تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-10-2017

کاک ٹیل‘ اظہر فراغ اور احمد ساقی

صبح واک کے لیے نکلا تو محسوس ہوا کہ موسم بدل رہا ہے اور تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے‘ ہوا میں خنکی اتنی تھی کہ سویٹر نکلوا لینا چاہیے تھا کیونکہ میں ٹھنڈ لگنے سے نہیں مرنا چاہتا۔ ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور بے مثل نثر نگار انتظار حسین نمونیہ سے ہی ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے تھے۔ ایک صاحب مرنے کے بعد عالم بالا پر پہنچے تو ایک اور صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ ان سے پوچھا۔
''آپ کی موت کیسے ہوئی؟‘‘
''میں تو ٹھنڈ لگنے سے مرا تھا‘ اور آپ؟‘‘
''میں حیرانی سے مر گیا تھا‘‘ جواب ملا۔ پھر پوچھا
''آپ حیرانی سے کیسے مر گئے؟ تو جواب ملا۔
''ایک روز میں دفتر سے وقت سے کافی پہلے فارغ ہو گیا تھا۔ اپنی گلی کی نکڑ پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک اجنبی شخص میرے گھر میں داخل ہو رہا ہے۔ جلدی جلدی گھر پہنچا تو وہاں صرف نوکرانی تھی۔ اس سے پوچھا تو وہ بولی یہاں تو کوئی نہیں آیا‘ میں نے پورا گھر چھان مارا مگر اس آدمی کا کوئی سراغ نہ ملا۔ میں اتنا حیران ہوا کہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا‘‘ ''ارے کم بخت‘ فریج کھول کر بھی دیکھ لینا تھا!‘‘ دوسرا بولا۔ 
ملازم لڑکا جو مجھے واک کرواتا اور ہر وقت میرے ساتھ رہتا ہے۔ اُسے تاکید کی کہ کل کے لئے سویٹر ضرور نکال لینا۔ مجھے واک کروانے کے بعد وہ کتوں کو ٹہلانے لے جاتا ہے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
پالتو ہیں کہ فالتو‘ مت پُوچھ
میں‘ کبوتر‘ چکور‘ کتا‘ بھینس
سٹرس کے پھلوں نے ابھی رنگ بدلنا شروع نہیں کیا۔ پودے‘ پرندے اور پھل پھول بالکل ویسے کے ویسے ہی ہیں اور اُن کے ساتھ دوستی بھی اُسی طرح جاری ہے کہ ؎
بظاہر تو ظفرؔ ‘ یہ گھاس میری کچھ نہیں لگتی
مگر یہ اور سارے پیڑ رشتے دار ہیں میرے
کل والے کالم ''ایک مایوس کن کتاب‘‘ کے حوالے سے اقتدار جاوید صاحب کا فون آیا کہ آپ نے اس کی مصنفہ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا جبکہ اس نے کتاب بڑی محبت سے لکھی تھی۔ میں نے کہا کہ شروع میں‘ میں نے اپنے خدشات کا اظہار ضرور کیا تھا جو اس نے مجھے کتاب بھیجی نہیں تھی لیکن کتاب پر رائے دیتے وقت میں نے اس کی تعریف اور اعتراف بھی کیا تھا۔ اگر میں اُس کی تعریف ہی کرنے لگ جاتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ اپنی ہی تعریف کر رہا ہوں جو مجھے کچھ اتنی زیادہ پسند نہیں ہے۔ پھر میں کالم لکھ رہا تھا‘ کوئی تبصرہ نہیں کر رہا تھا۔ وغیرہ وغیرہ اور‘ اُمید ہے کہ اس نے بھی اس کا بُرا نہیں منایا ہو گا۔ اور‘ اگر ایسی صورت ہے تو آپ میری طرف سے اُن سے معذرت کر لیں‘ معاف کر دینا اچھی بات ہے اور بقول شخصے‘ معاف نہ کرنا اس سے بھی اچھی بات ہے۔
لطیفہ یہ رہا کہ کتاب کے مندرجات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس خاتون نے ماڈل ٹائون والے گھر آ کر کچھ عرصہ پہلے میرا انٹرویو بھی لیا تھا اور جو مجھے ہرگز یاد نہ تھا جبکہ میرا ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ بھول جانا اور کھانسنا بوڑھے لوگوں کا حق بھی ہے۔ تاہم کچھ لوگ اس پر معترض بھی ہیں کہ آپ کب بوڑھے ہیں جو بوڑھا ہونے کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ آپ کی تحریروں اور خاص طور پر آپ کی آواز سے ہرگز نہیں لگتا کہ آپ واقعی بوڑھے ہیں اور میں کہا کرتا ہوں کہ کسی دوسرے آدمی کو کسی کے بوڑھے یا جوان ہونے کا اندازہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ پھر‘ اگر میں نے خود تسلیم کر لیا ہے تو دوسروں کو میرے بوسیدہ پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے‘ البتہ جی ضرور رہا ہوں کہ یہ میری مجبوری بھی ہے اور استحقاق بھی۔
میں نے اپنے بچوں سے کہہ رکھا ہے کہ میرا آخری وقت آئے تو مجھے آرام سے مر جانے دینا اور آکسیجن کی ٹونٹیاں لگوا کر میرے لیے جعلی سانسوں کا تردد ہرگز نہ کرنا‘ اور یہ شرک بھی ہے کیونکہ جتنے سانس میری قسمت میں لکھ دیئے گئے ہیں وہ میرے لیے کافی ہیں کیونکہ آدمی اصل میں تو مر چکا ہوتا ہے‘ صرف مشین کے ذریعے سانس لے رہا ہوتا ہے جبکہ میں تو ضرورت یا معمول سے زیادہ سانس پہلے ہی لے چکا ہوں۔ اللہ میاں نے زندگی میں کوئی مشکل نہیں دکھائی تو میری موت کو مشکل نہ بنایا جائے۔
میرے اردگرد پرندوں کا شور ہے لیکن مجھے ڈسٹرب نہیں کر رہا‘ شاید میں بھی اُنہیں ڈسٹرب نہیں کر رہا۔ کیا پرند کیا چرند‘ میری شاعری میں آپ کو سب مل جائیں گے۔ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ سیدہ سیفو نے ایک مضمون لکھا تھا جو سیدھا عامر سہیل کے پرچے ''انگارے‘‘ میں شائع ہوا تھا جو وہ ملتان سے نکالا کرتے تھے۔ اس کا عنوان تھا ''ظفراقبال کی شاعری میں پھلوں اور سبزیوں کا تذکرہ‘‘ اگر یہ تحریر اُن کی نظر سے گزرے تو اُن سے فرمائش ہے کہ ایک مضمون اور لکھیں جس کے اندر میری شاعری میں پرندوں اور جانوروں کا ذکر آتا ہے۔ یہ ذکر ہونے سے رہ گیا کہ منیبہ کی کتاب میں میرے جو اشعار درج کئے گئے ان میں پروف کی غلطیاں بے شمار ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہئیں۔ کیونکہ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ظفراقبال اس عمر کو پہنچ کر بے وزن ہوتا جا رہا ہے جیسا کہ شہزاد احمد نے جاوید شاہین کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ جُوں جُوں بوڑھا ہوتا جاتا ہے اسکے ہاں وزن کی غلطیاں بڑھتی جاتی ہیں۔اور‘ اب پہلے اظہر فراغ کے یہ دو شعر ؎
سفر میں رہنے کا یہ بھی اک قرینہ ہے
میں آپ ٹھہرا ہوا ہوں‘ رواں سفینہ ہے
بُری نہیں ہے بُلندی کی آرزو‘ لیکن
ہوا ہوا ہے مرے دوست‘ زینہ زینہ ہے
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے پروفیسر احمد ساقی کا یہ مطلع :
یہی مشکل پڑی ہے مُجھ پہ آسانی کے ہاتھوں
کہ ارزاں ہو گیا ہوں میں فراوانی کے ہاتھوں
آج کا مطلع
کٹا پھٹا ہی سہی‘ رہگزر تو اپنا ہے
کریں گے مل کے ہی دونوں‘ سفر تو اپنا ہے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved