وفاقی حکومت کی سربر اہ آ لِ شریف نے وفاقی عدالت میں کھڑے ہو کر فردِ جرم لگوائی مگر باہر نکلتے ہوئے کہا سزا دے دو۔
فردِ جرم لگائے جا نے کے وقت اگر،ملزم یہ جملہ کہہ دے کہ سزا دے دو تو اسے واقعی سزا سنا دی جاتی ہے ۔ جسے شک ہو ضابطہ فوجداری کی دفعہ265ذیلی دفعہ Eپڑھ کر شک دور کر لے۔
گائوں والوں کے رویے سے بیزارایک دیہاتی نے دعا کی‘ مالک مجھے اٹھا لے ۔ سفید پوش سیانا بزرگ اس کے گھر کے باہر سے گزر رہا تھا۔ دیہاتی نے پگڑی کو ڈھیلا کیا ۔ چہرہ ڈھانپا اور دروازے سے اندر داخل ہوگیا ۔ بزرگ نے پوچھا کون ۔بزرگ نے آواز بدلی اور کہا ، اجل کا فرشتہ ۔ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے۔ اٹھ تیری جان نکالوں۔ دیہاتی کو ٹھنڈا پسینہ آیا۔ کانپتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ کہنے لگا، کمال ہے میں نے تو مخول کیا تھا۔ آپ میرے مذاق پر اتنے جلدی سنجیدہ ہوگئے۔
فرد ِجرم تو بے فیض حکمرانی پر صدر ممنون نے بھی لگائی ہے۔ میڈیا رپورٹس صدارتی چارج شیٹ کے تین حصے بتاتی ہیں۔ پہلا حصہ... قوم سوال پوچھے اربوں ، کھربوں کے قرضے آئے تھے، مگر گئے کہاں ، کس نے کھالیے۔ صدارتی چارج شیٹ کا دوسرا حصہّ یہ ہے کہ نا اہل کو اہلیت کی پارلیمانی کرسی باقاعدہ قانون پاس کرکے پارلیمنٹ نے کیوں کردے ڈالی۔ اس کا تیسرا حصّہ ملکی نظام کو درپیش خطرات کے بارے میں ہے۔ یہ علیحدہ سے ایک مکمل فرد جرم ہے۔ جو نااہل وزیر اعظم اور اس کے حواریوں پر ابھی تک نہیں لگائی گئی ۔
سیاسی مخالفوں پر بدعنوانی کے جس قدر الزام آلِ شریف نے لگائے اتنی فراخ دلی کا مظاہرہ پچھلے چھتیس سال میں کوئی اور نہیں کرسکا ۔ سیاسی مخالفوں کے خلاف واجب القتل کے فتوے ۔ سیاسی مخالفوں کا قتل عام ۔ پکڑاگیا سائیکل چوری میں الزام لگا دیا ڈرگ ڈیلنگ کا ۔ سیاسی مخالفوں کی زبان عملی طور پر کاٹنے سے لے کر ہر میگا پراجیکٹ میں غریبوں کی جیب کاٹنے تک ۔ خواتین سیاسی لیڈروں کے خلاف ناقابل بیان زبان کا آزادانہ استعمال۔ساتھ ہی ان کی من گھڑت قابل اعتراض تصویروں کی تقسیم کے لئے ہوائی جہازوں کی اڑانیں ۔ لندن اور امریکہ میں سرکاری خرچ پر ملک کی معزز عدلیہ اور قابل فخر فوج کے خلاف مودی کے لفظ اشرف غنی کے لہجے میں بولنا۔ ایشیاء کی فوڈ باسکٹ دیس پنجاب میں 300روپے کلو ٹماٹر اور 300روپے کلو تک لہسن کی قیمت کو پہنچانے کی ظالمانہ واردات ۔
کیوں نکالا کے صرف تین جواب احتساب عدالت کے جج صاحب نے3 وارداتوں کے حوالے سے دیئے ہیں ۔ لیکن وہ چارج شیٹ جو مرتب نہ ہوسکی ۔ اور وہ فرد جرم جو ابھی تک نہیں لگائی گئی اس کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ اعلیٰ ترین عہدوں پر زائد العمر ، کم تر پیشہ ورانہ معیار اور انتہائی بڑے اداروں میں مسخرے تعینات کرکے دنیا کو پیغام دیا گیا پاکستان ایک ڈوبتی ہوئی ریاست ہے۔ ابھی تو احتساب کی الف کی طرح اس نظام کی کمر بھی سیدھی نہیں ہوسکی ۔ جِس دن ادارہ جاتی احتساب اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا ۔ اُس روز ہر محکمے کی فرد عمل اور ہر ادارے کا دفتر عمل حشر سامانی کی کرپشن کہانی سنائے گا۔ پانامہ سے وہ ساری خفیہ کمپنیاں لیک ہوگئیں۔ جن کے پکڑے نہ جانے کے یقین پر آلِ شریف کہتی رہی ہماری جائیدادیں ثابت کرکے دکھا دو۔ جب چوری کے جنجال سے بنایا ہوا کرپشن کا مال سامنے آیا تو کہا گیا اقامہ میں کیوں پکڑا ۔ اقامہ پڑھ کر دیکھ لیں۔ اس میں جن کمپنیوں کے نام لکھے ہیں۔ وہ ساری کی ساری بچوں نے بزرگوں کی کر پشن والا کالا دھن سفید کرنے کے لئے بنارکھی تھیں۔
اور تو اور چیف جسٹس ثاقب نثار جیسے ٹھنڈے ، میٹھے ،متین شخص کو بھی بولنا پڑگیا۔ گاڈ فادر کا لشکر ِ جرار جج حضرات کے چیمبر ز کے سامنے کھڑا ہوکر منہ پھاڑ کر للکار رہا ہے۔ تمہاری باری آئے گی۔ ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ تم نے 10والیم کھولے ہم11والیم کھول دیں گے۔ ہماری باری آئی تو تمہیں لگ پتہ جائے گا۔ احتساب کرنے والوں کا ایسا احتساب کریں گے۔ جو زمانہ یاد رکھے گا۔ایک فردِجرم اور بھی ہے ۔ایک دوسرا ٹرائل بھی ہواہے ۔وہاں پہ جہاں ایف آئی آر کاٹنے کے لیے تھا نے دار کی ضرورت نہیں۔فردجرم لگائی جاتی ہے نہ سُنائی جاتی ۔ملزم کو اُس عدالت کے فیصلے کا پتہ تب چلتا ہے جب دراز رسی کھینچ لی جائے۔
زرعی پنجاب کو ویران کرنے ۔زرعی زمینوں کو ریگستان کرنے اور لا کھوں ایکڑ کسان دوست رقبے کو پلاٹستان میں تبدیل کرنے کی سازش کا آغاز 1997میںہوا۔اس میں ایک ٹیکس صرف زمین کا مالک ہونے پر دینا پڑتا ہے ۔یہ ٹیکس نہ فرنگی دور میں لگا ۔نہ تو مغلیہ بادشاہوں نے لگایا نہ ہی سکھا شاہی میں ایساٹیکس لاگو ہوا۔کون نہیں جانتا جنوبی پنجاب اور شمالی پنجاب میں وسیع رقبے بارانی ہیں۔جہاں فصلوں کے لیے پانی صرف آسمانوں سے برستا ہے۔نہ کوئی نہر نہ کوئی آب پا شی کا انتظام۔جنہوں نے غریب کے منہ میں ہاتھ ڈال کر اُس کا نوالہ چھینا آج قدرت کے انتقام کا ہاتھ ان کے گلے پر ہے۔ آلِ شریف کے بے رحم نظامِ حکومت نے ظالمانہ ٹیکسوں کا بازار لگا دیا۔غریبی بڑھتی چلی گئی ساتھ ہی حکمرانو ں کے مال،اثاثے اور محلات بھی ۔نئے معاشی مظالم نے سماج کو نئے لطیفے دیئے۔ان میںسے ایک آپ بھی سُن لیں۔
ایک لڑکا ہوا میں 2 روپے کا سکہ اچھال کر اپنے دانتوں سے پکڑنے کا مظاہرہ کر رہا تھا۔آخری مرتبہ جب اس نے یہ حرکت کی تو غلطی سے سکہ اس کے حلق میں چلا جاتا ہے۔ اس کا دم گھٹنا شروع ہوتا ہے اور اس کے والد مدد کے لیے پکارتے ہیں ۔اتنے میں ان کی آواز سن کر ایک بھورے رنگ کے سوٹ میں ایک درمیانی عمر کا آدمی ، لڑکے کے پاس آیا، لڑکے کا حلق پکڑ کر اس کی کمر کو پہلے آرام سے اور پھر زور زو ر سے تھپ تھپایا۔ لڑکے نے کھانسی کر کے الٹی کر دی۔سکہ باہر آ گیا۔لڑکے کے والد کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔ اس نے بیٹے کو گلے لگاتے ہوئے اپنے محسن کو انتہائی احترام سے دیکھا اور پوچھا۔
اے رحمت کے فرشتے! کیا آپ ڈاکٹر ہو؟اس اجنبی نے جواب دیا نہیں بھائی، میں پاکستان کاوزیرِ خزانہ اسحاق ڈار ہوں، اور یہ میری تربیت کا حصہ ہے کہ کس طرح عوام کے حلق سے پیسہ نکالنا ہے۔
گاڈ فادر نمبر 2 نے منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں احتساب کے ادارے پر سرجیکل سٹرائیک کی ہے۔ظاہر ہے اس کی وجہ حدیبیہ ملز کا وہ کیس ہے جو سپریم کورٹ کے حکم پر سب سے بڑی فردِجُرم سامنے لائے گا۔بابوئوں نے پنجاب کے مزدوروں اور دیہاڑی دار کسانوں سے بدلہ لے لیا۔جس دن سڑکوں،دالانوں،گاڑیوں اور میدانوں میں بچے پیدا کرنے والی بیٹیوں کی آہ سات آسمان چیر گئی ۔اُس آہ کے جواب میںکیسی فردِجُرم لگے گی اور اُس کا نتیجہ کیا ہو گا ۔راہنمائی کے نام پر راہزنی کرنے والے سوچ رکھیں۔
ڈوبتی جاتی ہے کشتی ناخدا کوئی نہیں
اے مرے پنجاب! تیرا رہنما کوئی نہیں
میر جعفر کے توسط سے زباں پر آگیا
اس عبوساً قمطریرا کی ادا کوئی نہیں
ملتِ بیضا کی نگری میں دغا پرور بہت
پاسدارِ دولت مہر و وفا کوئی نہیں
وارثِ تاجِ شہی حلقہ بگوشانِ یزید
رہ نوردِ جادئہ کرب و بلا کوئی نہیں
غم زدوں کی ہر روش تذلیل ہونی چاہیے
لوگ کہتے ہیں غریبوں کا خدا کوئی نہیں