تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-10-2017

فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟

کچھ شہر کے لوگ ظالم ، کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق... لا ابالی پن ، عدمِ احتیاط، حد سے بڑھا ہوا اعتماد، خود شکنی!
سچی بات تو یہ ہے کہ میں حیرت زدہ رہ گیا ۔ خلق کی ملامت کے سوا اس شخص کو پارٹی میں شامل کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟ نبیل گبول قومی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے کے اہل ہیں ۔ ٹی وی پہ بات کر سکتے ہیں کہ معلومات رکھتے ہیں۔ ان کی شمولیت کو اسد عمر نے ویٹو کر دیا تھا۔ ایسے کئی اور واقعات بھی ہیں ۔ دو بہت اہم شخصیات کی راہ میں جہانگیر ترین حائل ہوئے تھے۔ 
کسی کو پارٹی میں شمولیت سے روکا نہیں جا سکتا مگر جس کی امیدیں اور شرائط ہوں؟ جس پہ بھروسہ نہ کیا جا سکتا ہو؟ غداری اور ابن الوقتی جس کے خمیر میں ہو؟ کیونکر آپ اسے گوارا کریں گے اور جب قیمت چکانا پڑی تو چکائیں گے کیسے؟ 
دردؔ تو جو کرے ہے جی کا زیاں 
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟ 
اوّل خاموش رہنے کا ارادہ کیا۔ جو بوئے گا ، سو کاٹے گا۔ میں نے کیا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ پھر سوچا کہ کم از کم جتلا دیا جائے۔ اسد عمر کو تلاش کیا۔ ان کا فون بند تھا۔ ڈاکٹر علوی کی آواز پہلی ہی گھنٹی پر سنائی دی۔ انہوں نے کہا: ہم نے مزاحمت کی اور طے پایا ہے کہ گریز کیا جائے۔ پوری طرح اطمینان نہ ہوا۔ سوچا کہ رائے دی ہے تو باقیوں تک پہنچ جانی چاہیے۔ کپتان سے گاہے رابطہ فوراً نہیں ہوتا، ظاہر ہے کہ اس کی بے پناہ مصروفیت کے سبب۔ حسنِ اتفاق سے وہ فارغ تھا اور بشاش بھی بہت۔ میری بات سن کر ہنسا۔ عرض کیا: ہنسو نہیں، براہِ کرم توجہ سے سنو، بعد میں پچھتائو گے۔ وہ جو گالیاں دیتی اور الزام دھرتی ہے، اس سے زیادہ۔ پھر جہانگیر ترین سے بات ہوئی ۔ وہ خود حیران کہ ماجرا کیا ہے۔ محسوس ہوا کہ وہ تحریکِ انصاف کراچی کے معاملات میں دخل دینے سے گریزاں ہیں۔ بہرحال میرے موقف کی تائید کی۔ 
30 اکتوبر 2011ء تک کسی حد تک میں شریکِ کار تھا۔ پھر پیچھے ہٹ گیا کہ پہیہ اب رواں ہے۔ باایں ہمہ رابطہ رہا اور جب کبھی ضرورت پڑی، مشورہ دے دیا۔ بالعموم کالم ہی میں یا ٹی وی پر۔ رازداری کی بات ہوتی یا کچھ زیادہ اہم تو الگ سے ملاقات میں۔ 
کتنے ہی اہم لیڈر تھے، جن سے میرا رابطہ زیادہ تھا، خان کا کم۔ اوّل اوّل جہانگیر ترین اور ان کے پورے گروپ سے اس ناچیز نے بات کی تھی۔ عمران خان سے ان کے مذاکرات بعد میں ہوئے۔ 25، 30 سابق ارکانِ اسمبلی اور سینیٹرز کا گروپ تھا، جہانگیر خان پر جنہیں اعتماد تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ ایک گروپ تشکیل دیں اور تحریکِ انصاف سے ان کا سمجھوتہ ہو جائے۔ عرض کیا کہ یہ موزوں ہے اور نہ ممکن۔ کرنل غلام سرور چیمہ مرحوم پہ اللہ کی رحمت ہو، پُرجوش لہجے میں انہوں نے تائید کی۔ ماحول اور منظر ہی بدل گیا۔ بالآخر فاروق لغاری مرحوم کے فرزندوں اویس لغاری اور جمال لغاری سمیت سبھی آمادہ ہو گئے۔ یہ الگ بات کہ بعد میں چھوڑ گئے کہ مقامی طور پر انہیں سازگار نہ تھا۔ اس سے زیادہ یہ کہ انہوں نے نون لیگ کے اقتدار کی بو سونگھ لی تھی۔ کباب کی مہک یلغار کرتی ہوئی آتی ہو تو اشتہا کا مارا بہت دیر تاب نہیں لا سکتا۔ لائے بھی کیوں؟ 
دو عزیز دوستوں نے قومی اسمبلی کے ایک سابق سپیکر کی سفارش کی کہ عمران خان سے ملاقات کرا دیجیے۔ ان کے خیال میں وہ ایک دیانت دار آدمی تھے۔ مجھے لگا کہ براہِ راست وہ ان صاحب کو جانتے نہیں۔ موصوف متلون مزاج اور غیر ذمّہ دار تھے۔ اپنے تحفظات سے آگاہ کیا‘ وہ مگر اصرار کرتے رہے۔ اتنے میں عالی جناب نے خود فون کر دیا۔ لاہور میں تھا اور اگلے دن راولپنڈی کا قصد۔ عرض کیا کہ فوراً تو نہیں مل سکتا کہ تکان کا مارا ہوں۔ صبح سویرے چل دوں گا۔ کچھ دیر موصوف ڈٹے رہے۔ آخر کار ٹل گئے۔ انہیں اندازہ ہوا کہ دال نہیں گلے گی؛ چنانچہ ایک دن موقع پا کر وہ تحریکِ انصاف کے مرکزی دفتر جا پہنچے۔ کوئی دوسرا ممتاز آدمی شمولیت کا اعلان کرنے والا تھا۔ وہ بھی شاملِ باجا ہو گئے۔ اندازہ ان کے بارے میں درست ثابت ہوا۔ کچھ دن بعد قاف لیگ میں واپس چلے گئے۔ 2008ء کے الیکشن میں بری طرح ایک خاتون سے ہارے ۔ یا للعجب ان محترمہ کے پاس ٹکٹ بھی پیپلز پارٹی کا تھا۔ اب وہ تحریکِ انصاف کا حصہ ہیں اور اس کی ''نیک نامی‘‘ کا باعث ۔ اپنے علاقے میں پارٹی کے پرانے اور نسبتاً نیک نام لیڈروں سے جھگڑتی رہتی ہیں۔ ان سے، جنہوں نے قربانیاں دیں ، ایثار کیا اور ڈٹ کر کھڑے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹکٹ انہیں مل جائے گا اور شاید جیت بھی جائیں۔ نہ ملا تو چھوڑ جائیں گی اور تبرّیٰ کرتی رہیں گی۔
چھ برس ہوتے ہیں ، ایک محترم خاتون نے رابطہ کیا۔ قاف لیگ میں رہ چکی تھیں۔ نون لیگ میں شمولیت کا ارادہ تھا۔ میاں محمد نواز شریف سے ملنے گئیں۔ ان کے بقول بہت اکرام میاں صاحب نے کیا ۔ کھانے کی میز پر اپنی اہلیہ اور صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ بٹھایا ۔ گفتگو قرینے سے ہو رہی تھی کہ میاں صاحب نے ایک عجیب بات کہہ دی: میں کشمیریوں کی تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر ہوں۔ وہ کہاں تاب لا سکتی تھیں ۔ فوراً ہی ٹوک دیا اور کہا: میاں صاحب یہ بات آپ کو ہرگز نہ کہنی چاہیے تھی۔ وہ کبھی واپس نہ جانے کے لیے لوٹ آئیں۔ 
کچھ عرصے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت کی فرمائش کی۔ کپتان سے میں نے کہا: بہت اچھی خاتون ہیں ۔ ان کا خیال رکھنا۔ خان کہاں کسی کا خیال رکھتا ہے۔ یوں بھی سیاسی پارٹیوں میں آپا دھاپی بہت ہوتی ہے ۔ ایک ٹھاٹ سے انہوں نے زندگی بسر کی تھی ۔ چپ چاپ ایک دن لوٹ آئیں ۔ شکایت کیا، تذکرہ تک نہ کیا۔ ان کی صاحبزادی سے، جو اپنے والدین کی طرح سرگرم اور محترم ہیں، ایک دن والدہ محترمہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ان کے مزاج سے واقف ہیں ۔ بے اعتنائی گوارا نہ کر سکیں۔ سیاست کو انہوں نے بھلا دیا۔ اب گھر میں ہیں اور شاد ہیں۔ 
میرے خالہ زاد بھائی، سابق سینیٹر طارق چوہدری بہت دن متامل رہے۔ میری موجودگی میں ایک دن کپتان نے ان سے کہا: آپ کی جگہ ہارون الرشید ہوتا تو بہت پہلے فیصلہ کر لیتا۔ انہوں نے فوراً ہی طے کر ڈالا۔ 30 اکتوبر 2011ء کے تاریخی جلسہئِ عام سے تین ماہ قبل‘ یہ ان کا فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں منظم کردہ اجتماع تھا‘ جس نے خبر دی کہ پنجاب میں نون لیگ کا متبادل اب پی ٹی آئی ہے، پیپلز پارٹی نہیں۔ نظم و ضبط اور عزتِ نفس کے باب میں وہ حساس ہیں ۔ صدر دفتر کے کچھ لوگوں نے ہیرا پھیری کی تو انہوں نے جانچ لیا؛ چنانچہ وہ ان کے خلاف سرگرم ہو گئے۔ پارٹی سے وابستہ ہیں مگر دلچسپی ظاہر ہے کہ کم ہو گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ سیاست کے عملی تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اکثر لیڈروں سے زیادہ ۔ سیاست ایک پیچیدہ کھیل ہے ۔ پاکستان میں اور بھی پیچیدہ اور اس کے تاریخی عوامل ہیں۔ تحریکِ انصاف پہ اللہ رحم کرے۔ ہر روز ایک حادثہ اسے درپیش رہتا ہے ۔ وہی منیر نیازی کا مصرعہ 
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
کچھ شہر کے لوگ ظالم، کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق... لا ابالی پن ، عدمِ احتیاط، حد سے بڑھا ہوا اعتماد، خود شکنی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved