تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     27-10-2017

کپتان شہید کے خوش نصیب والدین

''جی ایچ کیو‘‘ کے پچھواڑے میں چند منٹ کے فاصلے پر ''ٹینچ بھاٹا‘‘ کے نام سے راولپنڈی کی ایک پرانی آبادی ہے۔ میں نے 20اکتوبر 2017ء کو یہاں کی ایک جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا۔ خطبہ کے بعد جن صاحب کے ہاں کھانا تھا وہاں دسترخوان پر ایک 76سالہ بزرگ بھی میرے سامنے موجود تھے۔ میزبان نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا ان کا نام محمد خالد جان ہے۔ یہ کیپٹن عبدالسلام شہید کے والد گرامی ہیں۔ عبدالسلام شہید دہشت گردوں کے خلاف اس قدر بہادری سے لڑے کہ انہیں ''تمغہ بسالت‘‘ سے نوازا گیا۔ محمد خالد جان اب میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے، حمزہ صاحب! میرا بیٹا عبدالسلام جب سے شہید ہوا ہے میری دلی خواہش تھی کہ آپ ہمارے گھر بھی تشریف لائیں مگر ایسا موقع نہ بن سکا۔ آپ وقت نکال سکیں تو میرے گھر پر چائے پی لیں، میرے لئے اعزاز ہو گا۔ میں نے محترم خالد جان سے کہا، آپ کی دعوت میرے لئے عزت و سعادت اور اعزاز و افتخار کی بات ہے کہ ایک شہید کے والد گرامی مجھ جیسے خاکسار کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ یوں کھانا کھانے کے بعد میں محمد خالد جان کے ہمراہ ان کے گھر جا پہنچا۔ شہید عبدالسلام کی والدہ محترمہ جو اپنے گھرکے ایک بڑے کمرے میں محلے کی بچیوں کو قرآن پڑھا رہی تھیں وہ بھی تشریف لے آئیں۔ شہید کی والدہ محترمہ انتہائی دیندار اور نیک خاتون ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ بچیوں کو پڑھاتی ہیں بلکہ محلے کی خواتین کو ہفتے میں ایک بار اپنے گھر میں بلا کر قرآن و حدیث کا درس بھی دیتی ہیں۔ پاک فوج کے شیر دل کیپٹن عبدالسلام شہید نے ایسی ماں کی کوکھ سے جنم لیا۔ تہجد گزار ماں کی گود میں تربیت پائی۔ نیک اور صالح باپ کا دوست بن کر جوانی میں قدم رکھا۔ چنانچہ ایسے باکردار ماں باپ کی تربیت نے عبدالسلام کو پاک فوج کا چمکتا دمکتا یاقوت بنا دیا۔ 
محترم محمد خالد جان بتلا رہے تھے ''کیپٹن عبدالسلام 20ستمبر 1980ء کو پیدا ہوا، جب وہ فوجی افسر بنا تو میں نے دسمبر 2009ء میں اس کی شادی کر دی۔ آپ کی تقریروں کا عاشق تھا۔ جیسے آج میں آپ کا خطبہ سننے پہنچا ہوں، اسی طرح جب آپ کی تقریر پنڈی میں ہوتی تھی تو عبدالسلام وقت نکال کر پہنچتا تھا۔ آپ نے 2005ء کے زلزلے کے بعد راولپنڈی میں متواتر چھ سات سال تک عیدین کے خطبے دیئے۔ ہم عید آپ کے پیچھے پڑھتے تھے۔ اپنی آخری عید بھی عبدالسلام نے آپ کی اقتدا میں ادا کی، تب اس کی یونٹ بھی راولپنڈی میں تھی۔ اس کے بعد اس کی ڈیوٹی خیبر ایجنسی میں ایف سی کے حوالے ہو گئی۔ میرا بیٹا بڑا دلیر اور بہادر تھا۔ خارجی دہشت گردوں کے بارے میں وہ دینی بصیرت رکھتا تھا کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دور جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی صاحب کا تھا، وہ پاک فوج کے سالار تھے۔ انہوں نے دہشت گردوں سے ملک کو نجات دلانے کے لئے ''راہ نجات‘‘ کے نام سے آپریشن کا آغاز کر رکھا تھا۔ کیپٹن عبدالسلام اپنے کمانڈنگ آفیسر کی قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف ایک دلیرانہ اور کامیاب آپریشن کے بعد اپنے کانوائے کے ہمراہ واپس اپنے کیمپ میں آ رہا تھا کہ راستے میں لنڈی کوتل کے قریب میلوٹ کے مقام پر دہشت گردوں کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگیں پھٹ گئیں جس سے کچھ گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ اب کمانڈنگ آفیسر اور کیپٹن عبدالسلام نے اپنے جوانوں کو فوری منظم کر کے ایک مکان میں پوزیشن سنبھالی اور دہشت گرد جو اس کے بعد حملہ آور ہونے کو تیار تھے۔ ان کے خلاف لڑنا شروع کر دیا۔ کمانڈنگ آفیسر جو کرنل تھے، شدید زخمی ہو گئے۔ انہوں نے شہادت سے پہلے کمان کیپٹن عبدالسلام کے سپرد کردی۔
کیپٹن عبدالسلام نے اپنے جوانوں کے خون کو گرماتے ہوئے کہا، اللہ کے شیرو! دین اور وطن دشمنوں کے خلاف ڈٹ جائو، مارے گئے تو شہادت کی نعمت، بچ گئے تو غازی بنو گے۔ اب عبدالسلام اپنے جوانوں سے آگے بڑھ کر لڑنے لگے۔ جو جوان زخمی ہوتا، اسے کلمہ پڑھاتے، شہیدوں کا بھی خیال اور لڑنے والوں کا بھی دھیان اور خود بھی معرکہ آرا۔ کتنے ہی دہشت گرد مارے گئے۔ بھاگنے والوں کا پیچھا کر کے بھی ان کو مردار کیا گیا۔ آخر کار جب معرکہ سر کر لیا گیا تو ایک مارٹر گولہ آیا اور کیپٹن شہید ہو گئے۔‘‘ محترم محمد خالد جان صاحب کہہ رہے تھے حمزہ صاحب! اس نے دوستوں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ 29مارچ 2011ء کو گھر آئے گا۔ وہ اسی تاریخ کو گھر تو ضرور آیا مگر ہیلی کاپٹر میں آیا۔ اپنی خون آلود وردی میں آیا، اوپر پاکستان کا پرچم کہ جس کا مطلب ''لاالہ الا للہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے اوڑھے ہوئے آیا۔ اس کے جنازے میں پاک فوج کے پانچ جرنیلوں نے شرکت فرمائی۔ پاک فوج کے شہداء کے قبرستان میں اسے دفن کیا گیا۔ خون آلود وردی اور پاک وطن کا پرچم اوڑھے ہوئے شہداء کا ساتھی بنا۔ اس کے پہلو میں پانچ سال تک ایک قبر کی جگہ خالی پڑی رہی۔ جنرل حمید گل صاحب فوت ہوئے تو یہاں مدفون ہوئے۔ وہ افغان جنگ کے ہیرو تھے تو میرا بیٹا خارجیوں کے خلاف غزوئہ ہند کا ہیرو تھا۔
اب شہید کیپٹن عبدالسلام کی والدہ محترمہ گویا ہوئیں، بیٹے کی شہادت کے بعد میں نے خواب دیکھا، آواز آتی ہے، اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے آپ لوگوں کو دعوت پر بلایا ہے۔ میں اور خالد صاحب وہاں پہنچے تو ناقابل بیان حد تک خوبصورت شامیانہ لگا ہوا تھا۔ یہ پارک اور پھولوں میں گھرا ہوا تھا۔ کھانے کی کیا ہی بات تھی، روٹی چاند کی طرح تھی۔ سالن شوربے دار تھا اس میں بوٹیاں بھی چاند کی طرح گولائی لئے ہوئے تھیں۔ ایک حسین بچہ خدمت پر مامور تھا۔ ہمارے پیارے حضورﷺ سفید چادر مبارک اوڑھے تشریف فرما تھے۔ حضورﷺ کا مبارک چہرہ نہیں دیکھ سکی... میری تعبیر عرض خدمت ہے۔ اس دنیا سے جانے کے بعد حضورﷺ کی ضیافت فردوس میں ملے گی اور تب جی بھر کے دیدار کا انعام بھی ملے گا۔ (ان شاء اللہ) کیا بات ہے کیپٹن عبدالسلام اور ان کے والدین کے مقام کی۔ اللہ تعالیٰ ''دارالسلام (جنت کا اک نام) ان کودے رہا ہے جو اہل پاکستان کی سلامتی کیلئے اپنی سلامتی کو قربان کر رہے ہیں۔ کس قدر عظیم ہیں یہ لوگ (سبحان اللہ، سبحان اللہ)۔
کیپٹن شہید کے والد گرامی سے میں نے پوچھا تمغہ بسالت کہ جس سے آپ کے بیٹے کو نوازا گیا، مراعات کیا ملتی ہیں۔ محمد خالد جان کہنے لگے، حمزہ صاحب میری بہو بیوہ ہو گئی۔ اس کے پاس میری ایک پوتی ہے۔ بنگلہ، نقدی اور زمین وغیرہ جو کچھ بھی ملا، بہو نے کہا مجھے عبدالسلام کی بیٹی کے لئے چاہئے۔ میں نے دوسری بات ہی نہ کی، بہو نے دوسری جگہ ایک فوجی افسر سے شادی کر لی ہے۔ وہ خوش ہیں، میں بھی اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔ یہ چھوٹا سا میرا اپنا بنایا ہوا گھر ہے۔ فوج کی طرف سے ماہانہ انتہائی معقول رقم بطور پنشن مل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، ہمیں دنیا میں کچھ نہیں چاہئے۔ گزارا اچھا ہو رہا ہے۔ پاک فوج کا شکریہ۔ ہم دونوں میاں بیوی آخرت کی تیاری میں ہیں۔ یہاں سے جانے کا وقت قریب ہے۔ فردوس میں عبدالسلام سے ملاقات ہو گی۔ وہاں جنت کی بہو سے ملاقات ہو گی۔ امید ہے وہاں عبدالسلام کی ڈھیر ساری اولاد بھی ہو گی۔ حضرت محمد کریمﷺ سے ملاقات ہو گی۔ بس ہمیں وہیں کی آس اور امید ہے۔ 
قارئین کرام! یہ ہیں اسلام اور پاکستان کے سچے اور صادق پاسبان۔ یہ ہیں وہ امین اور امانتدار کہ جن کی قربانیوں سے ہم سب اس قابل ہیں کہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کی پوزیشن میں ہیں اور وہ کہ جن کی معاشی دہشت گردی کی وجہ سے آج پاکستان خطرے میں ہے۔ وہ معاش پر کپتان عبدالسلام کے سالار کو اس بات پر ہدف تنقید بناتے ہیں کہ وہ بولتے کیوں ہیں؟ میں نے آج کا کالم کپتان کے والد خالد جان کے نام اس لئے بھی کیا ہے کہ 2011ء میں خارجی دہشت گردوں کے بارے میں پہچان انتہائی کم تھی، چنانچہ محترم خالد جان کے بیٹے کی شہادت پر ایک مذہبی عالم نے منبرپر کہہ دیا کہ کپتان کی موت کو ہم شہادت نہیں کہتے۔ ایک اور مولوی نے تعزیت کی مگر ساتھ ہی خالد جان کے دل پر ایسا نشتر بھی چبھو ڈالا۔ خالد جان اور ان کی اہلیہ کا دکھ ڈبل تھا ایک بیٹے کی شہادت کا دکھ اور دوسرا یہ کہ شہادت ہے کہ نہیں؟ اس لئے میں نے ماں باپ سے کہا، آپ لوگوں نے اس وقت قربانی دی جب خارجی دہشت گردوں کو لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے مجاہد کہا جاتا تھا۔ آپ کا اجر اللہ کے ہاں بے حساب ہے۔ (ان شاء اللہ) بقول حامد کرزئی امریکہ کے حمایت یافتہ خارجی دہشت گردوں اور جی ہاں! انڈیا کے حمایت یافتہ خارجی دہشت گردوں کے خلاف آغاز میں قربان ہونے والا عبدالسلام درجات میں بھی ان شاء اللہ لازوال اور بے مثال ہے، کہ آج پاکستان دہشت گردی سے بڑی حد تک نجات پا کر فساد کو برباد کرنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے۔ (الحمدللہ)!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved