حکومت کا کہنا ہے کہ ختم نبوتﷺ کے حلف نامے میں ترامیم کو واپس لے لیا گیا ہے لیکن بوجوہ تاحال دینی جماعتیں تحفظات کا شکار ہیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران اس حوالے سے دو اہم اکٹھ ہوئے۔ پہلا اکٹھ 19،20 اکتوبر کو چناب نگر میں ہوا۔ چناب نگر میں اگرچہ اس سے پہلے بھی ہر سال دو روزہ ختم نبوتﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سال ترمیمی بل کی مناسبت سے شرکاء کی تعداد اور ولولہ انگیزی دیدنی تھی۔اس اجتماع میں ہزاروں کی تعداد میں افراد نے شرکت کی اور انتہائی توجہ کے ساتھ علماء کی تقاریر کو سنا۔ اس کانفرنس سے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے خطاب کیا ۔ختم نبوت کے حوالے سے عوام کے جوش وجذبات کو دیکھ کر اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں تھا کہ اگر کبھی بھی حرمت رسولﷺ اور ختم نبوت ﷺکے حوالے سے کسی قسم کی سازش کی گئی تو عوام بلا تفریق مسلک اس عظیم کاز کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے ۔اس موقع پر جہاں پر مولانا فضل الرحمن، ڈاکٹر ابوالخیر زبیر ، مولانا اللہ وسایا، مولانا کفیل شاہ بخاری ، سید ضیاء اللہ شاہ بخاری اور دیگر جید علماء نے خطاب کیا وہاں اس ناچیز نے بھی چند گزارشات پیش کیں جو درج ذیل ہیں۔
پاکستان کا آئین ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے بالکل واضح ہے اور اس میں کسی قسم کی لچک یا نرمی پیدا کرنے کی کوشش کرنا جہاں پر اسلام کے مسلمہ اصولوں سے بے وفائی کے مترادف ہے وہیں پر آئین پاکستان سے انحراف بھی ہے۔تحریک ختم نبوت کے حوالے سے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے بے مثال قربانیاں دیںاور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ تحریک 7ستمبر 1974 ء کو ختم نبوت کا انکار کرنے والے گروہوں کو غیر مسلم قرار دئیے جانے پر منتج ہوئی۔ بے مثال قربانیوں سے لبریز اتنی طویل تحریک کو سبوثاژ کرنے کی کوئی بھی کاوش پاکستان کے اسلام پسند اور دین سے محبت کرنے والے لوگ قبول نہیںکر سکتے۔ ماضی میں میاںنواز شریف صاحب نے بعض ایسے اقدامات کیے جن سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ وہ ختم نبوت کے منکروں کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں اور ایک متنازع شخصیت کے نام پر نیشنل فزکس سنٹرکا نام بھی رکھ چکے ہیں ۔ختم نبوت کے حلف نامے میں کی جانے والی ترمیم کے حوالے سے رانا ثناء اللہ اور زاہد حامد کا موقف بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں اپنا دو ٹوک موقف عوام الناس کے سامنے رکھنا چاہیے ۔حلف نامے کی بحالی کے دعویٰ کے باوجود اسلامیان پاکستان اس لیے مطمئن نہیں کہ ووٹرز اور ووٹر لسٹوں کے متعلقہ شقیں سات بی اور سات سی بھی آئین سے باہر نکال دی گئی ہیں اور جب تک ان شقوں کو بحال نہیں کیا جاتا ختم نبوتﷺ کے منکرین کی پاکستان کے سیاسی امور پر فائز ہونے کی راہ بند نہ ہوگی۔تمام مقررین کی تقاریر کو حاضرین نے بڑی توجہ اور جوش وخروش سے سنا اور اپنے تائیدی نعروں سے اس امر کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور اس میں حرمت رسول ﷺ اور ختم نبوت ﷺ جیسے امور پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
ختم نبوت ﷺکانفرنس کے اگلے روز 21 اکتوبر کو ملی یکجہتی کونسل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ڈاکٹر ابوالخیر زبیر ، لیاقت بلوچ ،سید ساجدعلی نقوی، پروفیسر عبد الرحمن مکی، عبد الرحیم نقشبندی،حافظ عاکف سعید، پیر معین الدین محبوب کوریجہ، صاحبزادہ سلطان احمد علی، اسداللہ بھٹو،نورالحسن گیلانی، قاری محمد شیخ یعقوب،عبدالغفار روپڑی، قاری ظہیر اختر منصوری، پیرغلام رسول اویسی، راقم الحروف ودیگر رہنمائوں نے شرکت کی۔اجلاس میں تمام رہنماؤں نے حالیہ دنوں میں حکومت کے غیر ذمہ دارانہ کردار اور رویے پر تشویش کا اظہار کیا۔اجلاس میں تمام رہنماؤں نے اپنی قیمتی آراء اور تجاویز بھی پیش کیں۔اجلاس کے بعد ابو الخیر محمد زبیر نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ختم نبوتﷺ میں ترمیم کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کے لیے حکومت نے کمیٹی بنائی مگر اس کمیٹی نے تاحال کسی ذمہ دار کے خلاف کارروائی کی کوئی سفارش نہیں کی ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ختم نبوتﷺ کے خلاف دانستہ یا نادانستہ ہونے والی سازش کے محرکات سامنے لائے جائیں۔ جو بھی اس سازش میں ملوث ہے اس کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اس سے اس کا عہدہ بھی چھین لیا جائے‘ خواہ وہ کیسے ہی اہم عہدے پر فائز ہو۔ اگر جلد ایسا نہ کیا گیا تو عوام میں اشتعال پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھتا چلا جائے گا۔ شہباز شریف نے نواز شریف سے ختم نبوت میں ترمیم کرنے والے کووفاقی کابینہ سے نکالنے کا مطالبہ کیا تھا تو پھر ایسے افراد کے خلاف کارروائی کہاں تک پہنچی ؟ اس طرح کے سیاسی ڈرامہ بازی سے مایوسی پیدا ہو گی اور عوام مشتعل ہوں گے ۔ حکومت نے انتخابی اصلاحات کی آڑ میں خوفناک اقدامات کئے ہیں اور اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان سے انحراف کیا ہے ۔ انہوں نے کہا‘ ایک طرف تو حکومت اشتہار چلا رہی ہے کہ ہم نے ختم نبوت میں ترمیم کا مسئلہ حل کر لیا ہے دوسری طرف 7B اور 7C کو الیکشن اصلاحات سے نکال دیا گیا ہے جب تک ان شقوں کو اصل حالت میں بحال نہیں کیا جاتا ، مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ امید وار کے ساتھ ساتھ ووٹر کے لیے بھی حلف نامہ ضروری ہے کہ وہ بھی مسلمان ہونے کا حلف اٹھائے ۔ انہوں نے کہا ہم حکومت کے غیر ذمہ دارانہ کردار کے خلاف بھرپور تحریک چلائیں گے ۔اس حوالے سے پورے پاکستان میں ختم نبوت کانفرنسیں کی جائیں گی۔ملی یکجہتی کونسل لاہور کراچی اور پشاور میں ختم نبوتﷺ کے عنوان پر بڑی کانفرنس کرے گی اور اس کے بعد دیگر شہروں میں بھی بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گا۔انہوں نے اس موقع پر مستقبل میں دینی جماعتوں کے متوقع اتحاد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل ایک غیر انتخابی پلیٹ فارم ہے مگر اس میں موجود جماعتیں الیکشن لڑتی ہیں اگر تمام مذہبی سیاسی جماعتیں متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں تو اس کا فائدہ ہو گا ۔ متحدہ مجلس عمل کا کوئی دعوت نامہ نہیں ملا اگر ملے گا تو فیصلہ کریں گے۔
اس موقع پر ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کا یہ اہم اجلاس تھا اور اس میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملی یکجہتی کونسل ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد قیام پاکستان کے مقاصد اور اسلامی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کو غیر قانونی طور پر نظر بند کیا ہوا ہے ان کو فوراً رہا کیا جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اچھا پیغام جائے ۔ انہوں نے کہا ملی یکجہتی کونسل کی میڈیا کمیٹی کو فعال کر دیا گیا ہے جو قومی وحدت اور یکجہتی کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔ جبکہ نظام مصطفی ﷺکے نفاذ کی تحریک چلانے کے لیے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کی سربراہی میں دس رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو چند دنوں میں ملک گیر تحریک کے لیے لائحہ عمل تیار کرے گی۔