سابق وزیر اعظم کی دختر نیک اختر مریم صفدر کے قافلے کے آگے پیچھے پولیس کی پلٹن کو دوڑتے اور اچھلتے ہوئے دیکھ کر ٹیکس دہندہ عام شہری کے دل میں یقیناً کسی ذمہ دار سے یہ پوچھنے کا خیال مچلنے لگتا ہو گا کہ ان گاڑیوں کا پٹرول کہاں سے آتا ہے؟ ان کی دیکھ بھال کیسے ہوتی ہے؟ اور لاہور، اسلام آباد میں ان کے سیاسی سرگرمیوں کے لئے آتے جاتے ہوئے ٹریفک کیوں بند کی جاتی ہے؟ آیا پاکستان کے آئین میں کسی جگہ یہ درج ہے کہ کسی سابق حکمران کی اولاد کو پاکستانی عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی اداروں سے حاصل کئے گئے بھاری قرضوں سے عمر بھر شاہانہ پروٹوکول ملتا رہے گا؟ کیا ظفراﷲ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے بیٹوں‘ بیٹیوں کے لئے دس دس انتہائی بیش قیمت بلٹ پروف گاڑیاں اور پچاس کے قریب انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز تعینات ہوتے ہیں؟... اگر ایسا نہیں تو پھر پاکستان کی قرضوں سے حاصل کی گئی دولت اور عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیا گیا سرمایہ مریم صفدر کے پروٹوکول پر کس خوشی میں اور کیوں لٹایا جا رہا ہے؟
انتخابی عمل میں اپنے ووٹ سے کسی امیدوار کو اہل یا نااہل قرار دینے والے پاکستانی عوام حاکمانِ وقت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم لوگ جنہوں نے کبھی ٹیکس چوری کا سوچا بھی نہیں‘ جو خود پر واجب ٹیکس کی ایک ایک پائی ادا کرتے ہیں تاکہ اس ٹیکس سے حکومتیں ہماری جان و مال کی حفاظت کر سکیں، ریاست اپنی تمام بنیادی ضروریات پوری کر سکے‘ کیوں بجلی کے لئے ترسائے جاتے ہیں۔ یہ توانائی کی قلت کا ہی نتیجہ ہے کہ جب لوڈ شیڈنگ ہماری روزمرہ زندگی اور کاروبار حیات کو برباد کرنے لگتی ہے تو اس بربادی سے بچنے کے لئے ہم میں سے کسی نے جنریٹر تو کسی نےUPS/Inverter خرید رکھے ہیں تاکہ اپنے گھروں، دفتروں، ہوٹلوں اور دکانوں کے معاملات چلائے جا سکیں۔
آئین پاکستان کے مطابق حکومت پاکستان پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ اپنے عوام کو تمام بنیادی سہولتیں مہیا کرے‘ جس میں پینے کے لئے صاف شفاف پانی بھی شامل ہے‘ لیکن پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسنے کے بعد حکمرانوں سے مایوس ہو کر ہم لوگوں نے اپنے گھروں‘ ہوٹلوں اور دفتروں میں بجلی سے چلنے والی واٹر سپلائی کی موٹریں لگوا رکھی ہیں اور اس پانی کو صاف اور شفاف بنانے کے لئے بھی انتظامات کر رکھے ہیں۔ اس اضافی خرچ کی ذمہ داری آئینِ پاکستان کے تحت کس پر عائد ہوتی ہے؟ ہم نے اپنے گلی محلوں‘ کالونیوں، رہائش گاہوں، دفاتر اور دکانوں پر اپنی جیب سے بھاری رقم خرچ کرکے دن رات مستعد سکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ حکمران عوام کو جان و مال کا تحفظ دینے کی جانب کوئی دھیان نہیں دے رہے۔ صورتحال یہ ہے کہ دن دہاڑے ہمیں اپنے گھروں کے دروازوں، گلیوں‘ سڑکوں‘ چوراہوں‘ دکانوں کے اندر اور باہر بلکہ تفریح کے لئے بنائے گئے باغات میں گھومتے ہوئے بھی لوٹا جا رہا ہے۔
آئین پاکستان میں درج ہے کہ حکومت شہریوں کے لئے بہترین تعلیمی نظام اور معیاری سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں قائم کرے گی لیکن اس ملک کے لاکھوں لوگ سرکاری سکولوں کے گھٹیا معیار اور ناقص تعلیم کی وجہ سے اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اب ایک ایسا شخص جو ہر ماہ اپنی تنخواہ سے37 ہزار روپے حکومت پاکستان کو انکم ٹیکس ادا کرتا ہے‘ اسے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے لئے معیاری سرکاری سکول میسر نہیں ہوتے تو وہ مجبوراً اپنے بچوں کو ایسے نجی سکولوں میں داخل کراتا ہے‘ جہاں اسے ماہانہ پچاس ہزارروپے بطور فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس اضافی خرچ کا ذمہ دار کون ہے؟ حکمران ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسا کر فضول اور مہنگے ترین پروجیکٹس پر قومی وسائل غرق کئے جا رہے ہیں۔ ان وزیروں اور مشیروں سے ماہانہ 37 ہزار انکم ٹیکس دینے والا پوچھنا چاہتا ہے کہ پل اور میٹرو بنانے کے بجائے آپ نے سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں کیوں نہیں بنائیں؟ پاکستان کے آئین میں یہ بات بہت ہی واضح الفاظ میں درج ہے کہ ریاست پاکستان ہر شہری کو علاج کی بہترین سہولتیں دینے کی پابند ہے لیکن جب ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہ ہوں گے، ادویات نہ ہوں گی‘ درکار جدید مشینری نہیں ہو گی‘ وہاں مریضوں کے لئے بستر نہیں ہوں گے تو ہر ماہ اپنی تنخواہ، کاروبار، بجلی پانی گیس اور ٹیلیفون کے بلوں پر لاکھوں روپے ٹیکس دینے والا گھرانہ علاج معالجے کے لئے پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتا ہے۔ اس کے علاج پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کا ذمہ دار کون ہے ؟ اور جب اپنی تکمیل کے آخری مرحلے تک پہنچے ہوئے ہسپتالوں اور سکولوں کو صرف اس لئے اجڑنے کے لئے چھوڑ دیا جائے کہ یہ ان کے سیاسی حریف کے شروع کردہ ہیں تو پھر بتایا جائے کہ پاکستان کا آئین اس پر کیا کہتا ہے؟ پاکستان کی انتظامیہ کہاں ہے‘ جو ایسے حاکم کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر اس سے جواب طلبی کرے کہ موٹر وے بن سکتی ہے‘ 350 ارب روپوں سے میٹرو بس کے منصوبے ملتان، لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میں مکمل کئے جا سکتے ہیں... اورنج ٹرین بنائی جا سکتی ہے‘ تو پھر چوہدری پرویز الٰہی کے دور کا وزیر آباد کا امراض قلب کا وہ ہسپتال کیوں نہیں مکمل کیا جا سکا‘ جو اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں پہنچ چکا تھا؟ لاہور کے جنرل ہسپتال میں چوہدری پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ کے دور کی وہ چالیس کروڑ روپے کی مشینری جہازی سائز کے کنٹینروں میں کباڑ خانہ کیوں بنائی جا رہی ہے؟
معیاری اور شفاف انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے جس کے بارے میں آئین پاکستان میں واضح احکامات درج ہیں... تو کیا ریاست اپنے شہریوں کو انصاف دینے میں کامیاب ہوئی ہے؟ پاکستان بھر میں قائم کئے گئے پولیس سٹیشن تھانے کم اور عقوبت گاہیں زیا دہ بن چکے ہیں‘ جہاں لاوارث، غریب اور ہر قسم کے مخالفین کے خلاف اذیتوں کے وہ حربے استعمال کئے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کیا 70 برسوں میں اس ظلم کو ختم کیا جا سکا؟ دس بیس سال تک اپنے حق اور انصاف کے لئے دھکے کھانے کے بعد جب انصاف نہ ملے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ سوچئے کہ مسٹر اے اپنی پینتیس سالہ ملازمت میں، مسٹر بی جو ایک کاروباری شخصیت ہے پچاس برسوں میں اور دکاندار، تاجر چھوٹے بڑے صنعتی یونٹوں کے مالکان سمیت پاکستان کا ہر گھرانہ جو پانی، بجلی، گیس ٹیلی فون، موبائل فون اور کسی بھی چھوٹے بڑے سٹور پر ضروریات زندگی کی اشیا خریدتا ہے‘ ان میں سے ہر ایک شخص اپنے بڑھاپے تک پہنچتے ہوئے اوسطً 60 لاکھ روپے ٹیکس کی صورت میں ادا کر چکا ہوتا ہے‘ لیکن بیمار ہونے کی صورت میں اسے اپنا علاج کروانے کے لئے نجی ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے تو اس وقت وہ سوچتا ہے کہ حکمرانوں اس کے لئے کیا کیا؟ آج جب میں بڑھاپے میں بیمار ہوں تو میرے لئے کوئی سوشل سکیورٹی نہیں‘ اور جب اسی بوڑھے شخص کو علاج کی خاطر کسی ہسپتال جاتے ہوئے سڑک پر پولیس فورس کی جانب سے یہ کہہ کر زبردستی روک دیا جائے کہ ابھی تھوڑی دیر بعد ایک سابق وزیر اعظم کی بیٹی کے قافلے نے یہاں سے گزرنا ہے تو... ذرا سوچئے؟