تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-10-2017

انشورنس علیحدہ

رواں ہفتے کے دوران مجھ پر ایک انکشاف ہوا۔ ادویات کی تجارت جس کا انکشاف‘ عمران خان نے طلبا کے ایک اجتماع سے دوران گفتگو کیا اور درآمدی ادویات میں کرپشن کا ایک راز کھولا۔ وہ ہسپتال میں ضرورت کی خالص ادویات‘ امریکہ سے براہ راست منگواتے ہیں اور بل کی ادائی‘ کمپیوٹر کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایک روز فرصت کے وقت‘ خان صاحب نے اتفاقاً کمپیوٹر آن کیا تو ان پر بھید کھلا کہ ہسپتال کو دوا ساز کمپنیوں سے جو بل آتا ہے‘ اس میں تھوک کے گاہکوں کو چند فیصد رعایت دی جاتی ہے۔ انکوائری کی گئی تو معلوم ہوا کہ تھوک کے خریداروں کو قیمتوں میں جو رعایت دی جاتی ہے‘ اس کا فائدہ‘ متعلقہ عملہ اٹھا لیتا ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ حکومت جو خریداریاں کرتی ہے‘ اس کا فائدہ بھی متعلقہ عملہ اٹھا لیتا ہے۔ مزید کھوج لگانے پر ظاہر ہوا کہ تھوک کے خریداروں کو بھی یہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اتفاقاً ایک سرکاری افسر سے خان صاحب کی ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ نفع تو سرکاری خریداروں کو بھی دیا جاتا ہے۔ تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔ اب پتہ چلے گا کہ دوائوں کی خریداری میں حکومت‘ عوام کو کتنا چونا لگاتی ہے؟ خدا ترس سرکاری افسر خریداریوں کا فائدہ حکومت کو پہنچاتے ہوں گے لیکن جب سے حکمرانی کے معاملات تاجروں کے ہاتھ آئے ہیں تو یقیناانہوں نے کسی کو بتائے بغیر اپنا حصہ لیا ہو گا۔ اگر ایمانداری سے انکوائری ہو گئی تو عوام کے کروڑوں روپے حکومت کے خزانے میں چلے جائیں گے ورنہ حکمرانوں کے خزانے میں تو ہر وقت ہی ''گنجائش‘‘ رہتی ہے۔
روایت کے مطابق ہر شعبے میں جو افسر‘ سرکاری اخراجات کے لین دین میں ملوث ہو‘ وہ اپنی ''سویٹ ڈش‘‘ سے ضرور استفادہ کرتا ہے۔ خریداریوں کے مذکورہ شعبے میں نجانے کتنے کروڑ روپے کی رقوم‘ حق داروں تک پہنچنے کے بجائے‘ حکمرانوں کے کھاتے میں جا رہی ہوں گی؟ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ صحافیوں کے ایک گروپ نے‘ کافی وقت اور محنت صرف کرکے‘ حکمرانوں کی اضافی محنت اور آمدنی کے راز‘ افشا کر دئیے تھے۔ متعدد ملکوں میں وہاں کے بااختیار لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے‘ جتنی دولت کمائی‘ اس کا سراغ ایمانداری سے کام کرنے والے صحافیوں نے لگا لیا اور انتہائی رازداری سے کام لیتے ہوئے‘ سارے راز عام کر دئیے۔ یہ راز کھلنے پر کئی ملکوں کی حکومتیں ہل گئیں۔ ایک ملک کے سربراہ نے استعفیٰ دے دیا۔ کئی وزیر مستعفی ہو گئے۔ کئی وزرائے خزانہ اپنے عہدے چھوڑ گئے۔ صرف ہمارے وزیر خزانہ‘ عدلیہ کے نیک دل اور ذہین جج صاحبان کی‘ ان کی توقع سے زیادہ مہارت کو ''بددعائیں‘‘ دیتے ہوئے‘ ابھی تک پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ مزید چند روز‘ جج صاحبان کی لیاقت کا امتحان لیا جائے گا۔ جج صاحبان دیانت داری اور ذہانت میں پورے اترے تو ہم غریبوں کی جیب سے نکالی گئی فالتو کمائی‘ واپس قومی خزانے میں چلی جائے گی‘ ورنہ جہاں اسے پہنچنا تھا وہ ''پہنچ‘‘ چکی ہو گی۔
درآمدی اشیا کی تجارت میں اتنا نفع‘ مصنوعات بنانے والے نہیں کماتے ہوں گے‘ جتنا اس کی تجارت کی وسیع تر مارکیٹ میں کام کرنے والے ''اداکار‘‘ لے اڑتے ہیں۔ پاکستان میں عالمی منڈی کے پختہ کار فن کاروں سے بڑھ چڑھ کر ''فن کاری‘‘ کے ہاتھ‘ بڑھے ہوئے ناخنوں سمیت دکھا جاتے ہیں۔ کاروں کی صنعتوں کے کار ساز ''تخلیقی کاروبار‘‘ میں جو ''کمالات‘‘ دکھاتے ہیں‘ خود کاریں بنانے اور فروخت کرنے والوں کے تصورات کی کمندیں بھی وہاں تک نہیں پہنچتی ہوں گی۔ مثلاً کار ساز کمپنیاں اپنی ایجادات اور مہارتوں پر کھلے دل سے خرچ کرنے اور علاقائی خریداروں کے لئے نرخوں کا تعین کرنے کے بعد‘ صارف کے لئے جو قیمتیں مقرر کرتی ہیں‘ ان کا حال بتا کر خریداروں کی بد حالی پر‘ آپ نڈھال ہونے سے باز نہیں رہ سکتے۔ لیجئے اللہ کا نام اور بے ہوشی سے بچنے کا کوئی وظیفہ پڑھنا شروع کر دیجئے۔ کار ساز فیکٹری‘ مارکیٹنگ کرنے والے ایجنٹوں اور اپنے اپنے ملک میں‘ درآمد کرکے بیچنے والوں اور پھر شہری تقسیم کاروں کا پورا حصہ دینے کے بعد‘ پاکستان میں خریدار کی جو درگت بنتی ہے‘ اس کا تصور کرکے ٹھنڈی سانسوں اور ٹھنڈے پانی کا انتظام پہلے سے کر لیجئے۔ مقامی ڈیلر جو مقررہ نرخ بتائے گا وہ کچھ یوں ہوں گے۔ کار کی اصل قیمت 27 لاکھ۔ خریدار کے لئے قیمت میں کمشن ایک لاکھ‘ اور پیشگی دو لاکھ۔ یہ سب کچھ ادا کرنے کے بعد آپ کو تاریخ دی جائے گی۔ تین مہینے انتظار کے بعد‘ آپ ڈیلر کو کار کی پوری قیمت دے کر‘ انگلی پر چابی گھمانے کے قابل ہو جائیں گے۔ اگر آپ خریدی ہوئی کار‘ بقائمی ہوش و حواس گھر لے جانا چاہتے ہیں تو ستائیس لاکھ میں خریدی ہوئی کار‘ در اصل آپ نے تیرہ لاکھ میں خریدی ہے۔ انشورنس علیحدہ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved