ امیر زادوں کو کوئی استاد کیوں نصیب نہ ہوا‘ جو ان میں مطالعے کا ذرا سا ذوق ہی پیدا کر دیتا؟ بات کرنے کا سلیقہ ہی سکھا دیتا۔ بسوں پر لکھے شعر تو نہ پڑھا کرتے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved