تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     28-10-2017

سوشل میڈیا پر شکاری

پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کی ایک نئی سیریل سے جب تفتیشی اداروں نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا تو ان کے بیانات اور ان کے قبضے سے لئے گئے موبائل فونز اور کمپیوٹرز کے ذریعے سامنے آنے والی دستاویزات اور حقائق نے اعصاب کو ہلا کر رکھ دیا۔ گرفتار کئے گئے نو جوان لڑکے اور لڑکیوں میں سے اکثریت کاکہنا ہے کہ ان کا داعش کی جانب جھکائو کسی تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت کی وجہ سے نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہوا ہے اور اسلامی ریاست کا تصور دینے والی داعش سے متعلق ان کے لوگوں نے اپنی باتوں اور تحریروں کے ذریعے کچھ اس طرح سے ہمیں اپنی جانب متوجہ کیا جس سے لگاکہ مسلمانوں کی عہد رفتہ کی عظمت اور احیا اسلامی ریاست اور خلافت کی شکل میں حکومت کرنے سے ممکن ہے۔۔۔ ۔دوران تفتیش گرفتار کئے جانے والے ان نوجوانوں نے یہ بتاتے ہوئے چونکا دیا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان لوگوں نے سب سے پہلے قرآنی آیات کے حوالے دیتے ہوئے ہمیں اپنے ملک اور اس کی فورسز سے یہ کہتے ہوئے متنفر کیا کہ دنیا بھر میں صرف ایک ہی ملک ہو گا جو خلافت کی صورت میں سب پر حکومت کرے گا اور اسی خلیفہ اور خلافت کی فوج ہو گی باقی کوئی بھی فوج خلافت کی راہ میں رکاوٹ سمجھی جائے گی ۔ 
دنیا بھر میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی کل تعداد اس وقت ڈیڑھ ارب کے قریب ہے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور یہ چونکہ ہر قسم کی تفریح اور آزادانہ معلومات اور پیغامات کا ایک بہترین ذریعہ ہے اس لئے اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے جن میں واٹس ایپ ،میسنجر، سکائپ، ایمواور فیس بک میسنجر سمیت دوسرے بہت سے ذرائع کے استعمال سے جہاں چاہیں‘ جس سے چاہیں اور جیسی چاہیں گفتگو کر سکتے ہیں۔
گرفتار کئے گئے ان نو جوانوں کا کہنا ہے کہ جہادی لٹریچر، ویڈیوز ، پیغامات اورقسم قسم کے مرد اور خواتین کی خوش کن آوازوں میں جنگی ترانوں سے انہوں نے ہمیں متاثر کرتے ہوئے اپنے ملک سے متنفر کیا ۔ایک خاص بات یہ ہے کہ اپنے حلقہ ٔاثر میں آنے کیلئے یہ عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کرتے بلکہ ہر عمر کے مرد و خواتین کو اپنی جانب راغب کیا جاتا ہے اپنے گروپ میں شامل کی گئی خوبرو لڑکیوں کی بہت ہی اچھی اور دلکش آوازوں سے نوجوانوں کے ذہنوں میں بٹھا دیا جاتا ہے کہ اگر دنیا اورآخرت میں نجات چاہتے ہو تو ہماری طرح اسلامی فوج کے سپاہی بن جائو ‘ہم بھی پہلے تمہاری طرح بے خبر ‘گمراہ اور لا علم تھیں لیکن ان لوگوں کے ساتھ رہنے کے بعد اب یقین ہوچلاہے کہ مسلمانوں کی عزت اور اسلام کی حکومت صرف اور صرف ایک اسلامی ریا ست کی صورت میں ممکن ہو گی کیونکہ اسلامی ریا ست کے سوا مذہب میں کسی دوسری ریا ست کا تصور ہی نہیں ہے۔ اسلامی ریا ست کی یہی فوج جس کے آپ بھی سپاہی بنیں گے ساری دنیا میں فتو حات کے ذریعے اسلامی فوج کا جھنڈا لہرائے گی۔حیران کن طور پر ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ایسے ایسے لوگوں کے فتوے اپنے حق میں استعمال کئے جا رہے ہیں کہ ایک عام انسان خاص طور پر مذہبی رجحانات رکھنے والا کوئی بھی شخص انہیں سن کر دنگ رہ جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مستند اور رجسٹرڈ اداروں کو بائی پاس کرتے ہوئے موبائل اور انٹر نیٹ کنکشن رکھنے والا سوشل میڈیا کی ان گنت ''سوغات‘‘ سے مستفید ہوتا ہے اور یہ سلسلہ رات گئے ا س وقت تک جاری و ساری رہتا ہے جب تک آنکھیں اور دماغ ساتھ نہ چھوڑدیں۔دنیا بھر میں اپنی کارروائیوں اور جنگی فتوحات کی ایسی ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہوئے نوجوانوں کے ذہنوں کو مسخر کیا جاتا ہے جیسے داعش کے مجاہدوں کی یہ سب فتوحات خدا کی مدد کے ذریعے ہی ممکن ہوئی ہوں۔
اب سوال پیدا ہو تا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے داعش کے ان حملوںکا کیا جائے کیونکہ یہ نوجوان نسل کو کس طرح اپنے جال میں جکڑ رہی ہے اس کی مثال سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ کرنے والا انصار الشریعہ گروپ ہے۔ یہ نیاگروپ اس سے قبل داعش کا ہی ایک حصہ تھا۔ اس دہشت گروپ نے کراچی میں سائٹ، بہادر ہ آباد، عزیز آباد، ناردرن بائی پاس اور گلستان جوہر کے علا قوں میں مختلف حملوں کے دوران سات پولیس اہلکاروں کو قتل کیا تھا۔۔۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ داعش سے علیحدہ ہونے کے با وجود ان لڑکوں نے انصار الشریعہ کے نام سے نیا گروپ تشکیل دیا لیکن مقصد وہی یعنی پاکستان کی اہم سیا سی اور مذہبی شخصیات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی سے متعلق لوگوں کو قتل کرتے ہوئے ریا ست کو کمزور اور معاشرے میں خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنا۔ یہ قتل و غارت نہ تو انصار سے تعلق رکھتی ہے اور نہ ہی اس کا کسی شریعہ سے تعلق ہے۔ اس گروپ میں شامل ایک دہشت گرد کا نام حسن بن نذیر ہے جوایک اہم یونیورسٹی کا طالب علم رہا اور خواجہ اظہار پر حملے کے بعد وہاں موجود ہجوم کے ہاتھ قابو آ نے پر اسے مار مار کر موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ دوسرا دہشت گرد عبد الکریم سروش صدیقی کراچی یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس کا طالب علم رہا جو بعد مقابلے میں مار دیا گیا۔۔۔ حسن کی بہن سے کئے گئے انٹر ویو کے مطابق ان کے گھر میں دینی احکامات کی پابندی کی جاتی تھی لیکن اس میں انتہا پسندی کا کوئی عنصر نہیں تھا۔میرے بھائی نے ایک دن مجھے کہا کہ کل سے تم حجاب نہیں بلکہ مکمل پردے میں باہر نکلو گی حتیٰ کہ تمہارے ہاتھ اور پائوں بھی کسی کو نظر نہیں آنے چاہئیں۔۔۔اس پر میرا ماتھا ٹھنکا کہ بھائی کس طرح کی بات کر رہا ہے ہم تو شروع سے ہی پردے کے پابندہیں لیکن یہ تو طالبان طرز کا برقعہ استعمال کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔
اب اگر والدین اس کی بہن پر کی جانے والی اس سختی کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس کے محرکات جاننے کی کوشش کرتے تو ان کا بیٹا ہو سکتا ہے کہ آج زندہ ہوتا ۔۔۔ نیشنل ایکشن پلان اپنی جگہ لیکن والدین اور بہن بھائیوں کو گھر کے کسی فرد کی غیر معمولی حرکات پر نظر رکھنی ہو گی اور اس سلسلے میں والدین کیلئے یہ جاننا بے حد ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی اولاد کی کس قسم کے لوگوں سے آج کل راہ و رسم زیادہ ہے۔ گھر آنے جانے کے معمول میں فرق تو نہیں آ رہا۔ گھر کے معاملات سے لاتعلق تو نہیں ہوتا جا رہا۔ اس کے پاس کس قسم کے اخبارات رسائل اور کتابیں ہر وقت دیکھی جا رہی ہیں؟۔ اس کی ظاہری شکل و صورت میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ کیا ہے؟اپنی روٹین سے ہٹ کر اب وہ کن لوگوں کی مذہبی محفلوںمیں جانا شروع ہو گیا ہے جہاں وہ دیر تک بیٹھا رہتا ہے؟۔ مسجد یا مدرسے سمیت وہ اپنے کالج اور یونیورسٹی کے کس استاد سے متاثر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ لازمی وہ اس کا ذکر گھر میں کسی سے ضرور کرتا ہو گا۔ ایسے عالم‘ مدرسے کے منتظم‘ کسی پڑھے لکھے اجنبی شخص اور کالج کے استاد کے نظریات کے بارے معلوم کرتے ہوئے ہمارے والدین‘ سیاسی و مذہبی رہنمائوں اور اساتذہ کو اپنی نئی نسل کو داعش جیسی نئی نئی عفریتوں سے بچانا ہو گا..!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved