تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-10-2017

مانگتے رہ گئے ‘ شاہ و گدا

ن لیگ کے انجینئر امیر مقام‘ سیاست دانو ں کے کل پرزے درست کر کے‘ انہیں ری کنڈیشنڈ کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔وہ انجینئر ہیں لیکن گریجویٹ نہیں۔ وہ سیاست دان ہیں لیکن کارکن نہیں۔سابق فوجی حکمران اورمختلف سیاسی ورکشاپوں میں کام کرتے کرتے انہوں نے‘ سیاست اور ٹھیکیداری میں مہارت حاصل کر لی۔کچھ عرصہ ہوا عمران خان کی ایک خاتون‘ ایم این اے جو کسی حادثے کا شکار ہوکر منحرف ہو گئیں‘ وہ تحریک انصاف کے کام کی نہ رہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس اتنا و قت نہیں تھا کہ وہ عائشہ گلالئی‘ کے سیاسی کل پرزے ٹھیک کر سکے۔انجینئر امیر مقام کی ورکشاپ نے کافی دنوں سے خستہ حال مشینریاں درست نہیں کی تھیں ۔ انہیں بڑی بڑی سڑکوں کے ‘ بڑے بڑے کنٹریکٹ مل رہے تھے۔مسلم لیگ(ن) کا ٹھیکہ ملا تو امیر مقام کے نرخ بڑھتے گئے۔ ن لیگ کے پاس بھی دولت کی فراوانی تھی۔ مگر تھوڑے ہی دن کام چلا۔ اس کا خزانہ تو بھرا بھرایا تھا لیکن ساری دولت صرف قومی اسمبلی کی ایک سیٹ سے زیادہ‘ ن لیگ اور کوئی خدمت انجام نہ دے سکی۔ میرا اندازہ ہے کہ موجودہ آفت زدہ ن لیگ میں اوورہالنگ کا کام کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔اس پارٹی کے تمام بڑے بڑے لیڈر اور ہنر مند اپنی خرابیاں دور کرنے میں مصروف ہیں۔ پارٹی کے سارے افراد خاندان‘ کبھی ایک پیشی بھگتے ہیں‘ تو کبھی دوسری۔ پارٹی کے سربراہ مختلف ملکوں میں جھانکتے پھر رہے ہیں کہ کسی حکمران کا اثر ورسوخ کام آئے تو مقدموں سے نجات نہیں تو کم از کم ڈھیل مل جائے۔اس مرتبہ وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں گریہ زاری کرتے ہوئے خدا اور اس کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے حضور سر جھکا جھکا کر دعائیں مانگتے رہے۔مزید خیر وبرکت مانگنے کے لئے مکہ مدینہ سے لندن گئے اور جو کمی رہ گئی ہے‘ اسے پورا کرنے کے بعد لاہو رتشریف لا رہے ہیں۔داتا دربار کی کمی رہ گئی تھی توآج کل میں وہاں بھی رہی سہی دعائوں سے بھری جھولیاں‘ جا کر خالی کر دیں گے۔
جب پاناما سکینڈل کے ورق کھولے جانے لگے تو پاکستان کے مطلق العنان حکمرانوںنے انہیں گھاس تک نہ ڈالی۔ پہلے تو شاہی خاندان کے چھوٹے بڑے سب نے‘ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر توجہ نہ دی۔ کبھی جج صاحبان کے بلاووں کی طرف مڑ کے نہ دیکھا۔ کبھی جو سمن آئے ان کے لفافے بھی کھولنے پر توجہ نہ دی۔میڈیا‘ پاکستانی قانون اور ریت رواج کے تقاضوں کی 
طرف توجہ دلاتے دلاتے تھک گیا لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ البتہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے جن خیر خواہوں کے ملبوسات میں چھوٹی سی جیب ہوا کرتی تھی‘ انہوں نے بڑے بڑے تھیلے لگوا لئے۔ خدا نے واقعی ان کی سن لی۔روزانہ شام کو یہ تھیلے بھرے جاتے اور رات کو نئے نئے مضامین کے ساتھ تھیلے بھروائے جاتے۔ایک طرف وزارتوں کے طلب گار‘ صبح ہی سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کر‘ اپنی اپنی حاجات کے لئے جھولیں پھیلانے لگتے مگر ان میں زیادہ تر ایسے تھے‘ جن کے پاس کم از کم ایل ایل بی کی
ڈگری ضرور ہوتی۔ وہ صبح سپریم کورٹ کے احاطے اور رات گئے تک ‘ٹی وی چینلز کی کرسی تلاش کر کے صدائیں لگانے لگتے۔ رب کا کرنا کیا ہوا کہ سب کی سنی گئی۔ جس کو ایڈوائزی مل گئی‘ وہ اسی پر صبر کر کے بیٹھ گیا۔ جس کے ہاتھ مشیری لگی‘ اس نے بھی دعائیں دیتے ہوئے پلائو کی پلیٹیں بھر کے‘ ٹی وی سٹوڈیوز کا رخ کیا۔ خود بھی کھایا اور دعائیں دینے والوں بھی درجن دو درجن پرچیاں تقسیم کر دیں‘ جنہیں ہر پرچی کے ساتھ ‘پلائو کی ایک پلیٹ مل جاتی۔ سخی بابا نے سب کو خوش کر دیا لیکن ایک غرض مند خالی پلیٹ لے کر بیٹھا رہا۔ آخر کار دو تین دن صدائیں لگاتے لگاتے اس کے حصے میں بھی ‘آدھی پلیٹ وزارت اور چوتھائی پلیٹ کُھرچن آگئی۔
مقدمات سر پٹ دوڑ رہے ہیں۔ملزمان کبھی عدالت کا رخ کرتے ہیں۔ کبھی دوسرے ملکوں میں جا کر حکمرانوں سے مدد مانگتے ہیں۔ کبھی غریب غربا نے روزانہ عدالتوں کے باہر ہاتھ پھیلائے‘ جھولیاں پھیلائیں مگر کچھ ہاتھ نہ لگا۔بلکہ شہزادی نے عدالت کے باہر کھڑے ہجوم کے اندر‘شاہانہ انداز کے ساتھ‘ گداگروں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا''پہلے ہماری حکومت تھی۔ مگر اب بھی ہم کسی سے کم نہیں۔ کل ہماری حکومت آئے گی۔انتظار کرو‘‘۔ حاجت مندوں کا ہجوم جھولیاں پھیلائے دعائیں دیتا اور دو وقت کی روٹی مانگتا ہوا شہزادی کی توجہ‘ اپنی طرف مبذول کراتا ‘ شاہانہ کار کی طرف بڑھتا رہا۔ غریب گداگروں کو بن مانگے سپاہیوں کے ڈنڈے ملتے رہے۔ غریب اور بھوکے صدائیں لگاتے رہے۔ ''واہ دولت مندو واہ!ہم بھوکوں کے لئے ایک روٹی نہیں اور اپنے لئے خزانوں کی درخواستیں لئے پھرتے ہو۔ ہمیں تو رات تک کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ مل جائے گا مگر تمہاری جھولیاں کون بھرے گا؟‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved