تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-10-2017

بھارت میں کوئی لیڈر ہے کیا؟

میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر جو کچھ لکھا تھا‘ لگ بھگ وہی ہوا۔ پٹاخوں کی بکری روکنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ لوگوں نے جم کر پٹاخے چھوڑے اور دلی میں آلودگی 23 گنا بڑھ گئی۔ اسی دن چھپے 'لاسینٹ‘ کے سروے کے مطابق بھارت میں 2015ء میں آلودگی کے باعث کوئی پچیس لاکھ لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے۔ سرکار نے اس سروے کے آنکڑے پر کئی سوالیہ نشان لگائے ہیں اور اس بات کو مسترد کر دیا کہ آلودگی کے سبب مرنے والے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد بھارت میں ہے۔ ہو سکتا ہے بھارتی سرکار کی نیت ٹھیک ہو لیکن آج ملک کو یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے کہ بھارت میں قیادت نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں؟ لیڈر نام کا کوئی آدمی ہے یا نہیں؟ ہر کام ہم ڈنڈے کے زور پر کرانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ عدالت فیصلہ کر دے گی تو لوگ مان لیں گے۔ سرکار قانون بنا دے گی تو وہ نافذ ہو جائے گا۔ یہ ٹھیک ہے سرکار چلانے میں عدالتوں‘ سرکاروں‘ قوانین‘ آئین کا یقینا دخل ہے‘ لیکن سماج صرف ان سے نہیں چلتا۔ سماج کو چلانے کے لیے جس قوت کی ضرورت ہے‘ اسے لیڈرشپ کہتے ہیں‘ اس کی کمی دکھائی پڑ رہی ہے۔ قانون تو ہے لیکن اس کے باوجود پٹاخے بکے اور چھوٹے‘ قانون تو ہے لیکن شراب دھڑلے سے پی جا رہی ہے‘ قانون کا ڈر ہے ضرور لیکن رشوت کھانے میں چھوٹے سے چھوٹے بابو اور بڑے سے بڑے وزیر اعظم بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے فقیر لوگ‘ مولوی‘ پادری‘ گرو گرنتھی کیا کر رہے ہیں؟ وہ کروڑوں لوگوں سے عزم کیوں نہیں کراتے کہ وہ نہ رشوت لیں گے نہ دیں گے‘ نشہ خوری نہیں کریں گے‘ سبزی ہی کھائیں گے‘ انگریزی میں اپنا کام کم سے کم کریں گے‘ نہ جہیز دیں گے نہ لیں گے‘ اپنے دستخط مادری زبان میں ہی کریں گے‘ ہر آدمی کم از کم ایک پودا ضرور لگائے گا وغیرہ۔ اس طرح کے عزم انقلابی دنوں میں مہرشی دیانند‘ بال گنگا دھر تلک‘ مہاتما گاندھی‘ ونوبا اور لوہیا جیسے کرواتے رہتے تھے۔ میرے خیال میں وہ ہندوئوں کے اصلی لیڈر تھے۔ کہاں چلے گئے وہ لیڈر صاحبان؟ اب ہمارے بھارتی لیڈروں کو صرف ووٹ اور نوٹ کی فکر رہتی ہے۔ ان میں اتنی سوچ ہے ہی نہیں کہ وہ عام لوگوں سے ایسے عزم کروائیں۔
بھارت کیوں بنے کسی کا مہرہ؟ 
امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے پاکستان‘ افغانستان اور بھارت کا دورہ کیا۔ ان کی وہ تقریر بھارتی اخباروں میں جم کر چھپی‘ جس میں انہوں نے بھارت سے درخواست کی کہ وہ جنوبی سمندر کے علاقہ پر چین کی دادا گیری کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہو جائے‘ اس سفارتی سنگرام میں وہ امریکہ کا حصے دار بنے‘ ہم سفر بنے‘ ہم جولی بنے۔ ٹلرسن نے چین کے خطرناک ارادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو ایک بھروسہ مند جوڑی دار کی ضرورت ہے‘ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ ہی ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ بھی مودی کی تعریفوں کے پل باندھ کر بھارت کو اپنی توپ کا بھوسہ بنانا چاہتے ہیں‘ بالکل ویسے ہی جیسے سرد جنگ کے دور میں آئزن ہاور اور ڈلیس نے ہمارے ایک پڑوسی ملک کو مہرہ بنا لیا تھا۔ بھارت کو امریکہ کا مہرہ بننے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بھارت کے اپنے ملکی مفاد ہیں۔ وہ ان کے حفاظت کرنے کے قابل ہے۔ اگر امریکہ اور بھارت کے ملکی مفاد کسی مدعہ پر ایک برابر ہیں تو اس معاملے میں ایک جٹ ہونے میں کوئی برائی نہیں ہے‘ لیکن امریکہ اگر جنوب مشرقی چین کی طاقت کو للکارنا چاہتا ہے تو ضرور للکارے لیکن اس دور دراز کے معاملے میں وہ بھارت کو کیوں گھسیٹنا چاہتا ہے؟ اگر جنوبی ایشیا میں چین اپنی طاقت قائم کرنا چاہتا ہے اور وہ یہاں سے بھارت کو بھگانا چاہتا ہے تو امریکی تعاون کا بھارت کیا کرے گا۔ یوں بھی ٹرمپ کا کوئی بھروسہ نہیں۔ وہ پل میں ٹن بھر اور پل میں کن بھر ہو جاتا ہے۔ اگست میں انہوں نے دہشتگردوں کو لے کر پاکستان کو لتاڑا تھا اور اب امریکی کینیڈین بویل خاندان کی رہائی پر فدا ہو کر وہ پاکستان کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ ٹرمپ پر نہ پاکستان کا کوئی بھروسہ ہے‘ نہ بھارت کو کرنا چاہیے۔ اگر سچ میں ٹرمپ پاکستان کا بھلا چاہتے ہیں تو انہیں بھارت‘ پاکستان اور افغانستان کو بائونڈ کر دینا چاہیے کہ وہ اپنے آپسی تعلقات بہتر اور پرامن بنائیں۔ اگر امریکہ یہ کر سکے تو جنوبی ایشیا میں چین کا دبدبہ اپنے آپ کم ہو جائے گا۔
دلائی لاما سے کیوں ڈرے چین 
چینی سرکار کا یہ بڑا عجیب سا رویہ ہے کہ جو آدمی یا ملک دلائی لاما سے ملتا ہے یا انہیں اپنے یہاں بلاتا ہے‘ اسے وہ مجرم مانے گی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت سب سے بڑا مجرم ہے‘ کیونکہ دلائی لاما 1959ء سے بھارت میں ہی رہ رہے ہیں۔ ویسے دنیا کے متعدد ممالک دلائی لاما کا استقبال کر چکے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ دلائی لاما بھارت میں رہ کر تبت کو چین سے الگ کرنے کا مشن چلا رہے ہیں۔ پتا نہیں‘ چینیوں کو یہ کیوں پتا نہیں ہے کہ خود دلائی لاما نے کچھ برس پہلے سوئٹزرلینڈ میں اپنے ایک خطاب میں صاف صاف کہا تھا کہ وہ تبت کو چین سے الگ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تو تبت کے لیے صرف اتنی خود مختاری چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب اور تہذیب پر ٹھیک سے چل سکے۔ اس کے علاہ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ چین کا بھلا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کروانا چاہتے۔ وہ مکمل اہنسا میں یقین رکھتے ہیں۔ کچھ برس پہلے چین نے دلائی لاما کے بھائی سے مذاکرات بھی کیے تھے۔ اب چین کی جانب سے بیان جاری کرنا آخر کس بات کا اشارہ ہے؟ کیا اس کا نہیں کہ چین غیر ضروری طور پر ڈرا ہوا ہے؟ میں نے اپنے چینی سفر کے دوران چینی لیڈروں اور دانشوروں سے جب بھی تبت کی بات چھیڑی‘ وہ بوکھلا اٹھے۔ 68 سال حکومت کرنے کے باوجود چینیوں کو لگتا ہے کہ تبت میں بغاوت ہو سکتی ہے۔ دلائی لاما جی اور ان کے لوگوں سے میرا گہرا تعلق رہا ہے‘ لیکن مجھے یہ کبھی بھی نہیں لگا کہ وہ تشدد سے تبت کو آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ اس وقت چین کی فوجی موجودگی تبت میں اتنی زیادہ ہے کہ وہ چٹکی بجاتے ہی کسی بھی بغاوت کو مسل سکتا ہے۔ بھارت بھی تبت کی کوئی فوجی مدد نہیں کر رہا ہے۔ حالانکہ مجھے لگتا ہے کہ دلائی لاما کو پناہ دینے کے سبب ہی بھارت چین جنگ 1962ء میں بھڑکی تھی۔ تبت کی آزادی کی حمایت سردار پٹیل‘ ڈاکٹر لوہیا‘ شیام پرساد مکھرجی کیا کرتے تھے۔ لیکن وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جی نے واضح صورت میں تبت کو چین کا حصہ بتا دیا تھا۔ تو اب جھگڑا کیا ہے؟ چینی سرکار کو چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر کو جگائے۔ دلائی لاما سے سیدھے بات کرے اور بھارت کو بیچ میں رہ کر کردار ادا کرنے کا کہے۔ اگر چین اب بھی اپنی پُرانی پالیسی پر قائم رہا تو ٹرمپ اور کچھ مغربی لیڈر‘ جو چین کی بربادی چاہتے ہیں‘ تبت کو چین کا نیا سر درد بنا سکتے ہیں۔

ہو سکتا ہے بھارتی سرکار کی نیت ٹھیک ہو لیکن آج ملک کو یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے کہ بھارت میں قیادت نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں؟ لیڈر نام کا کوئی آدمی ہے یا نہیں؟ ہر کام ہم ڈنڈے کے زور پر کرانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ عدالت فیصلہ کر دے گی تو لوگ مان لیں گے۔ سرکار قانون بنا دے گی تو وہ نافذ ہو جائے گا۔ یہ ٹھیک ہے سرکار چلانے میں عدالتوں‘ سرکاروں‘ قوانین‘ آئین کا یقینا دخل ہے‘ لیکن سماج صرف ان سے نہیں چلتا۔ سماج کو چلانے کے لیے جس قوت کی ضرورت ہے‘ اسے لیڈرشپ کہتے ہیں‘ اس کی کمی دکھائی پڑ رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved