اگلے روز میں نے ملتان سے رفعت ناہیدؔ کا بھیجا ہوا یہ شعر ؎
اور‘ اب اُٹھنا پڑا نا اگلی صف سے
کہا بھی تھا کہ پیچھے بیٹھتے ہیں
کالم میں نقل کیا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ یہ رفعت ناہید ہی کا شعر ہے کیونکہ وہ خود ایک عمدہ شاعر ہیں اور مجموعۂ کلام ''دیر سویر‘‘ کی خالق۔ چنانچہ میں نے یہ شعر انہی کا جانتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ درج کر دیا۔ بعد میں‘ میں نے ان سے جب فون پر کنفرم کرنے کی کوشش کی تو وہ بولیں کہ یہ شعر آپ کا ہے۔ سٹائل تو خاصی حد تک میرا ہی تھا لیکن مجھے اصرار تھا کہ یہ میرا نہیں ہے۔ میرا یادداشت کا مسئلہ ضرور ہے اور کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کسی دوست نے مجھے کوئی ایسا شعر یاد دلایا جو میرے ریکارڈ میں نہیں تھا اور چونکہ پوری غزل کے یاد ہونے کا سوال پیدا ہی نہ ہوتا تھا۔ اس لیے میں نے اس زمین میں آٹھ شعر اور کہہ کر غزل مکمل کر لی۔ لیکن میں اتنا گیا گزرا بھی نہیں ہوں کہ کوئی شعر میرا ہو اور یاد دلانے پر بھی میں نہ کہہ سکوں کہ واقعی میرا ہے۔ میرے انکار پر انہوں نے کہا کہ کلکتہ یالکھنئو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ندیم احمد ہیں جو فیس بک پر آپ کو اکثر یاد کرتے رہتے ہیں‘ تو ان کی تحریر میں یہ شعر شاید آپ ہی کے نام سے درج تھا اور چونکہ وہ بھی اس شعر کی خالق ہونے سے انکار کر چکی تھیں اس لیے میں نے یہ شعر درج کرتے ہوئے شاعر کا نام نہ لکھا۔
چنانچہ میری مشکل اس طرح سے آسان ہوئی کہ کالم پڑھ کر سیالکوٹ سے عادل بادشاہ نے مجھے میسیج کیا کہ یہ شعر بہاولپور کے نوجوان شاعر خرم آفاقؔ کا ہے۔ مجھے حیرت اس پر بھی تھی کہ یہ اتنا اچھا شاعر ہے اور میرے نوٹس ہی میں نہیں؟
ابھی اس لطیفے کا مزہ لے ہی رہا تھا کہ باغ آزادکشمیر سے کیپٹن الطاف عاطف کا میسیج موصول ہوا کہ آپ نے اگلے روز ''مسعود احمد کے دو شعر‘‘ کا جو عنوان لگایا تھا یہ دو شعر کی بجائے دو اشعار ہونا چاہئے تھا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ فارسی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی چیز تعداد میں لکھی جائے تو اسے صیغۂ واحد میں ہی لکھتے ہیں‘ جمع میں نہیں‘ جیسے فارسی شاعرہ فروغ فرخ زاد کا مجموعہ ہے ''چِل چراغ‘‘ (یعنی چالیس چراغ) اسی طرح پنج گنج‘ ہفت آسماں اور شش جہت (اس حساب سے شش جہات لکھنا غلط ہے) تاہم اردو میں ویسے ہی لکھنا چاہئے جیسا کہ کیپٹن صاحب نے لکھا ہے مثلاً دو روٹیاں‘ چار ٹوپیاں اور پانچ مکھیاں وغیرہ۔ کسی فارسی شاعر کا ایک شعر بھی یاد آ رہا ہے ؎
دو زلف تابدارِ اوبچشمِ اشکبارِ من
چو چشمۂ کہ اندروشنا کنند مارہا
اور جہاں تعداد مذکور نہ ہو وہاں جمع ہی میں لکھیں گے۔ مثلاً ؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِخود نہادہ برکف
بہ امیدِ آں کہ رُوزے بہ شکار خواہی آمد
ویسے اردو میں تو جمع المجمع بھی آتا ہے مثلاً جذباتوں جو کہ غلط ہے بلکہ ہمارے مرحوم دوست اور اردو کے صاحب طرز نثر نگار انتظار حسین نے ایک بار ''مضامینوں‘‘ بھی لکھ دیا تھا۔ یہ ایک مزید لطیفہ تھا کہ میں نے شرارتاً ان کے ایک مضمون میں کوئی پندرہ بیس غلطیاں نکال ماریں جن میں ''مضامینوں‘‘ بھی تھی بعد میں برادرم مسعود اشعر نے بتایا تھا کہ انتظار حسین کا اس پر تبصرہ یہ تھا کہ ظفر اقبال کی کچھ باتوں سے مجھے اتفاق ہے؛ تاہم کیپٹن صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ کالم تو فارسی نہیں بلکہ اردو میں تھا تو اس میں فارسی کے قاعدے کلیے کی پابندی کیا ضروری ہے‘ تو میں سمجھتا ہوں کہ جن چیزوں کی تعداد فارسی کے حوالے سے آئے جو اردو کے الفاظ نہ ہوں تو وہاں فارسی ہی کا کلیہ اچھا لگتا ہے جبکہ یہاں لفظ ''شعر‘‘ تھا جو اردو کا نہیں بلکہ فارسی اور عربی کا ہے ورنہ جمع کیلئے ''ہائے‘‘کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے مثلاً پارہ ہائے‘ بلکہ ''ہائے‘‘ کی بجائے صرف ''ہا‘‘ لکھنا ہی کافی ہوتا ہے جیسے کہ اوپر والے ایک شعر میں ''مارہا‘‘ آیا ہے۔
اگرچہ زبان و الفاظ کے استعمال کے حوالے سے ہم کافی لبرل واقع ہوئے ہیں۔ تاہم جہاں تک ہو سکے ان پابندیوں کا لحاظ رکھنا چاہئے اور یہ بجائے خود خوشی کی بات ہے کہ کیپٹن صاحب نے اتنا تردد اور تکلف روا رکھا ہے ورنہ بالعموم ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ نیز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر الفاظ اور ان کے تلفظ وغیرہ کے سلسلے میں وہ وہ کھلواڑ کیا جاتا ہے کہ توبہ ہی بھلی‘ مثلاً کان کَن کو کان کُن کہا جا رہا ہے اور ایک جملہ جو ہمارے سیاسی رہنما بھی بڑے ذوق و شوق اور تواتر سے بولتے ہیں یعنی ''آئندہ آنے والے دنوں میں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ابھی اگلے روز ہمارے ایک نہایت عزیز دوست‘ ممتاز کالم نگار جو نہ صرف شاعر ہیں بلکہ کالج میں اردو ادب پڑھاتے بھی رہے ہیں‘ نے اپنے کالم کا عنوان جمایا ہوا تھا ''جس کا کام اُسی کو ساجھے‘‘ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ لفظ ''ساجھے‘‘ نہیں بلکہ ''ساجے‘‘ ہے جبکہ شعر یوں ہے۔
جس کا کام اسی کو ساجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
چنانچہ ''ساجے‘‘ ایک تو ''باجے‘‘کا ہم قافیہ ہے۔ دوسرے اس کا مطلب ہے سجتا ہے یا زیب دیتا ہے جبکہ ''ساجھے‘‘ کا ایک تو یہاں قافیہ نہیں بنتا اور دوسرے ''ساجھے‘‘ کا مطلب ہے مشترکہ جو کہ پنجابی لفظ ''سانجھے‘‘ ہی کی ترقی یافتہ شکل معلوم ہوتی ہے‘ مطلب یہ کہ ''ساجھے‘‘ لگانے سے شعر بے معنی بھی ہو جاتا ہے۔
آج کا مقطع
جیسا آیا تھا وہ جانے دیا ویسا ہی‘ ظفرؔ
بیوقوف اور نہیں کوئی تمہارے جیسا