اگلے روز الحمراء کی بیٹھک میں ممتاز شاعرہ ناصرہ زبیری کے تیسرے مجموعۂ کلام ''تیسرا قدم‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر جماعت اسلامی کی طرف سے اُنہیں گلدستہ پیش کیا گیا تو میں نے کہا کہ چلو‘ یہ تو ثابت ہو گیا کہ ناصرہ کی شاعری ہم سب کی طرح غیر شرعی نہیں ہے۔ یہ مجموعہ کلام ویلکم بک پورٹ کراچی نے چھاپا اور اس کی قیمت پانچ سو روپے رکھی ہے۔ انتساب جو پانچ شعروں پر مشتمل ہے شہاب زبیری کے علاوہ اور کسی کے لیے نہیں ہو سکتا ورنہ اس کا شرعی ہونا مشکوک ہو جائے گا۔ پس سرورق عطاء الحق قاسمی کا تحریرکردہ ہے جس میں لکھتے ہیں :
''ناصرہ کی شاعری میں آپ کو بولتے ہوئے مصرعوں جیسا پھوہڑپن نہیں ملے گا۔ میں بڑا شعر اس شعر کو بھی سمجھتا ہوں جس سے حظ اُٹھانے کے لیے مختلف احساسات کے قارئین کو اس شعر کی حدود میں داخل ہونے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہ پڑتی ہو‘ بلکہ میرے نزدیک بڑا شعر وہ ہے جو ادب کے عام قاری اور خاص قاری کو بیک وقت اپنی گرفت میں لے لے۔ ناصرہ کی شاعری میں یہ دونوں صفات ملتی ہیں۔ اس لیے میں ان کی شاعری کا ہمدم دیرینہ چلا آ رہا ہوں۔ ان کی شاعری دلوں کو چھو لینے والی شاعری ہے اور یہی شاعری زندہ رہتی ہے۔ باقی شاعری شاعر کی بیاض ہی میں سسک سسک کر دم توڑ دیتی ہے‘‘۔
اندرون سرورق پر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم شاعرہ
کا اعتراف اس طرح کرتے ہیں :
''ناصرہ زبیری کی مصروف زندگی میں بھی اس کی تخلیقی خواہش نمو جاگی رہتی ہے اور اسے بھی جگائے رکھتی ہے۔ سخن طرازی کی آنچ کبھی دھیمی نہیں ہوئی اور شعری پیشرفت نے ہمیشہ اس کے ہونے کا اعلان کیا۔ سو اب اس کا تازہ مجموعہ کلام ''تیسرا قدم‘‘ اس کی تازہ کاری کا دل پذیر اظہار ہے۔ ناصرہ کی شاعری ذاتی محسوسات کا اظہار بھی ہے اور معاشرتی ہم رشتگی کا اظہار بھی‘ ہرچند یہ طرز احساس نیا نہیں تاہم ناصرہ نے بڑی حد تک اپنی انفرادی نوا کو تلاش کر لیا ہے اور یہی خوبی اس کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ اس شعری سفر میں ناصرہ کی استقامت ہر دم اس کے ساتھ رہے گی اور تخلیقی نمو پذیری اس کو نئے امکانات سے روشناس کرا سکے گی‘‘۔
اصغر ندیم سید کی رائے میں :
''ناصرہ زبیری کے شعری ارتقاء کا ''تیسرا قدم‘‘ فنی پختگی‘ موضوعات کی ندرت اور اظہار کے انوکھے پن میں قابل رشک ہے۔ ان کی غزل روایتی شاعری سے مالدار ہے اور اپنے موضوعات اور مسائل میں منفرد ہے۔ ناصرہ نے غزل کی ساخت اور اس کے اندر موج در موج حرارت اور حرکت کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس کے Dynamics کو بھی بڑے احتیاط سے قابو میں لانے کی کوشش کی ہے۔ ناصرہ زبیری کی نظموں کے موضوعات اپنے کینوس میں بہت کچھ سمیٹ لینے کا ہنر سموئے ہوئے ہیں۔ ان کے شعری تجربے کو سمجھنے کے لیے ان کی نظم ''شاعری اب بھی سانس لیتی ہے‘‘ کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے ۔یہ نظم خوابوں اور خواہشوں کا ایک جہان ساتھ لے کر چلتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ناصرہ زبیری ہماری شاعری کے مرکزی دھارے میں پورے اعتماد کے ساتھ اپنا فکری سفر جاری رکھے گی‘‘۔
کتاب کا ٹائٹل خوبصورت ہے اور اس کی پشت پر شاعرہ کی تصویر مزید خوبصورت 205 صفحوں کو محیط کتاب اہل ذوق لوگوں کے لیے ایک تحفے سے کسی طور کم نہیں۔ میں اس کی شاعری کے حوالے سے پہلے بھی اظہار خیال کر چکا ہوں اور کرتا رہتا ہوں جبکہ گزارے موافق شاعری کے اس جمگھٹے میں جس سے ہم دوچار ہیں‘ یہ شاعری بہت غنیمت لگتی ہے کہ شاعری اور خاص طور پر شعر غزل کا کام یہ ہے کہ آپ کو ایک طرح کی مسرت سے ہمکنار کرے اور‘ ناصرہ کی غزل بطور خاص اس کا اہتمام کرتی ہے۔ اس کی نظموں کے بارے میں سید صاحب نے اپنی تحسینی رائے دے ہی دی ہے۔
اور‘ اب اس کتاب میں سے اپنی پسند کے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں ؎
جسے کہیں بھی اجازت نہیں دکھانے کی
ہم اس طرح کا تماشا خرید بیٹھے ہیں
منزل تمام عمر مرے سامنے رہی
اک راستے نے مجھ کو گزرنے نہیں دیا
تُمہاری ایک نظر تھی گزر گئی دل سے
فقیر عشق بناتے غلام کرتے ہوئے
شفق کے ساتھ ترے لوٹنے کے وعدے پر
گزر گئی ہے مری عمر شام کرتے ہوئے
تراشتے ہوئے دیکھا ہے سب نے ہیرے کو
کسی نے دیکھا نہیں دل کو خام کرتے ہوئے
چلتی ہیں آسمان پہ بادل کی کشتیاں
نیچے سمندروں میں زمیں ڈوبنے کو ہے
حالات لگ رہے ہیں بظاہر وہی مگر
محسوس ہو رہا ہے کہ سب وہ نہیں رہا
بدلی مرے نصیب کے تاروں کی چال جب
کرنے لگا وہ چاند بھی گردش مرے خلاف
فتح مندی چھوڑنے کو خودسری تیار ہے
صف بدلنے کے لیے اک لشکری تیار ہے
ہم سوچتے ہی رہ گئے بدلیں گے ایک دن
وہ دیکھتے ہی دیکھتے کیسا بدل گیا
آج کا مقطع
مجھے بات کرنے کی خاطر‘ ظفرؔ
کسی کی اجازت نہیں چاہیے