تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     22-10-2017

پٹڑی پر گاڑی

پاکستانی سیاست پر ایک بار پھر غیر یقینی کے بادل چھا رہے ہیں۔ طرح طرح کے دانشور طرح طرح کے نکتے پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک بڑی تعداد ایسی ہے جسے دانش سے واجبی ہی سا تعلق رہ گیا ہے۔ نفرت، بغض، حسد اور تعصّب نے ان کی بینائی کو متاثر کر رکھا ہے۔ نہ وہ تاریخ پر نظر ڈالنے کو تیار ہیں، نہ مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے بزعم خود ترجمان وہ ہیں، جن کو قومی یا صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ تو کیا، ان کے ہمسایے بھی ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ انہیں پوری قوم کا ترجمان سمجھ لیا جائے۔ ہر شخص ان کی آنکھوں سے دیکھے، ان کے کانوں سے سنے اور ان کی زبان سے بولے، جو ایسا کرنے سے انکار کر دے، اپنے راستے پر چلے اور اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر اصرار کرے، اس پر یہ کیچڑ اچھالنے اور تہمتیں لگانے کو حقائق کی نقاب کشائی قرار دیتے ہیں۔ ایسے ایسے بھی ہیں جنہیں پاکستان کی کوئی شے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ہر ایک سے کیڑے نکال کر دکھاتے ہیں، اور اگر تلاش نہ کر سکیں تو جیب سے نکال کر ڈال دیتے ہیں۔
ہر وہ شخص‘ جو پاکستان کی تاریخ اور سیاست سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے بلکہ یہ کہیے تو غلط نہ ہو گا کہ علم سیاسیات کی کچھ بھی شُد بُد رکھتا ہے‘ اِس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان تو کیا کسی بھی ملک کا مستقبل اس کے نظام (یا نظم) سے بندھا ہوا ہے۔ ترقی کوئی گملے کا پودا نہیں ہے کہ اسے کسی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے۔ یہ ایک ایسا شجر ہے جس کا بیج ہر ملک میں الگ الگ لگانا اور سینچنا پڑتا ہے۔ تب کہیں یہ (زمین سے) سر نکالتا اور اٹھاتا ہے۔ اسے پھول اور پھل نصیب ہوتے ہیں۔ ترقی کی گاڑی تسلسل کی پٹڑی پر چلتی ہے۔ جہاں نظام بار بار بدلا جائے، یا جہاں قانون کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے قانون بدلنے پر زور دیا جائے گا، جہاں قانون کو طاقت نہیں، طاقت کو قانون مانا جائے، وہاں ترقی نام کی شے دیکھنے میں نہیں آ سکتی۔ یہ پودا کھلنے سے پہلے ہی مرجھا سکتا ہے، اور مرجھاتا رہا ہے۔ ہم نے کئی تجربے کر کے دیکھ لئے ہیں۔ مارشل لاء سے بھی بار بار استفادہ کیا۔ صدارتی نظام نافذ کر کے بھی بغلیں بجانے والوں نے بغلیں بجائیں۔ نیم پارلیمانی اور نیم صدارتی نظام بھی نافذ کیا۔ صدرِ مملکت کو با اختیار کر کے بھی دیکھا اور بے اختیار کر کے بھی مسرت کا اظہار کیا، صدر اور وزیر اعظم کا ملغوبہ تیار کر کے بھی آزمایا‘ لیکن نتیجہ یہ ہاتھ آیا کہ کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ جس دستور کو ہم نے سات سال کی محنت سے بنایا تھا، اُسے آنِ واحد میں تاراج کر ڈالا۔ ایک لمبی چوڑی چارج شیٹ تیار کر کے اجتماعی ذہانت کی نفی کردی، اور شخص واحد نے کروڑوں افراد کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے کر اسے سنوارنے کا دعویٰ کیا۔ ایک نیا دستور نافذ کیا گیا، ملک میں ایک طرح کی ''خانہ جنگی‘‘ کی بنیاد رکھ دی... بالغ رائے دہی کا حق چھین لیا گیا، براہِ راست انتخاب کے بجائے 'بے راہِ راست‘ صدر اور ارکان اسمبلی چننے کا طریقہ ایجاد کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو پابندِ سلاسل کیا۔ بنیادی حقوق کا باب تک آئین میں درج کرنے سے انکار کر دیا۔ اور تو اور، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بدل کر صرف پاکستان کر ڈالا۔ بانیانِ پاکستان نے اپنے ملک کی تعریف کے لئے ''اسلامی جمہوریہ‘‘ کا جو سابقہ لگایا تھا، اُسے غیر ضروری قرار دے دیا گیا کہ نام میں کیا رکھا ہے، کام اچھا ہونا چاہئے۔ اس پر ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا، بڑی مشکل سے موٹے دماغ میں یہ بات ڈالی گئی کہ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔ گلاب کا نام گوبھی رکھنے سے وہ گوبھی نہیں بن جائے گا، نہ ہی سیب کا نام انگور رکھنے سے اسے انگور بنایا جا سکے گا۔ اس لیے الف دین کو الف دین ہی رہنے دیں، بے دین نہ بنائیں، خدا کا خوف کھائیں۔ بصد مشکل یہ خوف کھا لیا گیا اور پاکستان کو اس کا نام واپس کرنا پڑا۔
اگر 1956ء کا دستور نافذ رہتا، اس میں ضرورت کے مطابق مجاز ادارے ترمیم کرتے رہتے تو وہ وقت ضائع نہ ہوتا، جو اسے منسوخ کرنے والوں کے خلاف جدوجہد میں لگایا گیا۔ فردِ واحد کے دستور کے خلاف بغاوت ہوئی تو وہ اپنے دستور سمیت بھاگ نکلا۔ نئے دستور کا ڈول ڈالا گیا تو ملک دو ٹکڑے ہو گیا کہ دستور بنانے کے لئے محبت اور اخوت کے جس جذبے کی ضرورت تھی، وہ مفقود ہو چکا تھا۔ جو کام ہنی مون کے زمانے میں ممکن ہوں، وہ بچوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے باہم دست و گریباں میاں بیوی سے سرزد نہیں ہو پاتے۔
خدا خدا کر کے 1973ء میں دستور بنایا گیا تو اسے بھی کئی آزمائشوں میں مبتلا کر دیا گیا۔ بہت کچھ ڈالا اور بہت کچھ نکالا گیا، لیکن اطمینان ہے کہ ہونے میں نہیں آ رہا۔ یہ دستور دو طویل مارشل لا بھگت چکا ہے، لیکن ابھی تک زندہ سلامت ہے کہ نیا دستور بنانے کا حوصلہ نہیں ہو پاتا، ماضی ڈراتا اور دھمکاتا ہے۔ اب ایک بار پھر نظام پر غصہ اتارا جا رہا ہے، اچھی بھلی جمہوریت، جو دہشت گردی، اور لوڈ شیڈنگ کے دو بڑے مسائل سے نمٹنے میں کامیاب ہو چکی، اس میں پھڈے ڈالے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کو گھر بھجوایا جا چکا، وہ عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن کچھ لوگوںکی خواہشات قابو میں نہیں آ رہیں۔ طرح طرح کی پٹیاں پڑھائی جا رہی ہیں اور طرح طرح کی ہوائیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جمہوریت میں کیڑے ڈالے اور نکالے جا رہے ہیں، تبدیلی کے نعرے پُر زور اور پُر جوش ہیں، سب کچھ بدلنے کی خواہش ایسی ہے کہ کچھ بھی بدل نہیں پاتی۔ بار بار پرائمری سکول میں داخلے سے تو ایم اے کا امتحان پاس نہیں کیا جا سکتا۔ جس امتحان میں سپلی آئی ہو، اس کا امتحان تو دوبارہ دیا جا سکتا ہے، لیکن الف بے اور اے بی سی کا قاعدہ ہاتھ میں پکڑا کر تعلیمِ بالغان کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے۔ آرزوئیں جیسی بھی بلند ہوں، ٹرین کے ڈبے سڑک پر فراٹے نہیں بھر سکتے، انہیں بہرحال پٹڑی پر ہی چلانا پڑے گا، اے وہ لوگو،جو گاڑی کے اندر ہو یا باہر ہو، اسے ڈی ریل نہ ہونے دینا۔ منزل تو کھوٹی ہو گی ہی، ہڈی پسلی بھی ایک ہو سکتی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
ہر وہ شخص‘ جو پاکستان کی تاریخ اور سیاست سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے بلکہ یہ کہیے تو غلط نہ ہو گا کہ علم سیاسیات کی کچھ بھی شُد بُد رکھتا ہے‘ اِس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان تو کیا کسی بھی ملک کا مستقبل اس کے نظام (یا نظم) سے بندھا ہوا ہے۔ ترقی کوئی گملے کا پودا نہیں ہے کہ اسے کسی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے۔ یہ ایک ایسا شجر ہے جس کا بیج ہر ملک میں الگ الگ لگانا اور سینچنا پڑتا ہے۔ تب کہیں یہ (زمین سے) سر نکالتا اور اٹھاتا ہے۔ اسے پھول اور پھل نصیب ہوتے ہیں۔ ترقی کی گاڑی تسلسل کی پٹڑی پر چلتی ہے۔ جہاں نظام بار بار بدلا جائے، یا جہاں قانون کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے قانون بدلنے پر زور دیا جائے گا، جہاں قانون کو طاقت نہیں، طاقت کو قانون مانا جائے، وہاں ترقی نام کی شے دیکھنے میں نہیں آ سکتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved