تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     29-10-2017

لٹیرے بنے مہربان

پچھلے70 برسوں میں حکومتیں اور اقتدار بدلتے رہے۔ لبرل اور غیر لبرل آمریتیں بدلتی رہیں۔ جمہوریت کے نام پر حکمرانوں کے چہرے اور پارٹیوں کے کام بدلتے رہے لیکن اگر کچھ نہیں بدلے تو غریبوں کے حالات۔ ان کے حالات اس نظام میں بہتر تو کیا ہوتے‘ الٹا بدتر ہوتے چلے گئے۔ کتنے ہی حکمران بدلے لیکن سامراجیوں اور دھنوانوں کی حاکمیت نہیں بدلی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سامراجی استحصال اور لوٹ مار بڑھتی چلی گئی اور امیروں کی امارت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن اس اقتصادی نظام میں کسی حکمران نے سامراجیوں کی یلغار کو روکنے یا اس پر قدغن لگانے کی کوشش نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے سوشلسٹ ساتھیوں نے 1971ء کے بعد سامراجیوں اور دھنوانوں کی اس لوٹ مار کی سرزنش کی کوشش کی۔ لیکن سامراجیوں کی پروردہ معیشت اور بعض طاقتوں نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر آنے والے سیاسی حکمرانوں کے لئے ایک نشان عبرت بنا کر رکھ دیا۔ 
انگریز سامراج نے برصغیر میں سب سے پہلے جاگیرداری کا اجرا 1793ء کی بنگال پارلیمنٹ میں لارڈ پالمرسٹن بل کے ذریعے کروایا تھا۔ اس کے بعد انہی سامراجیوں نے برصغیر پر اپنی صنعتی اور دوسری سروسز کی شروعات اسی سامراجی طرزِ حاکمیت کے تحت مسلط کی‘ اور ایک نیا سرمایہ دار طبقہ بھی مصنوعی طور پر پیوند کیا گیا۔ اس بورژوازی نے بٹوارے کے بعد مذہبی بنیادوں پر مبنی منڈیوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب کی کاوش کرنے کی کوششیں کی‘لیکن یہ انقلاب لانے کے قابل ہی نہیں تھیں۔ 200 سال کی محکومی کے بعد یہاں جو ''آزادی‘‘ دی گئی اس کے بعد بھی یہ حکمران‘ جو خود سامراجی اطاعت کا شکار تھے ، اس سے کبھی نکل ہی نہیں سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکمران طبقے کی اولادیں موجودہ سیاست و ریاست پر براجمان ہیں۔ وہ نہ کبھی سامراج کے اقتصادی جبر سے معاشرے کو نکال سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی خود مختاری یا کسی قسم کی قومی سالمیت کو حقیقت بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کے قیام کے وقت یہ ریاست اسی نوآبادیاتی ڈھانچے کے طور پر نمودار ہوئی‘ جس کا وہ حصہ تھی۔ بوڑھے اور لاغر برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونے کے بعد امریکی سامراج عالمی ان داتا بن کر ابھرا۔ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں سامراجی جبر و استحصال براہِ راست سامراجی حاکمیت سے بھی زیادہ شدید ہو گیا تھا۔ پچھلی صدی کے آغاز پر‘ 1914ء میں سامراجیت پر اپنی شہرہ آفاق کتاب ''سامراج... سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں لینن لکھتا ہے کہ ''مالیاتی سرمائے کے ایک نئے غلبے کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ ''پسماندہ‘‘ ممالک میں ریلوے اور دوسرے جدید اداروں اور ڈھانچوں کی جو تعمیر کرتے ہیں وہ ظاہری طور پر بہت سیدھی سادی جمہوری‘ ثقافتی اور مہذب طور پر کاروباری نظرآتی ہے۔ سرمایہ داروں کے پروردہ پروفیسر‘ جن کو دولت ہی اس لیے ملتی ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ غلامی کو دلکش رنگوں میں پیش کریں‘ اور درمیانے طبقے کے تجزیہ کار اور دانشور‘ جو اسی کا کھاتے ہیں‘ ایسی ہی سوچوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری کے تانے بانے‘ جن کے ہزاروں جوڑ ہیں‘ ان کا روباروں کے ذریعے پیداوار کی نجی ملکیت میں عمومی طور پر ریلوں، سڑکوں (اور دوسرے ڈھانچوں) کی تعمیر کو ایک ایسا اوزار بنا دیتے ہیں جس سے وہ مرہون منت ممالک کے اربوں انسانوں اور ترقی یافتہ ممالک میں سرمائے کے غلاموں کو جبرو استحصال کا شکار بناتے ہیں‘‘۔
لینن نے یہ تصنیف 103 سال پہلے لکھی تھی۔ لیکن پاکستان کی موجودہ صورتحال کے اعتبار سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ولادیمیر لینن نے یہ ساری باتیں آج کی صورتحال کے بارے میںلکھی تھیں۔ آج یہاں کی سیاست ، صحافت اور دانش میں ان بیرونی سرمایہ کاروں کی کتنی تعظیم اور اعزاز نوازی پائی جاتی ہے‘ اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کو مہربان اور بحران سے نجات دلانے والا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سامراجیوں‘ چاہے وہ امریکی ہوں یا یورپی، عربی ہوں یا عجمی، جاپانی ہوں یا چینی‘کی یہاں سرمایہ کاری اور بجلی سے لے کر بندرگاہوں اور صنعتوں کے پراجیکٹوں میں دل چسپی کی بنیادی وجہ وہی ہے جو لینن نے بیان کی تھی۔ آج تمام حکمران اور سیاسی پارٹیاں دست و گریباں ہیں لیکن ان سب کا سامراجیوں پر اعتماد، اعتقاد اور احترام مشترکہ ہے اور قائم ہے‘ بلکہ ایک دوسرے سے مقابلہ بازی کی حد تک پہنچ گیا ہے کہ کون زیادہ کمیشن اور سامراجی دلالی کے معاوضہ جات وصول کرتا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں یعنی جمعرات 26 اکتوبر کو جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق پچھلے سال کی اسی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کی نسبت اس سال یہاں سے منافع لوٹ کر باہر لے جانے والے سامراجیوں کی رقوم میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2016-17ء میں یہ رقم ان تین ماہ میں307 ملین ڈالر تھی جبکہ موجودہ مالیاتی سال 2017-18ء میں یہ بڑھ کر 385.6 ملین ڈالر ہو گئی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ دولت یعنی 78.6 ملین ڈالر مالیاتی شعبے نے لوٹی ہے جس میں بینکاری اور دوسرے مالیاتی کاروبار کے ادارے شامل ہیں۔ بجلی بنانے والی اجارہ داریوں نے ان تین ماہ میں 48.8 ملین ڈالر اور غذائی اور سیوریج کمپنیوں نے 39.5 ملین ڈالر کا منافع باہر بھجوایا۔ تعمیرات اور پٹرولیم کے شعبوں میں 47.3 ملین ڈالر بنائے گئے ۔ ٹیلی کمیونی کیشنز میں 40.6 ملین ڈالر منافع حاصل ہوا۔ ان کے علاوہ پیداوار و سروسز کے درجنوں دوسرے شعبے ہیں جہاں سے یہ منافع خوری یہاں کے محنت کش عوام کا خون نچوڑ کر اپنی بیرون ملک تجوریوں میں بھجوائی گئی۔ اس سہ ماہی لوٹ مار کو اگر سالوں اور دہائیوں میں ضرب دی جائے تو یہاں سے لوٹی گئی محنت کشوں کی دولت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی ہے۔ 
ویسے تو ہمارے حکمرانوں کی لوٹ مار اور بیرونِ ملک دولت بھجوائے جانے کے قصوں کا تذکرہ کارپوریٹ میڈیا پر کبھی ختم نہیں ہوتا‘ لیکن اس سیاست کا کوئی ایسا دھڑا نہیں ہے جو اس میں ملوث نہ ہو۔ بعض تو ایسے فنکار ہیں کہ کچھ حسینائوں کے بریف کیسوں میں کئی ملین ڈالر نقدی کی شکل میں بیرون ملک بھجواتے ہیں۔ پکڑے جانے پر ان حسینائوں کے مہنگے ترین وکیل ان کو باعزت بری بھی کروا دیتے ہیں اور ٹیلی ویژن کے مذاکروں میں بغیر کسی شرمساری کے دوسرے دھڑوں پر منی لانڈرنگ کے الزامات کی بوچھاڑ کیے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی رقوم ان کے سامراجی آقائوں کی لوٹ مار سے کہیں کم ہے‘ کیونکہ ان کی اوقات ہی اتنی ہے۔ یہ رجعتی اور بدعنوان حکمران طبقہ اپنے آغاز سے ہی معزور اور کنگال تھا۔ وہ اس ملک کو ایک جدید ترقی یافتہ قومی ریاست تو کیا بناتا اس نے ریاست کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ کر سامراجیوں کی کمیشن ایجنٹی کے دھندے میںحصہ دار بنا لیا ہے۔ دوسری جانب سامراجی قرضے ہیں جو بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ان پر سود اور ان کی قسطوں کی ادائیگی میں ہی ملک کا بجٹ لٹ جاتا ہے۔ تمام حکمران سیاستدان یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ ملک کو قرضوں سے آزاد کروا دیں گے‘ لیکن ہر بار اقتدار میں آنے کے بعد وہ عوام کی محکومی میں مزید اضافہ ہی کرتے ہیں۔ چونکہ تمام پارٹیاں جس مالیاتی اور اقتصادی نظام کی پیروکار اور نمائندہ ہیں‘ اس میں تو بس اسی طرح ہی چلے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ سامراجیوں اور حکمرانوں کی کھربوں کی لوٹ کھسوٹ کے اثاثوں اور دولت کو ضبط کرکے محنت کشوں کی جمہوری اشتراکی ملکیت میں دینے اور اس کو عوام اور معاشرے کی فلاح کے لئے وقف کر دینے کے لئے ایسا نظام، سیاست اور سیاسی پارٹی چاہیے جو صرف محکوم اور محنت کش طبقے کی نمائندہ ہو اور اسی کے مفادات کی محافظ ہو، جو دولت پیدا کرے نہ کہ ان کی محنت کو جبر و استحصال کے ذریعے لوٹے۔ موجودہ ریاستی سیاسی اور اقتصادی نظام میں تو یہ ممکن نہیں ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved