ایک زمانہ تھا کہ ہم فکشن بہت پڑھتے تھے۔ اور فکشن میں بھی ہمیں ہارر سٹوریز بہت پسند تھیں۔ ہمارے عمومی مزاج کو دیکھتے ہوئے لوگ یہ جان کر حیران ہوتے تھے کہ ہم خوفناک کہانیاں پڑھنے کے شوقین، بلکہ عادی ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ تب ہماری شادی نہیں ہوئی تھی۔
شادی سے پہلے انسان ایسے بہت سے شوق پالتا ہے جن کی شادی کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ پکّے راگوں ہی کا معاملہ لیجیے۔ جو لوگ شادی سے پہلے نصف گھنٹے سے زیادہ دورانیے کا پکّا راگ ذوق و شوق اور آسانی سے سُن لیا کرتے ہیں‘ اُنہیں شادی کے بعد محض دو تین منٹ کا آئٹم سننے کے دوران بھی بیزاری محسوس کرتے دیکھا گیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، کسی بھی معاملے میں overdose خطرناک نتائج پیدا کیا کرتی ہے۔ بڑے غلام علی خاں صاحب کو انسان کیا اور کتنا سُنے‘ جب گھر کی چار دیواری میں یومیہ بنیاد پر وہی سارے راگ پاٹھ دہرائے جارہے ہوں۔
مرزا تنقید بیگ کا شمار اُن لوگوں میں کیا جانا چاہیے جنہوں نے گھریلو زندگی کے بیان کو بھی انوکھے ہنر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم نے ان سے ان گنت بیٹھکوں میں گھریلو زندگی کے حوالے سے جتنی باتیں سنی ہیں‘ انہیں اگر یکجا کرکے کتابی شکل میں لائیں تو لوگ ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والی عظیم سلسلہ وار کہانیوں کو بھول جائیں۔ علی سفیان آفاقی مرحوم نے ''فلمی الف لیلہ‘‘ لکھ کر کمال کیا۔ مرزا سے مل لیتے تو وہ مزید کمال کرتے کیونکہ اس صورت میں وہ گھریلو یا ازدواجی زندگی کی الف لیلہ لکھتے اور پاپولر فکشن کے ہال آف فیم میں اپنی جگہ ہمیشہ کے لیے پکّی کرلیتے۔
مرزا جب گھریلو زندگی کو بیان کرنے پر آتے ہیں تو اردو کی تاریخ میں پائے جانے والے بڑے بڑے داستان گو‘ اپنے تمام رنگوں میں‘ پھیکے پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ دہلی کے آخری داستان گو میر باقر علی تھے۔ شاہد احمد دہلوی لکھتے ہیں کہ میر صاحب کو تفصیل کی وادی میں گھومتے رہنے کا فن آتا تھا۔ سنا ہے ان کے اجداد ایک بادشاہ کے ہاں ملازم تھے۔ عاشق اور معشوق کے وصال تک بات آئی تو ان کے درمیان ایک پردہ حائل رہ گیا۔ اس ایک پردے کے ہٹنے کا بیان کرنے سے پہلے کی تفصیلات بیان کرنے میں داستان گو نے بارہ سال گزار دیئے۔ آخر بادشاہ عاجز آ گیا اور اس نے فرمائش کی‘ تب پردہ اُٹھا۔ مرزا بھی جب گھریلو زندگی کے نشیب و فراز بیان کرنے پر آتے ہیں تو جزئیات کے بیان میں ''فصاحت‘‘ کے دریا اس انداز سے بہاتے ہیں کہ سننے والے اُس میں ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے مدد مدد چلاتے رہتے ہیں۔ اپنے اجداد کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے مرزا بھی کبھی کبھی گھریلو محاذ کی رزمیہ داستانوں کا کوئی پردہ اٹھانے میں ایک زمانہ لگا دیتے ہیں۔
برطانیہ کے 62 سالہ میلکم ایپلگیٹ نے گھریلو زندگی کے حوالے سے اپنی زندگی کو بدل ڈالنے میں کمال کر دکھایا۔ شادی سے پہلے وہ باغبان تھے۔ کانٹے چُن کر الگ کرنا اور پھولوں کی تازگی برقرار رکھنا ان کا کام تھا مگر ہائے رے ناکامی‘ کہ وہ اپنی زندگی ہی کے باغ کو ویرانے میں تبدیل ہونے سے نہ روک سکے۔ بات یہ ہوئی کہ بیوی چڑچڑی نکلی۔ وہ بات بات پر طعنے دیا کرتی تھی، نیچا دکھانے کی کوشش کرتی تھی۔ یہ طرز عمل میلکم ایپلگیٹ کے لیے انتہائی ناقابل برداشت تھا مگر پھر بھی ایک دو برس نہیں بلکہ دو عشروں تک انہوں نے اس صورت حال کو برداشت کیا۔ پھر ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے اُن کی زندگی کا رخ بدل ڈالا۔ تنگ آمد بجنگ آمد والی کہاوت کو تبدیل کرنے کی کوشش میں انہوں نے ''تنگ آمد بہ دشت رفت‘‘ والی کیفیت پیدا کردی یعنی بیوی سے جان چھڑانے کے لیے جنگل کی راہ لی۔ انہوں نے دس سال جنگل میں گزارے اور اس مدت کے دوران بیوی یا اپنے بہن بھائیوں کو اپنے زندہ ہونے سے متعلق مطلع کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ دس سال بعد انہوں نے ڈھلتی عمر کے بے سہارا لوگوں کو رہائشی سہولت فراہم کرنے والے ایک ادارے سے رابطہ کیا تب متعلقین کو معلوم ہوسکا کہ جنہیں وہ مردہ سمجھ کر رو چکے تھے وہ تو زندہ ہیں۔
مرزا نے جب میلکم ایپلگیٹ کی کہانی سُنی تو اپنے روایتی طنزیہ لہجے میں بولے ''عجیب بے وقوف ہیں یہ صاحب۔ گھریلو زندگی سے کوئی اِس طرح بھاگتا ہے؟ ہمیں دیکھو! ہم تو بھی جھیل ہی رہے ہیں۔ اور جو کچھ ہم جھیل رہے ہیں اُس کی بنیاد پر تو ہمیں اب تک تین چار مرتبہ بن باس لے لینا چاہیے تھا۔ اور اگر ان صاحب کو بن باس لینا ہی تھا تو رام چندر جی کی طرح اپنی بیوی کو بھی ساتھ ہی لے جاتے تاکہ اُسے بھی کچھ تو پتا چلتا کہ جنگل میں بسنے کا مطلب ہوتا کیا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب جنگل ہی میں رہنا تھا تو پھر گھر میں رہتے رہنے میں کیا تھا!‘‘
مرزا کی بات بالکل درست ہے۔ گھریلو یعنی ازدواجی زندگی تو ہم بھی بسر کر ہی رہے ہیں اور ''... جی جانتا ہے!‘‘ والی کیفیت سے ہم بھی ''ہم کنار‘‘ ہیں مگر اِس کے باوجود کبھی جنگل کو آباد کرنے کا نہیں سوچا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک مرزا ہماری زندگی کا حصہ ہیں، ہمیں جنگل میں آباد ہونے کی ضرورت کبھی زیادہ محسوس نہیں ہوگی۔
میلکم ایپلگیٹ کی ''نمائندگی‘‘ کرتے ہوئے ہم نے عرض کیا کہ شریف آدمی جب حد سے زیادہ تنگ آ جاتا ہے تو ایسا ہی کرتا ہے یعنی کسی اور کو مشکل میں ڈالنے کے بجائے سارا عذاب خود جھیلتا ہے، کونا پکڑتا ہے۔
مرزا نے اپنے شاندار اور مشہورِ زمانہ گھریلو حالات و تجربات کی روشنی میں نکتہ آفرینی فرمائی ''شریف آدمی کا یہی تو مسئلہ ہے۔ جب وقتِ قیام آتا ہے تو یہ نادان سجدے میں گر جاتا ہے! جب حالات تقاضا کر رہے ہوتے ہیں کہ لگے رہو، ڈٹے رہو منا بھائی! تب یہ بھولا شہزادہ دامن جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کسی انوکھی ڈگر پر گامزن ہو جاتا ہے۔ سکون میدان چھوڑنے میں نہیں بلکہ میدان میں ڈٹ جانے اور فریقِ ثانی کو بھی خلجان میں مبتلا کرنے میں ہے‘‘۔
مرزا اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ اچانک چپ ہوگئے، ڈرائنگ روم کی پوری فضا کو مہیب خاموشی نے لپیٹ میں لے لیا۔ بات یہ تھی کہ بھابی چائے اور بسکٹ لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھیں اور اُن کی آمد نے دو دوستوں کے درمیان کِھلے ہوئے خوش گپیوں کے باغ کو چشم زدن میں جنگل بنا ڈالا تھا، ویرانے میں تبدیل کر دیا تھا۔ مرزا نے جو کچھ بتایا تھا‘ وہ بھی بہت کام کا تھا اور ان کا اچانک خاموش ہوجانا بھی دانش ہی کی علامت تھا کہ ہر دور کے شادی شدہ اہلِ دانش یہی کرتے آئے ہیں۔
مرزا کی دلیل درست تھی کہ نامساعد حالات میں بھی میدان سے بھاگنے کے بجائے ڈٹے رہو تاکہ فریقِ ثانی بھی خلجان میں مبتلا رہے۔ جس طور خواتین ڈٹی رہتی ہیں اُسی طور مردوں کو بھی پسپائی اختیار کرنے سے گریز ہی کرنا چاہیے۔ ایک ہی کشتی کے تمام سواروں یعنی گھریلو زندگی میں پریشانیوں سے دوچار مردوں کے لیے مرزا کا سوا لاکھ روپے کے بہ قدر مشورہ ہے کہ خواہ کچھ ہوجائے، ڈٹے رہو منا بھائیو!