کل میری ایسی درگت بنی‘ جیسی ہمارے ملک میں عام انتخابات کی بنتی ہے۔ میرے ذہن میں دو موضوعات تھے۔ ایک درآمدی ادویات میں کمیشن خوری اور دوسری درآمدی کاروں میں نفع خوروں کی ''حلوہ خوری‘‘۔ واقعہ یہ تھا کہ عمران خان نے اپنے ہسپتال کے لئے‘ خالص دوائیں حاصل کرنے کی خاطر‘ براہ راست مینو فیکچررز سے دوائیں خریدنا شروع کر دیں۔ یہ خریداریاں ضرورت کے مطابق سال بھر جاری رہتیں لیکن جب کمپنی کے بل آتے تو ان میں تھوک کی خریداری پر معقول کمیشن بھی دیا جاتا تھا۔ جب خان صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے تحقیق کر کے راز پا لیا اور وہ یہ تھا کہ جو بل شوکت خانم ہسپتال کی انتظامیہ ادا کرتی‘ ان میں معقول کمیشن موجود ہوتا لیکن فائدہ ہسپتال کو ملنے کے بجائے‘ اہلکارو ں کی جیبوں میں چلا جاتا۔ شوکت خانم ہسپتال سے جب یہ بات باہر نکلی تو پنجاب کی صوبائی حکومت نے‘ نہلے پہ دہلا مارتے ہوئے‘ سارے صوبائی محکموں کے لئے بیرونی مصنوعات‘ جو براہ راست درآمد کی جاتیں‘ کے لئے محکموں کی طرف سے ہی خریداری کے لئے علیحدہ کمپنیاں بنا دی گئیں اور سارے محکمے‘ براہ راست خریداری کر کے حکومت کو ملنے والا کمیشن خود کھانے لگے۔ میں اصل میں کاروں کی درآمد پر‘ اضافی منافعوں کا بھید کھولتے کھولتے ‘خود ہی بھید بن گیا۔ دوائوں میں کمپنیوں‘ حکومتی محکموں اور ہسپتالوں کی براہ راست خریداریوں پر‘ صارفین کی جیبوں پر جو ڈاکہ ڈالا جاتا ہے‘ میں نے اس کی تفصیل بیان کرنے کے لئے نئی کاروں کے درآمد کنندگان کی ''ہیرا پھیری‘‘ کا راز کھولا تو پھر یہ ململ کے تھان کی طرح کھلتا ہی چلا گیا۔ میں نہ تو پوری طرح دوائوں میں نفع خوری کی تفصیل لکھ پایا اور نہ ہی نئی کاریں خریدنے والوں کی ساری بپتا سنا پایا۔کالم کی حالت اس شعر جیسی ہو گئی‘ جس کا دوسرا مصرع سنانے والے کے حافظے سے نکل جائے۔
آج‘ جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ پشاور کے حلقہ نمبر4میں قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔یہ نشست گلزار خان کی ناگہانی موت کے نتیجے میں خالی ہوئی تھی۔گلزار خان نے نہ کبھی ووٹروں کے ناز اٹھائے اور نہ کسی سیاست دان کے۔ وہ صاف صاف سودا کرتے۔ ٹکٹ اور ووٹ دستیاب نرخوں پر خرید لیتے۔ ساتھ کچھ 'جھونگا‘ بھی دے دیتے۔ حالیہ الیکشن سے پہلے بھی انہوں نے پچاس لاکھ روپے‘ ووٹروں کی ضروریات اور حلقے کے ترقیاتی کاموں کے لئے نکال کے رکھ د یئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ بھاری رقم مستحقین تک گئی یا اپنی جیب میں ڈالنے والوں کے ہاتھ لگی۔ آج رات کو ہی پتا چل جائے گا کہ گلزار خان مرحوم کی رقم اصل جگہ خرچ ہوئی یا ایک ہی جیب میں چلی گئی۔ گلزار خان خود ٹکٹ اور ووٹ خریدتے تو کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کی لگائی ہوئی رقوم کو خورد برد کرتا ۔اب چونکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے‘ اس لئے آج پشاور کے این اے 4 کے ضمنی الیکشن کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اب صرف یہی بات ممکن ہے کہ گلزار خان کی پھینکی ہوئی رقم وصول ہو گئی یا مرحوم کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو دوسرے مرحوموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن کوئی بات نہیں کہ گلزار خان نے طاقت کے جس بل بوتے پر ‘سیاست میں دھڑم سے جو قدم رکھا تھا‘ ا سی طرح کے ہزاروں قدم اپنے بیٹوں کے پاس چھوڑ گئے ہیں۔ گلزار خان جب بھی الیکشن لڑتے‘ بہت سے حاجت مندوں کے مسائل حل کر دیتے۔ اب کے دیکھیے کہ وہ کام ‘جس کے لئے مرحوم نے رقم چھوڑی تھی‘ ٹھیک طرح سے ہو گیا ہو۔ وگرنہ گلزار خان کے بیٹے‘ اپنے مرحوم باپ کی عزت کی دیکھ بھال کرتے ہیں یا خورد برد کرنے والوں سے منافع سمیت وصولی کرتے ہیں؟ موجودہ حکمرانوں سے اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کر کے ''جمہوریت‘‘ کی جو خدمات انجام دی ہیں‘اس میں منافع سمیت ان کی وصولیاں کر لیتے ہیں یا چپ کر کے دیکھتے ہیںکہ ''باپ کا مال ووٹوں میں بٹ کر کس کس کی جیب میں جاتا ہے‘‘
یہاں تک تو گلزار خان اور ان کی آل اولاد کی وصولیوں کا معاملہ تھا۔خا ن صاحب کی پارٹی کا لین دین آج کے انتخابی نتیجے کے ساتھ ہی طے پا جائے گا۔ اگر خریدے ہوئے ووٹوں میں خورد برد ہوئی تو گلزار خان کے بچے نہ خورد چھوڑیں گے نہ برد چھوڑیں گے۔گلزار خان کی خوبی یہ تھی کہ وہ جو کچھ کماتے‘اس کا ایک حصہ ضرورت مندوں میں کسی نہ کسی بہانے تقسیم کر دیا کرتے تھے۔
آج کے ضمنی انتخاب میںاگر پیپلز پارٹی کے غم زدہ ''ہمدردوں‘‘ نے ووٹو ں کی جگہ آنسو پارٹی کی نذر کر دئیے ''تو لین دین پر خاک‘ محبت پاک‘ بڑے فرما گئے ہیں‘‘۔ دوسری طرف میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ ستم ظریفوں نے ایک پوری فلم بنا کرچلا دی ہے: ''میں پنجاب نہیں جائوں گی‘‘۔ لوگوں نے اس فلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ پیپلز پارٹی شہر شہر کہتی پھر رہی ہے کہ ''میں پنجاب نہیں جائوں گی‘‘۔ اب ایک نئی سیاسی آواز ابھر رہی ہے'' میں بھی پنجاب نہیں جائوں گی‘‘۔ اگر ضد ہی ٹھہری تو دوسری کا سسرال ایبٹ آباد میں ہے۔ وہ بھی کے پی نہیں جائے گی۔