تحریر : کامران شاہد تاریخ اشاعت     23-10-2017

کھنڈر زدہ شعور

ظلم اگر ہوتا ہی مٹ جانے کے لیے ہے تو ابھی اور کتنی منزلیں طے کرنا ہوں گی؟ ابھی اور کتنی حدیں پار ہوں گی تو یہ مٹے گا؟ سندھی عوام کب تک ظلم کے اس بہائو میں محض لہروں کی طرح ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک ہچکولے کھاتے رہیں گے؟ پل پل مریں گے ضرور‘ مگر مریں گے نہیں کہ اپنے آقائوں کو ووٹ دینے کے لیے‘ ان کی سیاسی وراثت کو اپنے خون سے آبیار کرنے کے لیے‘ ان کا زندہ رہنا بھی ضروری ہے۔
سندھ کی سرزمین اپنی جانب کھینچتی ہے کہ اس مٹی کی خوشبو اک عجب کشش رکھتی ہے۔ اولیاء کی اس سرزمین پر مگر جہالت کا راج ہے کہ موہنجو دڑو سے بھی زیادہ کھنڈر زدہ یہاں کا شعور ہے!! سیہون شریف‘ لال شہباز قلندر کی وجہ سے تاریخی تناظر رکھتا ہے اور دنیا بھر سے زائرین یہاں آتے ہیں۔ اگر نہیں آتی تو بس خرد اور آگاہی نہیں آتی! محض سائیں مراد علی شاہ کے آبائی حلقے سیہون شریف چلے جائیں۔ آپ کو ہر طرف انسانیت کی تذلیل و تحقیر کی ایک نئی داستان ملے گی۔ قاسم بضدار سکول محض اس لیے بند کر دیا گیا کہ وہاں دس سال پہلے نواز شریف کو ووٹ پڑے تھے۔ حکومت نے سزا کے طور پر سکول ہی بند کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بھی کمال کرتی ہے۔ مراد علی شاہ کے آبائی حلقے میں صاف پانی ملنا ناممکنات میں سے ہے۔ کروڑوں روپے مالیت کے فلٹریشن پلانٹ سیاسی رقابتوں اور انتظامی نااہلیوں کے سبب بند پڑے ہیں۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ امپورٹڈ پانی پینے والے وزیر اعلیٰ کو اس سے کیا غرض کہ رعایا زہر پیتی ہے یا پانی۔ بھان سید آباد کا فلٹریشن پلانٹ اس لیے دہائیوں سے بند پڑا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے سیاسی حریف ارباب غلام رحیم نے شروع کرایا تھا۔ کیا سیاست اتنے گھنائونے کھیل کا نام ہے کہ انسانیت جس کے آگے اپنا ظرف کھو دے؟
سیہون شریف سے آگے جائیں تو لاڑکانہ ہے‘ جہاں علم کا سورج دہائیوں سے زوال پذیر ہے۔ یہ گورنمنٹ بوائز مڈل سکول سیدو ڈیرو لاڑکانہ میں قائم ایک ایسا سکول ہے‘ جہاں پر سینیٹری ورکر ٹیچر کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ''یہ سب استادوں کی مہربانی ہے‘‘۔ اسی سکول کے طالب علموں کی علمی قابلیت کا یہ حال ہے کہ قائد اعظم کو پاکستان کا موجودہ وزیر اعظم سمجھتے ہیں‘ جبکہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے نام سے بھی واقف نہیں۔ اسی سکول کے ایک اور عالیشان استاد پیشے سے خاکروب ہیں‘ مگر یہاں بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں۔ تیسرے استاد تو استادوں کے استاد نکلے‘ کہ استاد عربی کے ہیں مگر حسن کرشمہ سازی یہ ہے کہ عربی کے ساتھ ساتھ اردو، انگلش اور اسلامیات بھی پڑھاتے ہیں۔ گڑھی خدا بخش‘ جہاں بھٹو خاندان دفن ہے‘ ایک حسین تضاد کا شاہکار ہے کہ اس سنگ مرمر سے تراشے دلکش مزار کے پہلو میں بسنے والے کچے مکان اور وہاں مٹی سے بنے چولہوں میں جلنے والی لکڑی سے اٹھنے والا دھواں بتاتا ہے کہ مزارعے زندہ رہ کر بھی عظمت و مرتبہ میں سیاسی شہدا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
عمر کوٹ‘ تھرپارکر میں لوگوں کی بہبود کا پرویز مشرف کے دور میں جو واحد قابل ذکر کام ہوا‘ وہ ایک پختہ سڑک کی تعمیر تھی۔ اس نے صحرا کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے جوڑ دیا‘ مگر اب بھی وہاں انسان پانی کی تلاش میں بھٹکتا ہے، عورت زچگی کے دوران مرتی ہے کہ یہاں ہسپتال ایک خواب ہے۔ جو بنیادی مرکز صحت ہے‘ وہ بھی Expired ادویات کی آماجگاہ ہے۔ یہاں ڈاکٹر محض تنخواہ کے کھاتے میں ہی نظر آتے ہیں‘ ورنہ ہیلتھ سینٹر ویران پڑے ہیں۔ انسان اور جانور کو ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے کا نظارہ بھی تھرپارکر سے ہی منسوب ہے کہ پانی کی نایابی انسان کو یہاں جانور بنا دیتی ہے۔ ان سب حالات کے جبر کے باوجود حیرت کی سب سے بلند منزل وہ ہے جب روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور پانی سے محروم سندھ کے عوام آج بھی جئے بھٹو کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ مرتے ہوئے لوگ، بلکتی ہوئی نسلیں، ترستے ہوئے نفس، حقیقت حال سے بے پروا ہو کر بھٹو سائیں اور شہید رانی کے نام پر دھمالیں ڈالتے ہیں، رقص کرتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے خودکو اپنے ہی مقتل کے مکیں بناتے ہیں۔
حکمران جمہوریت کی چھتری تلے اپنے جرائم کو چھپاتے تو ہیں مگر کیا انہیں معلوم ہے کہ مغرب‘ جس کے بطن سے جمہوریت نے جنم لیا‘ میں حکومتی سرپرستی سے سائنس نے انسانی ہیئت کو ہی تبدیل کر ڈالا۔ کیا یہ حکمران جانتے ہیں کہ (GENOMICS) یعنی ہر جاندار کا جینیاتی میک اپ انسانی خلیوں کو قابو کرکے ناقابل علاج امراض کو ختم کر رہا ہے؟ اب آم کے انتظار میں گرمیاں آنا ضروری نہیں کہ سائنس نے اسے ہر مہینے کا پھل بنا ڈالا ہے۔ کینسر کے خلیوں کو شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی آ چکی کہ آج کینسر کے ہر cell کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ Golden Rice جیسی ایجادات نے ان ہزاروں افراد کو مرنے سے بچا لیا ہے‘ جو پہلے محض وٹامن اے کی کمی سے مرتے تھے۔ گریفین (GRAPHENE) جیسی دریافتوں‘ جو سٹیل سے دو سو گنا زیادہ مضبوط ہیں‘ کے ذریعے جہاز سے لے کر انسانی بیماریوں تک کا علاج شروع ہو رہا ہے۔ عقل حیران ہے کہ کس طرح ایک اندھا شخص زبان کے ذریعے دنیا کو دیکھ سکتا ہے!! یو نیورسٹی آف پٹز برگ نے ایسا آلہ بنا ڈالا ہے‘ جس کو زبان پر رکھنے سے مکمل طور پر اندھا شخص بھی دنیا دیکھ سکتا ہے۔ MIND READING HAT ایک ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والی ایجاد ہے۔ دماغ کی تسخیر اس حد تک ممکن ہو گئی ہے کہ یہ سائنسی آلہ سر پر پہن کر انسان جو کچھ کرنے کا سوچتا ہے وہ عمل پذیر ہو جاتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے کہ اب مشرق اور مغرب کی دنیائوں کے درمیان فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ دنیا کے ایک حصے میں ہونے والے واقعے کی خبر دوسری دنیا کو کچھ سیکنڈز میں مل جاتی ہے۔ تو پھر اب تک سندھ کے سیاسی وڈیروں تک مغرب کے علم کی یہ دیومالائی کہانیاں کیوں نہیں پہنچیں؟ یونیورسٹیز کا ایک لامتناہی سلسلہ کیوں نہیں پھیلا سندھ کے میدانوں میں کہ یہاں کے سیاسی دیوتا تو آکسفورڈ یا کیمبرج سے کم کسی ادارے میں حصول تعلیم کے لیے گئے ہی نہیں؟ مغرب زدہ حکمران نادان نہیں۔ جانتے ہیں کہ اگر مزارعے کی سوچ تعلیم یافتہ ہو گئی تو غلامی کا طوق پھینک دے گا وہ!! ہاری کے ہاتھ میں اگر قلم آ گیا تو خون بہائے بغیر ہی وڈیرے کی سوچ کو چیر ڈالے گا!!
افلاطون سے بڑھ کر ذہین اور فطین ہیں سندھ کے حکمران کہ جنہوں نے پیمانوں میں انسانی سانسوں کو قید کر رکھا ہے۔ مزارعوں کو سانس لینے کی اجازت تو ہے مگر فقط ووٹ دینے تک۔ عقل دھمالوں کے خلاف تو نہیں مگر اپنی تباہی سے بے خبر ہو کر ناچنا‘ زندگی کے سچ سے دور ہو کر نعروں کی دنیا میں گم ہو جانا‘ یہ بھی تو کوئی ظرف انسانیت نہیں!! انسان اگر علم سے لبریز ہو جائے تو سوچے گا ضرور کہ کیونکر اپنے ہی قاتل کو میراث کے نام پر خود پر حق ملکیت دے رہا ہے؟ زمین بنجر ہو تو طوفان سا برستا آسمان اسے زندگی دیتا ہے۔ سندھ کو بھی ایک سیلاب کی ضرورت ہے۔ علم کے سیلاب کی، کہ موہنجو دڑو سے بھی زیادہ شکستہ شعور جب تک خس و خاشاک کی طرح بہہ نہ جائے ذوق و آگاہی کا ایک نیا شہر آباد نہ ہو پائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved