ایک جانب ہم پاکستان کی فوج، رینجرز اور ٹریفک وارڈن کی یونیفارم پہنے ہوئے پاکستانی سکھوں کی تصاویر میڈیا میں بڑے فخر سے دکھاتے ہوئے دنیا کو پیغام دے رہے تھے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو اس حد تک برا برکے حقوق حاصل ہیں کہ فوج جیسے حساس اداروں میں بھی انہیں دوسروں کی طرح میرٹ پر بھرتی کیا جا رہا ہے ۔ پاک فوج اور رینجرز کی وردی پہنے سکھ جوانوں کو واہگہ بارڈر پر معمول کی فلیگ پریڈ میں بھارتی جوانوں کے برا بر کھڑا کر کے بتایا جا رہا تھا کہ سکھوں سمیت ہر پاکستانی کو ، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا نظریئے کا حامل ہو ،پاکستان میں دوسرے مسلمانوں کی طرح کے حقوق میسر ہیں...اسی دوران کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں پاک فوج میں فرائض انجام دینے والے مسلم اور غیر مسلم کی تمیز اجا گر کرتے ہوئے فوج کی بنیا دی یکجہتی پر ضرب لگانے کی جوکوشش کی ، اس سے ہر پاکستانی کا دل دکھا ہے ۔
1948 کی کشمیر جنگ سے آپریشن رد الفساد تک پاکستان کے سیسل چوہدری جیسے مسیحی جانبازوں اور بریگیڈیر عبد العلی ملک جیسے چونڈہ کے محاذ پر سیالکوٹ کو بچانے والے سر فروشوں کی روحیںکیپٹن صفدر کے ''ارشاداتِ عالیہ ‘‘ سے تڑپ کر رہ گئی ہوں گی...یاد رکھئے پاکستان کا جوان اس کا محافظ ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب ،سوچ یا فکر سے ہو۔ فوج ایک اجتماعی ادارہ ہے، اس میں تفریق پیدا کرنے کے نظریات ٹھونسنے کی جو کوشش کیپٹن صفد رنے کی ہے وہ ان کی اپنی سوچ ہو سکتی ہے،تاہم اﷲ رب العزت کا احسان ِ عظیم ہے کہ پاکستانی فوج میں کسی قسم کی نظریاتی کشمکش نہیں ہے۔ پاک فوج کے
افسروں اور جوانوں کی غالب تعداد متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اور یہ وہ کلاس ہے جو پاک وطن کی شیدائی ہے ۔پاک فوج کے ہر سپاہی کی گویا گھٹی میں یہ بات شامل ہے کہ اﷲ کی راہ میں لڑنے والا شہید ہوتا ہے اور شہادت کا مقام وہ مقام ہے جس کی آرزوانبیاء کرام تک کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نام پر تخلیق کئے جانے والے اس ملک کیلئے سر کٹانا پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کا ہی طرہ امتیاز ہے ۔پاک فوج کا افسر اور جوان دشمن سے جنگ کو واہگہ ، تھرپارکر، تربت، ژوب، سیالکوٹ،راجستھان، قصور، فورٹ عباس، حیدر آباد کی لڑائی سمجھ کر نہیں لڑتا بلکہ وہ اسے ایک جہاد سمجھ کر لڑتا ہے ،یہ سوچ اور یہ جذبہ اسے اسلام کی تعلیمات سے ہی ملتا ہے اور در حقیقت یہی جذبہ پاک فوج کی برتری اور صلاحیت کا مظہر ہے وگرنہ دیکھا جائے تووہ دنیاوی پیمانوںکے حوالے سے ہم شاید بھارت کے ہم پلہ نہیں۔ہماری افواج تعداد اور اسلحے کے اعتبار سے اپنے سے کہیں زیادہ تعداد کی حامل فوج کا مقابلہ صرف اور صرف اپنے جذبہ جہاد اور عزم شہادت کے ذریعے ہی کرتی آ رہی ہے۔ ہماری فوج کی قوت دو ستونوں پر استوار ہے ،ایک اسلامی روایات اور دوسرا نظریہ پاکستان۔ پاکستانی فوج کے سسٹم میں ذاتی کردار کی اہمیت ، کڑے ڈسپلن،ہم آہنگی، اپنے سینئر کے حکم کی بہر طور تابع فرمانی کی خصوصیات نمایاں ہیں۔بدلے ہوئے حالات میں تھوڑی سی بدلی ہوئی سوچ کے ساتھ یہ روایات آج بھی زندہ ہیںاور نظریہ پاکستان سے شدید لگائو نے ان روایات کو ایک نیا اسلوب دے دیا ہے کیونکہ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ روایات نظریہ پاکستان سے متصادم نہیں بلکہ اس کی پہچان ہیں ۔
آج کے نئے حالات میں اس کیفیت کو قائد اعظم کے فرمان'' اتحاد، ایمان ، تنظیم‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فوج نے '' ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے اصول کو اپنایا ہو اہے، اب یہی پاکستانی فوج کی قوت کا سرچشمہ ہے اور فوج کے تمام ہتھیاروں میں جان اسی جذبے سے پڑتی ہے، یہی نظریہ فوج کے میزائل داغتا ہے، یہی نظریات ہمارے ٹینکوں کو لڑاتے اور دوڑاتے ہیں ،یہی جذبہ ہماری ایئر فورس کو آسمان کی وسعتوں میں لے کر جاتا ہے اور یہی وہ جذبہ عظیم ہے جو سمندر کی گہرائیوں اور دور دور تک پھیلے پانیوں کی بپھری موجوں سے ٹکراتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ فوج میں نظریاتی کشمکش ہے انتہائی لغو ہے۔جھوٹ اور پروپیگنڈامیں بڑی جان ہوتی ہے اس لیے اس طرح کی مصنوی سوچوں کو تقویت دی جا رہی ہے کہ فوج میں بنیاد پرستوں کے نظریات داخل ہو گئے ہیں۔ بھارتی فوج مذہبوں، صوبوں، قبیلوں، ذاتوں اور نسلوں میں بٹی ہوئی ہے اس کے پاس کوئی نظریاتی کھونٹا نہیں، یہ فوج اسلام جیسے لازوال نظریئے کی بنیاد پر متحد منظم فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتی اسی لیے زمینی فوج کی چار گنا ،فضائیہ کی چھ گنا اور بحریہ کی آٹھ گنا برتری کے با وجود بھارت آج تک پاکستان کی سر زمیں کا ایک انچ بھی نہیں چھین سکا ۔
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے ، محبت ، صلح اور آشتی کا مذہب ہے اگر لوگ اسلام کے اس فلسفے کو سمجھ لیں تو ساری دنیا اسی طرف کھنچی چلی آئے ۔غور کریں تو بھارتی اور پاکستانی فوج کا پس منظر ایک ہی ہے۔ دونوں انگریز کی تربیت یافتہ تھیں اور دونوں کو کڑے نظم و ضبط کی ایک جیسی روایات ورثے میں ملیں۔آج تک دونوں فوجوں کی ٹریننگ کا مجموعی انداز وہی ہے جو انگریز نے دیا تھا لیکن سب نے دیکھا کہ برطانیہ میں132 ممالک کی افواج نے پٹرولنگ ایکسر سائز کے مقابلے میں حصہ لیا مگر پاک فوج کے جوانوں نے اول انعام حاصل کیا... بیرونی ذرائع ابلاغ اور پاکستان کے چند صحافتی ادارے کیپٹن صفدر اور اس کے چند ساتھیوں کے خیالات کو اپنی مرضی کے معنی پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس معاملے کو دانشمندانہ انداز سے دیکھنا چاہئے کہ ہماری فوج اعلیٰ اسلامی روایات کی امین ہے، اس میں اخلاق و کردار سازی پر آج جتنا زور دیا جا تا ہے ، وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے افغانستان میں روسی افواج کی آمد سے لے کر اس پر امریکی اور بھارتی قبضے کے اثرات پاکستان کی سرحدوں اور پاکستان کے اندر اس قدر گہرے ہو چکے ہیں کہ پاکستان دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر پاکستان کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو دو چار سال ہی میں ڈھیر ہو جاتا ۔دنیا کی دوسری بڑی طاقت روس کی مثال سب کے سامنے ہے ...جبکہ مقابلے میں دس سال سے زائد ہونے کو ہیں اور آج بھی پاکستان پوری قوت کے ساتھ مصروف جنگ ہے۔ اﷲ رب العزت نے اسے جو پورے قد سے کھڑا رکھاہے تو اس کی وجہ فوج کا اسلامی جذبہ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان، بھارت اورامریکہ کے مشترکہ حملوں اور ملک میں جاری اقتصادی اور سیا سی ہڑبونگ کے با وجود فوج واحدادارہ ہے جو دشمنوں کی تمام کوششوں کے با وجود اب بھی قومی افتخار کی علامت اور ملکی دفاع کا ضامن ہے ۔یہ جنوبی ایشیا میں اپنی عسکری مہارت اورعمدہ نظم و ضبط کے سبب ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور یہ عالم اسلام کی قوت ِ بازو ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔
پاکستانی فوج کی اسلام سے روز بروز بڑھتی ہوئی وابستگی امریکہ سمیت کئی غیر ملکوں طاقتوں کیلئے باعث تشویش بن چکی ہے اس لیے امریکہ سمیت مغرب کے ابلاغ عامہ کے تمام ذرائع اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کے آلہ کار جہاں جہاں بھی ہیں ان سب کا ایک ہی مقصد بنتا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوج اور اس کے اداروں کو کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی کرپشن کے نام پر بدنام کرتے ہوئے انہیں انتشار کا شکار کر دیا جائے لیکن اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے ایسا کبھی نہ ہو گا کہ پاک فوج کا نصب العین ہی '' ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ ہے ۔