اپنے دوست کالم نگار ہارون الرشید کا کالم پڑھا۔ فون پر ان سے بات ہوئی۔ ہارون صاحب کے ساتھ اکثر میری آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔ اچھی بات ان کی یہ ہے اگر انہیں محسوس ہو اگلا انہیں بہتر دلیل دے رہا ہے تو فوراً بات مان لیتے ہیں۔ بیس برسوں سے ان سے تعلق ہے‘ یہ ان کی سب سے بڑی خوبی دیکھی ہے۔
میں نے کہا آج کے کالم میں آپ نے وزیر آباد میں شیر شاہ سوری کی تاریخی چوکی کی طرف شہباز شریف کی توجہ دلانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ خوبصورت کالم لکھا ہے۔
لیکن میرا سوال یہ ہے شہباز شریف نے تو خود سب ادارے تباہ کردیئے ہیں۔ انہوں نے پچھلے دس برسوں میں عوام اور میڈیا کے ذہن میں ڈال دیا ہے اگر کوئی اچھا کام کرانا ہے تو ان کے نام اپیل آنی چاہیے۔ کسی سرکاری افسر کو کہنے یا سرکاری افسر کو خود کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ حکم جاری کریں گے تو وہی سرکاری بیوروکریسی مقامی سطح پر طوفان برپا کر دے گی ورنہ وہ یہ نہیں کرے گی۔ پہلے شہباز شریف ایکشن لیں گے۔ پھر ان کا پنجاب میں میڈیا ایڈوائزر اپنے میڈیا کے دوستوں کو فون کر کے خبر بریک کرے گا، میرے صاحب نے نوٹس لے لیا ہے۔ شکریہ ادا کریں۔ فلاں ضلع کے ڈی سی یا ڈی پی او سے رپورٹ منگوا لی گئی ہے اور پھر سب چینلز پر ٹکر چلنا شروع ہو جائیں گے۔ عامر متین سے سنا‘ ایک دفعہ ایک سابق آئی جی پنجاب نے بتایا‘ بولے: سارا دن ٹی وی دیکھتے رہے ہیں، صاحب کا کب ٹکر چلے گا اور کس نے معطل ہونا ہے، کس کی رپورٹ منگوانی ہے۔ ہم ساری کارروائی ٹکر دیکھ کر کرتے ہیں۔ شہباز شریف اپنے اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں کہ بارہ کروڑ لوگوں کو یہ احساس دلوائو کہ ان کی وجہ سے سب سسٹم چل رہا ہے۔ درمیان میں کوئی نہیں رہ گیا۔ نہ کابینہ، نہ درجنوں وزیر جن کے دو تین وزراء کے ناموں رانا ثناء اللہ، رانامشہود اور سلمان رفیق کے علاوہ چوتھے کا مجھے بھی علم نہیں، ہزاروں ملازمین اور افسران سے بھرا پنجاب سول سیکرٹریٹ اور پورے پنجاب کے چھتیس اضلاع میں بیٹھے چھوٹے بڑے زکوٹے جن جنہیں اربوں روپوں کی تنخواہیں، مراعات اسی عوام کے پیسوں سے ہر ماہ ادا ہوتی ہیں جنہیں وہ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ سب اس پورے سسٹم سے غائب ہوگئے ہیں یا کر دیے گئے ہیں یا ان سب بابوئوں نے فیصلہ کر لیا ہے وہ غائب ہی رہیں گے۔ خود سے کچھ نہیں کریں گے۔
کیا شیر شاہ سوری کی تاریخی چوکی کو بچانا یا اسے اچھی حالت میں رکھنے کا کا م شہباز شریف کے ٹکر تک نہیں ہوگا؟ سوال یہ ہے اس ضلع کا ڈپٹی کمشنر اور محکمہ کہاں ہے، اس کا وزیر کہاں ہے، اس کا سیکرٹری کہاں ہے اور دفتر میں کام کرنے والے سینکڑوں افسران اور ملازمیں کہاں ہیں جن کا کام ایسی تاریخی عمارتوں اور جگہوں کا خیال رکھنا ہے۔شہباز شریف نے اس شاہی مزاج حکومت کی وجہ سے اپنے طبلچیوں کے ذریعے خود کو بڑا ایکٹو وزیراعلیٰ ثابت کرا دیا ہے لیکن باقی لاکھوں سرکاری افسران اور ملازمین اور سب سے بڑھ کر ہر ضلع کی بیوروکریسی بیکار ہوگئی ہے۔ ان اضلاع میں کام کرنے والے ڈپٹی کمشنرز یا ایس ایس پی پولیس پہلے ہی کوئی تیس مار خان نہیں تھے لیکن شہباز شریف کا انہیں یہ فائدہ ہوا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس چیز پر ہی ایکشن لینا ہے جس کا ٹکر شہباز شریف کے نام سے چلے گا۔ باقی کام اتنے اہم نہیں ہیں۔ ابھی جو کچھ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ڈپٹی کمشنر نے ایک کرکٹر کے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے ہے کہ اس نے ڈپٹی کمشنر کی گاڑی کو تیزی سے کراس کیوں گیا ۔ گرفتار کرا کے کئی گھنٹے تھانے رکھا گیا۔ ٹکر چلا تو اسے رہائی ملی۔ یہ مزاج ہے اس ملک کے بابوئوں کا۔ ایک اور ضلع کی کہانی سن لیں ۔ ڈپٹی کمشنر ضلعی پبلک سکول جس کے وہ سربراہ ہیں ‘ اس پر چڑھے ہوئے ہیں کہ بچوں کے فنڈ سے انہیں نئی گاڑی لے کر دی جائے۔ پہلے ان کے دفتر کے باہر چار گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں ۔ کچھ ملتان اپنے گھر بھیجی ہیں، کچھ لاہور پڑھتے بچوں کو، کوئی ماموں کو تو کوئی بھانجے کو۔ اپنے لیے نئی گاڑی سکول فنڈ سے درکار ہے۔ یہ ہے ہمارا زکوٹا جن اور جنوں کا نیا کلچر۔
حیران ہوتا ہوں یہ فیڈرل پبلک سروس کمشن کس طرح کے افسران چن کر ہمارے سروں پر بٹھا رہے ہیں۔ ہر لوٹ مار میں اب ان بیوروکریٹس کام نام آتا ہے۔ پنجاب میں حد ہوئی ہے کہ سترہ گریڈ والے کو انیس گریڈ کی پوسٹ دے کر اس سے حکمران کوئی بھی کام کرالیتے ہیں۔ ان سب بابوئوں نے لوٹ مار کا نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر کمپنیاں بنا کر ان کے ایم ڈی لگ کر بیس پچیس لاکھ روپے تنخواہ کے مزے اڑا رہے ہیں۔ یہ ہیں پاکستانی بابو جنہیں عوام اس لیے تنخواہیں دیتے تھے کہ وہ ان کے فائدے کے لیے کام کریں گے اور وہ جا کر اپنے ذاتی فائدے میں لگ جاتے ہیں۔ کوئی ضلع بتائیں جہاں کچرا، ٹوٹی سڑکیں، انفراسٹرکچر تباہ نہ ہوا ہو۔ ایک بارش ہو تو پورا ضلع تالاب بن جاتا ہے۔ ٹائون پلاننگ تباہ ہوچکی۔ ہر ضلع میں حادثات میں لوگ روزانہ مررہے ہیں۔ کبھی سنا کسی افسر نے ٹریفک یا لائسنس کا نظام درست کرنے کی کوشش کی ہو؟ جس کا جو چاہتا ہے وہ کچاپکا گھر کھڑا کرلیتا ہے۔ گائوں کے گائوں تباہ ہوگئے ہیں ۔ کبھی سرکاری افسران گائوں کا دورہ کرتے تھے۔ صفائی دیکھی جاتی تھی۔ مچھروں اور دیگر کیڑے مکوڑوں کے خاتمے کے لیے گائوں گائوں جا کر سپرے ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہم سب بچپن میں ماں کے ساتھ گائوں کی گلیاں صاف کرتے کہ جرمانہ نہ ہوجائے۔ آج شاید بابوئوں کی یہ تربیت کی جاتی ہے کہ عوام کو کیسے لوٹنا ہے...پہلے کا افسر ضلع کو جس بدحالی میں چھوڑ گیا تھا‘ نئے نے پہلے سے زیادہ برباد کر کے آنا ہے!!
بیوروکریسی نے طے کر لیا ہے انہوں نے ان بڑے لوگوں کی خدمت کرنی ہے جنہوں نے انہیں تعینات کرنا ہے، انہیں سترہ گریڈ سے اٹھا کر انیسویں گریڈ میںپوسٹنگ دینی ہے۔ یہی دیکھ لیں لاہور میں کیا ہوا۔ ان بابوئوں نے مل کر لاہور کے حسن کو تباہ کردیا ۔ جن لوگوں نے انیس سو اسی اور نوے کا لاہور دیکھا ہے وہ آج خون کے آنسو روتے ہیں۔ کہاں گئے درخت اور سبزہ؟ کہا گیا کہ جناب ہزاروں درخت لگائے گئے۔ کہاں ہیں وہ ہزاروں درخت؟ یہ بابو لاہوریوں کو کہانیاں سناتے رہے۔ مختلف ذرائع سے میڈیا کو خاموش کراتے رہے، درختوں کا قتل عام ہوتا رہا۔ ایک جج نے لکھا ان درختوں کے کاٹنے سے لاہور کے ماحول پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اب پتہ چلا ہے لاہور میں آلودگی کی وجہ سے پھر سموگ آگئی ہے۔ اب بیٹھ کر بھگتیں سب۔ اب یہ لاہوری بیمار ہوں گے، ڈاکٹروں کے چکر لگیں گے، بھاری بھاری فیسیں دیں گے لیکن جب درخت کٹ رہے تھے سب خوش تھے کہ انڈر پاس بن رہا ہے، ٹرین اور بسیں چلیں گی۔
لاہور کے بعد اب سرکاری بابواسلام آباد کی بربادی پر کام شروع کرچکے ہیں۔ سینکڑوں درختوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا تین چار کلومیٹر سڑک چوڑی کرنی تھی۔ پلاننگ ڈویژن سے لے کر وزارت ماحولیات، سی ڈی اے اور ای پی اے تمام افسران نے اس قتل عام میں اپنا حصہ ڈالا۔ کسی بابو نے منصوبہ بنایا ‘ کسی نے اس کی اجازت دی تو کسی نے این او سی جاری کیا تو کوئی آری لے کر گیا اور لمحوں میں درخت کاٹ ڈالے۔ یہ سب سرکاری بابو ہیں۔ انہیں اپنے سڑک کے کمشن سے غرض ہے۔ ٹھیکیدار کی خوشحالی سے غرض ہے۔ یہ ملک ٹھیکیداروں کے ہاتھ چڑھ گیا ہے۔ اپنا اینکر دوست سعید قاضی یاد آیا جو دنیا ٹی وی کے مارننگ شو میں کہاکرتا تھا یہ ٹھیکیدار فرینڈلی جمہوریت ہے۔
اب وزیرآباد میں شیر شاہ سوری چوکی کی تعمیر کے لیے بھی شہباز شریف صاحب کا ٹکر چلے گا تو کام ہوگا ورنہ وہاں کا زکوٹا جن بابو اپنی طرف سے کچھ نہیں کرے گا ۔ ڈپٹی کمشنر کچھ نہیں کرے گا۔ وہ کرے گا تو یہ کہ اس ضلع میں کس کس محکمے سے کتنی گاڑیاں اکٹھی کرنی ہیں یا پھر لمبا مال بنانا ہے کیونکہ پھر ڈپٹی کمشنر نہیں لگنا؟ ڈپٹی کمشنر لگنا اتنی بڑی سعادت ہے یہ بابو فیڈرل سیکرٹری بھی ریٹائر ہوں لیکن گفتگو یہاں سے شروع کریں گے جب میں آج سے تیس چالیس سال پہلے فلاں ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا ....یہ نہیں بتائیں گے اس ضلع کو کتنا برباد اورمزید پس ماندہ کرکے آئے اور خاموشی سے کتنا مال سمیٹ کر لے گئے.. !!