تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-10-2017

چلو اچھے بچو… جیسے تھے!

لگتا ہے شہباز شریف کو نیا این آر او مل گیا ہے۔
اچانک ہر طرف ان سے محبت کرنے والوں کا اضافہ ہو گیا ہے۔ 
میرے انتہائی محترم کوٹ ادو کے ایم این اے سلطان ہنجرا‘ جو قومی اسمبلی میں اپنے سرائیکی علاقے کے لیے ایک دن بھی نہیں بولے، نے ایک جلسے میں سرعام فرمایا کہ انہوں نے''نواز شریف کو لندن فون کیا کہ فوراً صدارت کی کرسی چھوڑ کر شہباز شریف کے حوالے کر دیں‘‘ اور شہباز شریف کو حکم دیا کہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں کو ایک روپیہ فنڈ کا نہ دینا کیونکہ یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ 
اب شہباز شریف بھلا کیسے نواز شریف سے پوچھ سکتے ہیں کہ سلطان ہنجرا کی ڈانٹ کے باوجود آپ نے ابھی تک پارٹی کا عہدہ کیوں نہیں چھوڑا؟ رہی سہی کسر ریاض پیرزادہ نے پوری کر دی اور پریس کانفرنس میں فرمایا کہ شہباز شریف فوراً پارٹی قیادت سنبھال لیں۔ لگتا ہے ایک دفعہ پھر سرائیکی علاقے کے ایم این ایز کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ آخر میں سب ایم این ایز مل کر مطالبہ کریں گے کہ شہباز شریف کو پارٹی صدر بنایا جائے‘ اور ہو گا بھی یہی‘ لیکن ملبہ سب سرائیکیوں پر گرے گا کہ دیکھا یہ سب سے پہلے بھاگتے ہیں اور چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔
کسی کو شاید یاد نہیں ہے کہ پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت، ہارون اختر، ہمایوں اختر، اعجازالحق، شیخ رشید‘ ق لیگ کے سرخیل تھے۔ انہوں نے جنرل مشرف کو سیاسی زندگی عطا کی‘ لیکن یہ سب کو یاد ہے کہ جمالی حکومت بنانے کے لیے سرائیکی علاقوں سے فیصل صالح حیات، رضا حیات ہراج اور اٹھارہ ایم این ایز نے پیپلز پارٹی کو دھوکا دیا تھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے جنرل مشرف سے لکھ کر معافی مانگی اور ڈیل کر لی تو کسی کو یاد نہیں‘ لیکن جنوبی پنجاب کے کارنامے سب کو یاد ہیں۔ جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی کا جیل میں بیٹھ کر مزاحمت کرنا کسی کو یاد نہیں۔ اب وہی کام سلطان ہنجرا اور ریاض پیرزادہ کر رہے ہیں‘ اور آنے والے کئی برس ہمیں طعنے سننا پڑیں گے۔ 
ترقی کرنی ہو تو لاہور لیکن سیاسی کوڑا کرکٹ اٹھوانا ہو تو سرائیکی علاقوں کے ایم این ایز سے کام لیا جاتا ہے۔ وہ بھی بھاگ کر آتے ہیں۔ چار سال کسی نے انہیں قریب نہیں پھٹکنے دیا‘ اور اب اچانک جنوبی پنجاب کے ایم این ایز بہت محترم ہوگئے ہیں۔
میرے بڑے ماموں کا گائوں سے ناراضی بھرا پیغام تھا: تمہیں پتا ہے سلطان ہنجرا میرا پرانا دوست اور کلاس فیلو ہے‘ پھر بھی تم نے ٹی وی پر اس پر تنقید کی۔ ماموں ایک روایتی انسان ہیں۔ انہوں نے مجھے سخت برا بھلا کہا‘ لیکن میں چپ رہا‘ تاہم ان کے بیٹے کو بعد میں کہا: میں توقع رکھتا تھا‘ ماموں اپنے دوست ہنجرا سے پوچیھں گے‘ تم نے کیوں کہا کہ جنوبی پنجاب کو فنڈز کی ضرورت نہیں۔
لگتا ہے پھر وہی موسم آ گیا ہے جب برسوں کی محنت کے بعد قوم کو کچھ پھل ملنے لگتا ہے تو اچانک کہیں سے کوئی غیبی ہاتھ نمودار ہوتا ہے اور سب کچھ ''ٹھیک‘‘ ہوجاتا ہے۔ یہ غیبی ہاتھ معاشرے کو جامد کئے ہوئے ہے۔ مجھے محمود خان اچکزئی کا ایک فقرہ یاد آتا ہے‘ ''یہ غیبی ہاتھ پہلے نالائق لوگوں کو سیاست میں لاتا ہے، انہیں پروموٹ کرتا ہے، انہیں کرپٹ کرتا ہے اور پھر بلیک میل کرکے پیچھے سے ان کی ڈوریاں ہلاتا ہے‘‘۔ 
بہت سارے لوگ پوچھتے ہیں: زرداری کو گیارہ سال جیل رکھ کر بھی سزا نہیں ہوئی۔ وہ بے قصور تھے؟ میں ہمیشہ کہتا ہوں: اسے سزا دینا مقصود نہ تھا‘ اصل مقصد اسے جیل میں رکھ کر بینظیر بھٹو سے ڈیل کرنا تھا۔ یہ کام صدر غلام اسحاق خان نے کیا جب انہوں نے اسی زرداری کو نگران حکومت میں جیل سے بلوا کر حلف دلوایا‘ جو انہی کے بنائے ہوئے مقدمات پر جیل گیا تھا۔ اگر زرداری کو سزا ہو جاتی تو کیا بینظیر غلام اسحاق خان کا ساتھ دے کر نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے میں ساتھ دیتیں؟ مقدمات کی تلوار لٹکا کر ہی یہ کام ہو سکتا تھا۔ اگر بینظیر بھٹو اور زرداری کو مقدمات میں سزا ہو جاتی تو بھلا جنرل مشرف اپنی سیاسی زندگی کے لیے ان دونوں کو این آر او پر راضی کر پاتے؟ بینظیر بھٹو بھی جنرل مشرف کو اس لیے صدر بنانے پر راضی ہو گئی تھیں کہ انہیں اپنے مقدمات ختم ہوتے نظر آرہے تھے۔ جنرل مشرف کو اقتدار میں توسیع نظر آرہی تھی لہٰذا وہ این آر او پر تیار ہوگئے۔ 
جنرل مشرف دور میں نیب کے چیئرمین جنرل امجد کی قیادت میں یہی کام ہوا۔ جو بھی ہاتھ لگا اسے پکڑ کر جیل میں ڈالا اور بھول گئے۔ جب سب نیب ملزمان جنرل مشرف کا حلف اٹھانے پر تیار ہو گئے تو ان کی ضمانتیں ہو گئیں۔ اب بتائیں‘ نیب سزا دے دیتی تو پھر ان سیاستدانوں کو جنرل مشرف اپنے اقتدار کے لیے استعمال کر پاتے؟ لہٰذا مقدمات کو تلوار کی طرح استعمال کرنا مقصود تھا۔ 
اب سوال یہ ہے جو طاقتیں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو مسلم لیگ کے اندر نیا کردار دینا چاہتی ہیں‘ وہ کیسے باپ بیٹے‘ دونوں کو حدیبیہ سکینڈل سے بچائیں گی؟ حدیبیہ سکینڈل میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز مرکزی ملزم ہیں۔ اس سکینڈل کا درجنوں دفعہ پانامہ سکینڈل کی سماعت دوران ذکر کیا گیا۔ آخرکار نیب نے سپریم کورٹ میں اسے ری اوپن کرنے کی درخواست دائر کردی۔ وہ کورٹ جو مسلسل کہہ رہی تھی کہ حدیبیہ کیس کھولا جائے وہ اچانک خاموش ہو گئی اور اب ہمیں ریاض پیرزادہ بتا رہے ہیں کہ شہباز شریف ہی ہمارا نیا لیڈر ہے۔ سوال یہ ہے کیا ریاض پیرزادہ کو علم نہیںکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں حدیبیہ میں ملزم ہیں اور یہ مقدمہ کھلنے کی صورت میں ان کا بھی وہی حال ہوگا جو نواز شریف کا ہوا تھا۔
ریاض پیرزادہ سمجھدار ہیں۔ وہ ریس کے جیتنے والے گھوڑے پر ہی بازی لگائیں گے۔ تو کیا شہباز شریف کی خفیہ ملاقاتیں رنگ لارہی ہیں، جن کے لیے وہ مشہور ہیں۔ لگتا ہے‘ پرانا کھیل شروع ہوگیا ہے کہ کبھی ایک کو آگے کر دو اور کبھی دوسرے کو۔ کسی کی لگام خود تھام لو تو کبھی کسی ادارے کے ہاتھ میں دے دو۔ جب تک کلیئرنس نہ ہو‘ سب خاموش رہیں۔ 
جس طرح حمزہ شہباز نے مریم نواز اور اپنے تایا کی سیاسی فلاسفی کو چیلنج کیا‘ اس سے لگتا ہے‘ معاملات طے ہوگئے ہیں۔ غالباً شہباز شریف بھی سمجھ چکے ہیں کہ شریف خاندان کو بچانے کا آخری راستہ یہ ہے کہ نیا این آر او لیا جائے۔ نواز شریف کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ دونوں بھائی پھر ''گڈ کاپ بیڈ کاپ‘‘ کھیل رہے ہیں تاکہ شہباز شریف خفیہ طاقتوں سے بہتر سیاسی ڈیل کر سکیں اور بتا سکیں کہ بھائی جان کا ان پر کتنا دبائو ہے‘ اور ان کے لیے اپنے بھائی کی جگہ لینا کتنا تکلیف دہ ہے‘ لہٰذا انہیں مناسب سیاسی قیمت ملنی چاہیے۔
سیاسی قیمت دو طرح کی ہو سکتی ہے۔
انہیں حدیبیہ کیس میں وہ سزا نہ ہو جو نواز شریف یا ان کے بچوں کو دی گئی۔ مطلب‘ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو کچھ نہ کہا جائے۔ اس قیمت پر وہ خاندان سے بغاوت پر تیار ہوں گے۔ شہباز شریف کو لگ رہا ہے کہ بھائی اور بھتیجی جس راستے پر چل رہے ہیں‘ اس سے خاندان نے جو کچھ کمایا ہے‘ وہ تو گنوائیں گے ہی، دس برسوں سے جو حکومت چل رہی ہے وہ بھی چھن جائے گی۔ ایک اچھا کاروباری یہ نقصان نہیں کرے گا کہ جن گھروں کا خرچہ چلانے اور سکیورٹی پر دس دس ارب روپے عوام کے ٹیکسوں سے لگ رہے ہیں، وہ اچانک اپنی جیب سے لگانے پڑ جائیں۔ کرسی چلی گئی تو آسمان سے نیچے اتر کر زمین پر کیسے رہا جا سکے گا۔ 
ویسے داد شہباز شریف کو نہیں، ان کو بنتی ہے جو انہیں نیا این آر او دے رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ فیملی میں کرسی ایک بھائی سے دوسرے بھائی کو دے دی جائے‘ وہ لوٹتے رہیں اور اس کے بدلے میں بس ہمارے سامنے سر جھکا کر رہیں۔ 
میرے خیال میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ 
مجھے یاد آیا‘ کالج دور میں جب این سی سی کی پریڈ ہوا کرتی تھی تو مختلف ایکسرسائز کرانے کے بعد زور سے آواز آتی تھی...جیسے تھے...مطلب اسی پوزیشن میں چلے جائو‘ جس پر پہلے کھڑے تھے۔
لگتا ہے پھر بھولی قوم کو‘ جو انصاف اور انقلاب کی امید لگائے بیٹھی ہے، وہی شائوٹنگ آرڈر (حکم) ملنے والا ہے... جیسے تھے۔ 
کرپٹ اور کرپشن کے ساتھ ایک دفعہ پھر سمجھوتہ کرو... چلو اچھے بچو... جیسے تھے...! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved