تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-10-2017

قوم بنانے کا طریقہ

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کھانے پینے کی اشیاء کب تک ہمیں ڈکارتی رہیں گی، ہمارا خون پیتی رہیں گی۔ جوہری قوت ہونے کے باوجود معمولی (بے وقعت نہیں بلکہ عام طور پر دستیاب) سبزیاں اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء ہمیں آنکھیں دکھاتی اور نیچا دکھانے پر تُلی رہتی ہیں۔ یہ دن بھی دیکھنا تھے کہ آلو، ٹماٹر، پیاز وغیرہ کو قومی اور صوبائی سطح پر سنجیدہ بحث کا موضوع بنایا جائے گا!
قوم کا نفسیاتی ڈھانچا بھی عجیب شکل اختیار کر چکا ہے۔ جیسے ہی کسی چیز کی قلت کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، اُس کی خریداری میں ایسی تیزی آ جاتی ہے کہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ ذرا سی گرمی پڑتی ہے تو لوگ دہی لینے دوڑ پڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دکانوں سے دودھ، دہی یوں غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سَر سے سینگ! ایسی ہی کیفیت عیدین کے موقع پر بھی پیدا ہوتی ہے۔ پیاز، ادرک وغیرہ پر لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں اور ضرورت سے کہیں زیادہ جمع کر لیتے ہیں۔ سید حبابؔ ترمذی نے خوب کہا ہے ؎ 
حبابؔ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی 
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نفس کیا!
خواہش اپنی جگہ، ہوس بھی درست مگر صاحب، دل پر کچھ تو اختیار ہو۔ ہم حالتِ جنگ میں تو نہیں۔ اِس نوعیت کی شدید بے حواسی اور بے اعتمادی تو اُس وقت نمودار ہوا کرتی ہے جب کوئی جنگ اپنے نقطۂ عروج پر ہو اور اُس جنگ کے شکنجے میں کسے ہوئے لوگ ایک ایک چیز کو ترس رہے ہوں!
ضمیرؔ جعفری مرحوم نے کہا تھا ؎ 
شہر میں بٹنا ٹی وی کی تقریب کے دعوت ناموں کا 
منظر تھا راشن ڈپو پر پبلک کے ہنگاموں کا! 
ٹی وی کی تقریب کے دعوت ناموں کی طلب تو اب کم ہی لوگوں کو رہ گئی ہے مگر ہاں، راشن ڈپو پر پبلک کے ہنگاموں والا منظر دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ کیفیت وہی ہے، بس شکل بدل گئی ہے۔
پیاز، ٹماٹر، آلو، ادرک وغیرہ کی بحث پنجاب اسمبلی تک پہنچ گئی ہے۔ جمعہ کو ایوان کی کارروائی کے دوران پنجاب کے وزیر صنعت و تجارت شیخ علائو الدین نے ایک ایسا مشورہ دیا جو خاصا غیر معقول اور ''بعد از وقت‘‘ تھا۔ کھانے پینے کی اشیاء کے بڑھتے، بلکہ بے قابو ہوتے ہوئے نرخوں کی بات چلی تو شیخ صاحب نے نہایت پُر جوش انداز سے کہا کہ قوموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جو کچھ نہ کھایا جا سکتا ہو‘ وہی کھانا پڑتا ہے۔ ہجوم سے قوم بننے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ صاحب نے بتایا کہ حالتِ جنگ میں قومیں (شدید مجبوری کی حالت میں) کتے، بلیاں، چوہے بھی کھا جاتی ہیں!
پہلی بات تو یہ ہے کہ بہت سی قومیں کتے، بلیاں، چوہے وغیرہ کھانے کے لیے جنگ کا انتظار نہیں کرتیں۔ اُنہیں اِن حیوانات کا گوشت حالتِ امن میں بھی بہت اچھا لگتا ہے! اور دوسری بات یہ کہ ہم کسی بھی اعتبار سے حالتِ جنگ میں نہیں۔ پاکستان شدید ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہونے کے باوجود اب تک نسبتاً بہت اچھے حالات کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ حالتِ جنگ کے تذکرے سے پاکستان کو صومالیہ، کانگو، روانڈا یا کسی اور گئے گزرے افریقی ملک سے مشابہ قرار نہ دیا جائے۔ ہم لاطینی امریکا کے متعدد ممالک سے بھی بہتر حالت میں ہیں۔
شیخ صاحب نے مِنی بجٹ کے ذریعے بہت سی اشیاء پر عائد کی جانے والی اضافی ڈیوٹی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سُرخی، پاؤڈر، پان وغیرہ ایسی اشیاء ہیں جن سے غریبوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا۔ انہوں نے گاڑیوں، پان اور چھالیہ کو ''عوام دشمن‘‘ اشیاء میں شمار کیا ہے! کیا اب یہ بھی حکومت طے کرے گی کہ غریب کو کس چیز سے فائدہ پہنچتا ہے اور کس چیز سے نقصان؟ میک اپ کی عام اشیاء اب تعیشات دائرے میں ہیں کہاں؟ یہ تو عام استعمال کی اشیاء شمار ہوتی ہیں۔ ماحول کی آلودگی نے بہت سی ایسی اشیاء کا استعمال ناگزیر بنا دیا ہے جو کل تک تعیشات میں شمار ہوتی تھیں۔ ایل سی ڈی، ایل ای ڈی (ٹی وی) پر بھی ڈیوٹی میں 40 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ اشیاء بھی صرف امیروں کے استعمال میں رہتی ہیں؟ انتہائی مہنگے موبائل فون پر ڈیوٹی بڑھانا سمجھ میں آتا ہے مگر عام سے فون کی قیمت میں اضافے کا کوئی جواز نہیں۔
شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ہجوم سے قوم بننے کے عمل میں بہت کچھ قربان تو کرنا ہی پڑے گا۔ اُن کی اس بات کے برحق ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر ذرا یہ صراحت بھی تو فرمائی جائے کہ کسے کیا قربان کرنا ہے۔ جو مزے میں ہیں ان کے مزے بڑھائے جا رہے ہیں اور جو پس کر رہ گئے ہیں اُنہیں مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق مزید پیسا جا رہا ہے۔ لوگوں سے جینے ہی کا حق چھینا جا رہا ہے۔ سرکاری مشینری اور سیاست دان دونوں ہی مزے میں ہیں۔ بیورو کریسی اپنی مرضی کے مطابق جتنے فوائد بٹور سکتی ہے، بٹور رہی ہے۔ منتخب ایوانوں کے ارکان اپنی تنخواہوں اور مراعات میں جب تب من چاہا اضافہ کر لیتے ہیں۔ ع
تیر پر تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے! 
شیخ علائو الدین وزیر صنعت و تجارت ہیں۔ سبزیوں اور دیگر ضروری اشیاء کے ہوش رُبا نرخوں کے بارے میں ایوان کو اگر کچھ بتانا تھا تو وزیر خوراک بلال یٰسین کو بتانا چاہیے تھا۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سبزیاں سستی ہوں، ان کے نرخ قابو میں رکھے جائیں مگر جواب میں کسی صنعتی فارمولے کی طرح کتے، بلیاں، چوہے کھانے کی مثال بیان کی جا رہی ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ کتے کھانے کا مشورہ ''بعد از وقت‘‘ ہے کیونکہ قوم اس مرحلے سے گزرتی رہی ہے اور گزر رہی ہے۔ اور محض کتوں پر کیا موقوف ہے، یہاں تو گدھے بھی معدوں میں سموئے جاتے رہے ہیں! فرق صرف اتنا ہے کہ یہ عمل عوام کو اندھیرے میں رکھ کر کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی شاید ''مہربانی‘‘ کے کھاتے میں ہے کہ کسی کو اصلیت جان کر تکلیف نہ پہنچے!
بکرے کے نام پر کتے کا گوشت کھلایا جاتا رہا ہے۔ بیف کی آڑ میں گدھے نمٹائے جاتے رہے ہیں۔ منافع خور مافیا معمولی سبزیوں کے دام آسمان پر پہنچا کر دو وقت کے کھانے کا اہتمام بھی دشوار بنا رہا ہے۔ دودھ، دہی جیسی عام سی اشیاء بھی عوام کی دسترس سے باہر کی جا رہی ہیں۔ عام آدمی کے لیے بچے کو سوتے وقت ایک کپ دودھ پلانا بھی تعیشات کے زُمرے میں آ گیا ہے۔ شیخ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ اہلِ وطن اِتنا کچھ تو جھیل رہے ہیں، ذرا تفصیل سے بتایا جائے کہ ہجوم سے قوم بننے کے عمل میں ابھی کیا کیا کرنا ہے! ؎
خونِ دل بہہ چلا ہے آنکھوں سے 
زندگی اور چاہتی کیا ہے! 
ایوان میں بحث کے دوران شیخ علائو الدین نے ایک بات درست کہی۔ وہ یہ کہ عوام میں شعور پیدا نہ ہوا تو وہ کبھی قوم نہیں بن سکیں گے۔ اہلِ وطن کے لیے اب باشعور ہونا لازم ہو چکا ہے۔ اگر وہ اس حوالے سے اب بھی نہ جاگے تو زندگی جیسا بے مثل ایڈونچر محض دو وقت کی روٹی کے لیے کی جانے والی تگ و دَو تک محدود ہوکر رہ جائے گا اور جن کے ہاتھ میں اقتدار و اختیار ہے‘ وہ اپنی مرضی کے مطابق ہر وہ عمل کر گزریں گے جس سے عام آدمی کو شاہ دولہ کا چوہا بنانے میں زیادہ سے زیادہ مدد مل سکتی ہو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved