حالیہ ڈیجیٹل دور میں سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کی دنیا میں جو اصطلاحات ہر عام و خاص کی زبان پر ہیں ، ان میں Forwarded as receivedکا اپنا مقام ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ جیسے ہی میں نے یہ بات سنی (تو اسے اتنا اہم پایا) کہ آپ کو (اور بہت سارے لوگوں کو)سنا ڈالی ۔ اس کا ایک پوشیدہ مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ بقائمی ہوش و حواس میں اس بات پر میں اپنی مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہوں یا یہ کہ یہ بات میری عقل کے مطابق درست ہے ۔ اس لیے پیغام وصول کرنے والے کے لیے اس میں ایک خواہش بھی درج ہوتی ہے کہ وہ بھی فی سبیل اللہ اسے آگے بڑھاتا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسی اکثر باتیں ، درست نہیں ہوتیں ۔ ان کا مواد دیکھنے میں اتنا مصدقہ لگتا ہے اور اس قدر دلچسپ ہوتا ہے کہ بندہ اسے آگے بڑھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اکثر لوگوں کی تعلیم اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اس کے مندرجات کی تصدیق کر سکیں ۔ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ، ان کے پاس اتنا وقت اور ایسے toolsنہیں ہوتے کہ وہ اس کی جانچ پڑتال کر سکیں ۔ایسے مواقع پر وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ درست ہو اور اگر یہ درست ہے تو کم از کم میں اپنے اہل و عیال کو تو یہ بات بتا دوں تاکہ وہ نقصان سے بچ سکیں ۔ کروڑوں افراد کے پاس موبائل فونز ہیں ۔یوں یہ پیغامات ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی طرف بڑھتے جاتے ہیں ۔ ایک بہت بڑا دائرہ وجود میں آتا ہے ۔ بہت سی مثالوں میں ، "Forwarded as Received"کا مواد جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے ۔
میں اس وقت پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا، جب پہلی بار مجھے forwarded as receivedسے پالا پڑا۔ ان دنوں پولیو ٹیمیں گھر گھر جا کر بچو ں کو قطرے پلا رہی تھیں ۔ سکول میں بھی وہ آئیں اور چھوٹے بچوں کو قطرے پلائے گئے ۔ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ پولیو کے ان قطروں میں حکومت نے ایسی دوا شامل کر دی ہے کہ جو جو اسے پیے گا، بڑا ہو کر وہ بانجھ ہو جائے گا۔ اس کی اولاد نہیں ہوگی ۔ اس نے بتایا کہ حکومت نے آبادی کم کرنے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے ۔ پانچویں چھٹی جماعت کے طالبِ علم کو کتنی سمجھ ہو سکتی ہے ۔ میں کافی سالوں تک اس بات پر یقین کرتا رہا۔ اب یاد آتا ہے کہ جس جس نے پولیو کے یہ قطرے پیے، وہ سب کے سب بال بچے دار ہیں ۔
اس وقت تو خیر ہم سکول کے بچے تھے۔ جب ہم بڑے ہو گئے، پڑھ لکھ لیا، شادیاں کیں ،بچے پیدا کیے نوکریاں کیں ، تب بھی پولیو کے قطروں کے بارے میں شکوک و شبہات اسی طرح موجود ہیں ۔ میرے ایک دوست نے پوچھا کہ دنیا میں بہت سی بیماریاں ہیں ۔ ٹائیفائیڈ ہے ، ٹی بی ہے ، کینسر ہے ، ملیریا ہے ، پھر عالمی اداروں کو اس بات میں کیا دلچسپی ہے کہ وہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ ان کی ٹیمیں گھر گھر جا رہی ہیں ۔میں چونکہ کافی عرصہ تحقیق کرتا رہا ہوں ، اس لیے یہ بتا سکتا ہوں کہ پولیو پر یہ خاص مہربانی کیوں ہے ۔ پولیو ان امراض میں سے ہے ، جو ایک شخص سے دوسرے کو لگتے ہیں ۔ یہ آبادیوں کی آبادیاں کھا سکتاہے ۔ 50ء کی دہائی میں
امریکہ جب یہ پھیلا تو ہسپتال بچوں سے بھر گئے تھے۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ مرے ، بہت بڑی تعداد میں معذور ہوئے۔ پولیو کے جرثومے پر تحقیق کی گئی، اس کا علاج ڈھونڈا گیا۔ پھر اسے ویکسین کی شکل میں صحت مند بچوں کو پلایا گیا اور پھر یہ معلوم ہوا کہ وہ اس بیماری سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو چکے ہیں ۔ یہ ان بیماریوں میں سے ایک تھی ، جنہیں کرئہ ارض سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ممکن تھا، اگر ہر بچے کو اس کے قطرے پلا دئیے جائیں ۔کینسر ایک اور چیز ہے اور اسے ویکسی نیشن سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
پولیو کا علاج دریافت ہونے کے بعد صورتِ حال یہ تھی کہ پسماندہ ممالک میں شہروں کے شہر تو اجڑیں گے ہی لیکن ہوائی جہاز کے سفر کی وجہ سے ہ بیماری کسی ایک ملک میں روکی نہ جا سکتی تھی ۔اس لیے پوری دنیا میں اس کی ویکسی نیشن کی گئی ۔ پاکستان میں بھی یہ تقریباً ختم ہو چکی تھی ۔ پھر نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان میں ویکسی نیشن متاثر ہوئی ۔ اس لیے بھی کہ شکیل آفریدی نے پولیو ٹیمیوں کی آڑ میں اسامہ بن لادن کی جاسوسی کی ۔ اس لیے کم پڑھے لکھے افراد اور بالخصوص قبائلی ایجنسیوں میں پولیو ٹیموں کے خلاف جذبات بھڑک اٹھے۔پاکستان، افغانستان اور نائجیریاکے علاوہ دنیا بھر میں پولیو ختم ہو گیا۔ پھر پاکستانیوں پر یہ پابندی لگا دی گئی کہ آپ کے ہر مردو زن ، بوڑھے اور بچے کو ، خواہ وہ وزیرِ اعظم ہی نہ ہو، ائیر پورٹ پر پولیو کے قطرے پی کر روانہ کیا جائے گا۔
یہ تو تھی پولیو کی روداد ، سات آٹھ سال قبل میرے ایک دوست نے مجھے ایک پیغام بھیجا۔ اس میں لکھا تھا کہ جو لوگ لیپ ٹاپ اپنی رانوں پر رکھ کر استعمال کرتے ہیں ، بتدریج وہ بانجھ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس میں لکھا تھا کہ لیپ ٹاپ سے نکلنے والی حرارت اس کا سبب بنتی ہے ۔ ہم دونوں ہی لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر استعمال کرتے تھے۔ کچھ دن احتیاط کی ۔ پھر آہستہ آہستہ بھول گئے۔ پھر اس کی شادی ہوئی ، وہ بال بچے دار ہو گیا۔ پھر میری شادی ہوئی اور میں بھی بال بچے دار ہو گیا۔ ہاں اتنا یاد پڑتا ہے کہ forwarded as receivedکے اصول کے تحت ، میں نے کافی لوگوں کو یہ'' تحقیق ‘‘بھجوا دی تھی ۔
دلچسپ ترین واقعہ وہ تھا، جب ایک سال پہلے چاند پہ انسانی قدم پر لکھا۔ فیس بک کے ایک دوست نے اعتراضات اٹھاتے ہوئے سائنسی اصطلاحات بیان کیں ۔ میں مرعوب ہو گیا۔ انہوں نے یہ کہا "Vinyle radion layer"سے باہر نکلنے کے لیے جو سپر کمپیوٹر درکار ہیں ، وہ انسان کے پاس آج بھی نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ vinyleشعاعیں کرّئہ ارض کے گرد پھیلی ہوئی ہیں ۔ انسانی جسم ان سے نکل کر دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا۔ 1969ء میں یہ شعاعیں دریافت بھی نہیں ہوئی تھیں ۔ جب vinyle شعاعیں دریافت ہوئیں تو پھر امریکیوں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ان شعاعوں کو کیسے عبور کیا۔ اس پر امریکیوں نے جواب دیا کہ ہم تو نیل آمرسٹرانگ والے مشن کا سارا ڈیٹا ہی کھو چکے ہیں ۔
تب صورتِ حال مجھ پر واضح ہوئی ۔ تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ کبھی پیش نہیں آیا کہ امریکیوں نے کہا ہو کہ وہ اس مشن کا ڈیٹا کھو چکے ہیں ۔ نہ ہی کبھی ان سے پوچھا گیا کہ "vinyle"شعاعیں انہوں نے کیسے عبور کیں ۔ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آتا تو ذرائع ابلاغ میں ہمیشہ کے لیے ریکارڈ ہو جاتا۔ میں نے اس دوست سے حوالہ پوچھا تو آخر اس نے کہا کہ انٹر نیٹ پر یہ سب کہیں پڑھا تھا اور اب یاد نہیں کہ کہاں سے پڑھا تھا۔ اس روز مجھے اندازہ ہوا کہ اگر میں بھی چاہوں تو دن میں پچاس افواہیں انٹرنیٹ پر پھیلا سکتا ہوں ۔ Vinyleشعاعوں کی جگہ میں Furnyleشعاعوں کا نام استعمال کر لوں گا یا پھر "organic microscopic germs"بھی ایک اچھی اصطلاح بن سکتی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ میرے عزیز ہم وطنو!Do not farward whatever you receive untill and unless you have checked the authenticity۔اسلام یہ کہتا ہے ، سنی سنائی نہ پھیلائو!