تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     28-10-2017

ہم سے تو روانڈا اورکینیا بہتر!

ہم کچھ اور کر سکتے ہیں یا نہیں کم از کم ملک کا کچھ حلیہ تو بہتر کر دیں۔ کہنے کو تو ہم مانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن اپنی حالت دیکھیں تو ایمان کا یہ حصہ تو ہمارے ہاتھوں سے گیا کیونکہ اجتماعی طور پہ ہمارا صفائی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ پہاڑوں سے لے کر سمندر تک، بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے دیہات تک، پورا ملک پلاسٹک بیگ کی وبا میں لت پت ہے۔ جہاں جائیں، کسی مارکیٹ میں گلی میں یا دیہات کے کسی کونے میں، پلاسٹک بیگز کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ 
اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے پر ہمیں بجا طور پہ فخر ہے۔ میزائل قوت بھی ہمارے پاس ہے۔ ہم صلاحیت رکھتے ہیں کہ ہندوستان کا بیشتر حصہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار تباہ کر ڈالیں۔ ہندوستان کے پاس بھی ہمارے حوالے سے یہ صلاحیت موجود ہے۔ وہ بھی پاکستان کو ایٹمی قوت سے تین چار مرتبہ تباہ کر سکتا ہے۔ ایٹم کا راز ہم نے پا لیا لیکن پلاسٹک بیگ کے سامنے ہم بے بس ہیں۔ ہماری اجتماعی عقل اس کے سامنے موقوف ہے۔ ہمارے لیڈران‘ سویلین ہوں یا فوجی‘ ہر بات پہ وعظ و لیکچر دینے کے لئے ہمہ تن تیار رہتے ہیں‘ لیکن پلاسٹک بیگز کے مسئلہ‘ جس نے پوری ریاست کو غلاظت میں جکڑا ہوا ہے‘ کے بارے میں سوچنے سے یہ عظیم مدبر قاصر ہیں۔ کون انہیں بتائے کہ ہمارے دریا اور نہریں اس بیماری سے بھری ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ پلاسٹک میں گھری ہوئی ہے۔ ساحل بھرے ہوئے ہیں۔ مچھلیاں اور جانور اس سے مرتے ہیں۔ لیکن ہم اس بارے کچھ سوچ نہیں رکھتے۔ سوچیں تب جب لیڈران اپنے مفاد اور ذاتی مسائل سے باہر نکلیں۔ لیکن جب مال بنانے میں ہی لگے ہوں، کرپشن ہی ان کا وتیرہ ہو اور اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے صبح سے شام تک ایک سے ایک جھوٹ گھڑ رہے ہوں تو کسی اور سوچ کی خاک فرصت ملے گی۔
تبھی تو کہتے ہیں کہ سب سے پہلی ضرورت اس ملک کو صاف اور ستھری قیادت کی ہے۔ یہ بات حتمی ہے کہ مال بنانے والی قیادتیں بنیادی فیصلے نہیں کر سکتیں۔ کرپٹ حکمران میٹرو جیسے شوشے تو تعمیر کر سکتے ہیں، دکھاوے کے لئے چمکتے ہوئے پراجیکٹ کھڑے کر سکتے ہیں، لیکن انہیں کہیں کہ بنیادی مسائل کی طرف جائیں، پولیس کی اصلاح کریں، حکمرانی بہتر بنائیں، صحت اور تعلیم پہ توجہ دیں، آلودگی کے مسئلے کی طرف نظریں پھیریں، تو یہ ان کے بس میں نہیں۔ بس یہی کہتے رہیں گے کہ فلاں ملک میں کاروبار شروع کیا اور الحمدللہ اس میں بڑا منافع ہوا۔ قطر میں پراپرٹی کا کاروبار کیا اور الحمدللہ وہاں بھی اللہ کی مہربانی رہی۔ دختر فرماتی ہیں کہ باہر کیا میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ جے آئی ٹی کھوج لگاتی ہے تو ورجن آئی لینڈ کے حکام سند دیتے ہیں کہ آف شور کمپنیوں کی اصل مالکن وہی ہیں۔ یہ ایک مثال ہے۔ جب ایسے چکروں میں حکمران اور ان کے خاندان پڑے ہوں، وزیر خزانہ دوبئی میں جائیدادیں رکھتے ہوں اور وزرا صاحبان اور وزیر اعظم نے جیبوں میں اقامے ٹھونس رکھے ہوں تو وہ پولیس اصلاحات، آلودگی اور بنیادی مسائل کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ 
روانڈا اور کینیا کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ ان دو افریقی ممالک نے پلاسٹک بیگ کے استعمال کو فوجداری جرم قرار دیا ہے اور سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ روانڈا وہ ملک ہے جہاں کچھ سال پہلے لاکھوں انسانوں کا قتل عام ہوا تھا۔ چھوٹا سا ملک ہے اور یہ پورے کا پورا قبرستان اور قتل گاہ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ پاؤل کاگامے(Paul Kagame) نامی شخص نے اقتدار سنبھالا اور ملک کے حالات بہتر ہونے لگے۔ اس سارے ملک میں اب ایک بھی پلاسٹک بیگ نظر نہیں آتا۔ سڑکیں اورگلیاں صاف ہیں، کھیت اس گندگی سے پاک۔پلاسٹک بیگ کے استعمال پہ سخت سزا ملتی ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا‘ پلاسٹک بیگ رکھنا وہاں فوجداری جرم ہے۔ دکانوں کی سخت مانیٹرنگ ہوتی ہے‘ اور پلاسٹک بیگ پکڑا جائے تو دکان فوراً بند ہو جاتی ہے۔ یہاں ہم گدھوں کا گوشت بیچتے ہیں اور گلا سڑا دوسرا گوشت منوں کے حساب سے شہروں میں فروخت کیاجاتاہے۔ ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ اور تو اور ادرک تیزاب میں دھوئی جاتی ہے تاکہ اس میں چمک آئے۔ جہاں یہ حالت ہواور حکمران ذاتی تشہیر سے ہی کام چلائیں وہاں پلاسٹک بیگ کا رونا کیا معنی رکھتاہے؟الحمدللہ ہر کونے پہ یہاں مسجد پائی جاتی ہے۔ آخرت کی فکر بھی ہمیں لاحق رہتی ہے۔ کسی مولوی صاحب یا محترم واعظ کو پلاسٹک بیگ کے بارے میں کبھی کچھ کہتے سنا ہے؟ کبھی کسی مبلغ دین کے منہ سے سنا ہے کہ یہ چیز استعمال نہ کی جائے، اس سے پرہیز برتی جائے؟ کبھی آلودگی کے بارے میں کسی منبر سے آواز آئی ہے؟ 
کینیا میں بھی پلاسٹک بیگ کے بارے میں سخت قوانین بنادئیے گئے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ وہاں پلاسٹک بیگ کے استعمال پر چار سال قید تک سزا ہو سکتی ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے پڑھا کہ پلاسٹک بیگ کے استعمال کے جرم میںکسی کو 19 لاکھ روپے کا جرمانہ ہوا ہے۔ یہاں پر ہمارے اکابرین اربوں کی ڈکیتی کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ اتنی جائیدادیں بنائی ہیں کہ قارون کا خزانہ چھوٹا لگنے لگتا ہے لیکن آوازیں نکلتی ہیں کہ ہم سے کیوں پوچھ گچھ ہو رہی ہے، ہم پہ مقدمات کیوں بنائے جا رہے ہیں۔ سب سے افضل تو سابق وزیر اعظم کا درد مندانہ سوال ہے کہ مجھے کیوں نکالا گیا۔ کینیا کوئی مثالی ملک نہیں۔ وہاں کے حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں بھی بہت لمبی ہیں۔ لیکن پلاسٹک بیگ کے مسئلے پہ جو قانون سازی ہوئی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اور قباحتوں کے باوجود ان مسائل پہ بھی کچھ سوچ بچار ہوتی ہے۔ بیس کروڑ کا ہم ملک ہیں۔ ہم میں ایسی سوچ پیدا کیوں نہیں ہوتی؟
ہمارا پرابلم کیا ہے؟ ہم تو اجتماعی طور پہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اس ملک میں کون سے درخت اُگائے جائیں۔ لاہور اسلام آباد موٹر وے بنتی ہے تو سفیدے کا درخت‘ جو اس دھرتی کے لئے قطعاً موزوں نہیں‘ دونوں اطراف لگایا جاتا ہے‘ صرف اس وجہ سے کہ اس کی بڑھوتری زیادہ ہے۔ یہ درخت پانی چوس لیتا ہے اور ہماری بارانی زمینوں کے لئے تو بالکل ہی درست نہیں۔ لیکن باہر کے ماہر آتے ہیںاور کہتے ہیں کہ سفیدہ لگاؤ اور ہمارے محکموں کے افسران آنکھیں بند کرکے اور عقلوں پہ تالے لگا کے اُن کی بات مانتے ہیں۔ انگریز ہزاروں میل دور سے آئے لیکن ہمارے حالات کی آگاہی ہم سے بہتر رکھتے تھے۔ ان کے ڈسٹرکٹ گزیٹئر (District Gazetteer) پڑھیے۔ ہمارے علاقوں کے بارے میں ہم سے زیادہ ان میں معلومات درج ہیں۔ انگریزوں نے جب نئے لاہور کی بنیاد رکھی اور مال روڈ بنایا تو ارد گرد لگانے کے لئے انگلستان سے پودے نہ لائے بلکہ مقامی درختوں کو انہوں نے ترجیح دی۔ مال کے دونوں اطراف پیپل کے درخت ہیں۔ یہاں نئی سڑک بنتی ہے تو کام شروع ہونے سے پہلے انگریزوں کے وقت کے درخت پہلے کاٹے جاتے ہیں‘ اور ان کی جگہ محکمہ جنگلات والے نمائشی قسم کے پودے لگا دیتے ہیں۔ پہلے جنون چڑ ھا تھا سفیدے کا، اب نیا جنون ایک اور جھاڑی کا ہے جس کا نام کونو کارپس (Conocarpus) ہے۔ ہر جگہ اب وہی لگایا جا رہا ہے کیونکہ اس کی بھی بڑھوتری زیادہ ہے۔ 
جب صحیح درختوں کا ہی انتخاب نہ کر سکیں اور پلاسٹک بیگ کی لعنت کے بارے میں سوچ سے یکسر قاصر ہوں تو اور کمالات ہم نے کیا کرنے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved