تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     30-10-2017

علامتی صحافت

کیا ہم ایک بار پھر اظہار کے علامتی اسالیب کی طرف لوٹ رہے ہیں؟
اس کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟ جب کھلے لفظوں کے ساتھ اظہار مشکل ہو جائے۔ جب یہ خوف حصار کر لے کہ صاحبانِ اختیار کے خلاف کلام کرنے کی ایک قیمت ہے‘ اور یہ آپ کی جان بھی ہو سکتی ہے۔ یوں لوگ علامت کا سہارا لیتے ہیں۔ ابلاغ متاثر ہوتا ہے مگر دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ صاحبانِ اختیار کا تصور بھی اب بدل چکا۔ اب لازم نہیں رہا کہ کوئی حکومتی منصب ہی اس کی علامت ہو۔ اختیار کے مراکز اب متعدد ہیں اور نادیدہ بھی۔ 'دیدہ‘ کا حال تو یہ ہے کہ ان کے اعضا اور جوارح ان کے بے اختیار ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔
ادب میں تو یہ رجحان نیا نہیں۔ علامتی نظم اور افسانہ مدت سے لکھے جا رہے ہیں۔ شاعری تو ہوتی ہی علامتی ہے۔ شاعری تلمیح اور تشبیہ کے پیرہن اتار دے تو اوزان کی پابندی کے ساتھ نثر بن جاتی ہے۔ سرخ انقلاب کے تھپیڑوں نے جہاں ہماری دیگر اقدار کو متاثر کیا وہاں انہوں نے شاعری سے بھی علامت کا لبادہ اتار کر اسے تلخ حقائق کا چولا پہنا دیا۔ شاعری پروپیگنڈا بنی اور یوں اپنی لطافت سے محروم ہو گئی۔ حقیقت نگاری کے باوجود، نظیر اکبر آبادی کے ہاں علامت موجود رہی۔ فیض صاحب نے بھی کوشش کی کہ شاعری کا حسن انقلاب کی نذر نہ ہو اور دستِ صبا کی لطافت باقی رہے۔ فیض صاحب نے یہ کمال بھی کیا کہ قدیم علامتوں کو اپنے عہد سے متعلق کرتے ہوئے، انہیں جدید ادب کا زندہ حوالہ بنا دیا۔
صحافت میں علامت کو نبھانا مشکل ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے عہدِ جبر کی صعوبتیں زیادہ تر اہلِ صحافت ہی کا مقدر بنتی ہیں۔ ایک واقعہ نگار آخر کہاں طرح علامتوں کا سہارا لے سکتا ہے؟ علامت نگاری احمد نورانی کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ رپورٹر کا کام تو ایک مورخ جیسا ہے۔ وہ واقعہ کو اس طرح بیان کرنے کا پابند ہے‘ جیسے اس نے دیکھا ہے۔ یہ اب تاریخ اور سماج کے علما کا کام ہے کہ وہ واقعہ کے پش منظر کو دیکھیں اور بین السطور ان کڑیوں کو تلاش کریں جو ایک واقعے کو دوسرے واقعے سے جوڑتی ہیں۔
اظہار کے علامتی اسالیب کی بات ہوتی ہے تو مجھے ایم آر کیانی یاد آتے ہیں۔ میری نسل نے انہیں نہیں دیکھا‘ مگر ان کی کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ 'افکارِ پریشاں‘ اور انگریزی تقاریر کا ایک مجموعہ (A Judge May Laugh)۔ جسٹس کیانی کو ایوب خان کے عہدِ جبر کا سامنا تھا۔ انہوں نے اظہار کے لیے علامت کو جس طرح استعمال کیا، وہ انہی کا حصہ ہے۔ وہ دور اس لحاظ سے اچھا تھا کہ صحافی جیل میں ڈال دیے جاتے تھے اور اخبار‘ رسائل بند ہو جاتے تھے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ کم از کم جان تو محفوظ رہتی تھی۔ رہ گئے جسٹس کیانی جیسے لوگ تو جب تک اہلِ اقتدار کو ان کی علامتیں سمجھ میں آتی تھیں، ان کی روانگی کا پروانہ تیار ہوتا تھا۔
آج کا دور، کہنے کو ایسا نہیں ہے۔ اسے آزادیٔ رائے کا دور کہا جاتا ہے۔ اسے بنیادی معاشرتی قدر کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ نام نہاد آزادیٔ اظہار کا یہ دور مگر اہلِ صحافت کے لیے مشکل تر ثابت ہوا ہے۔ اب اخبار یا چینل کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر میں احتجاج ہوتا ہے۔ پھر عدالتیں بھی آزاد ہیں۔ اس آزادی کا حال آپ ابصار عالم صاحب چیئرمین پیمرا سے پوچھیے۔ وہ بے بسی کی ایک تصویر ہیں۔ ایسے میں اگر صاحبانِ اختیار کسی صحافی کو لگام ڈالنا چاہیں تو علانیہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ انہیں کوئی متبادل راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔
قدیم دور میں لگام ڈالنے کا کام حکومتیں کرتی تھیں کہ حکومت ہی طاقت کا واحد مرکز تھی۔ آج تو وہ اپنے دفاع کی اہلیت بھی نہیں رکھتیں مگر صاحبِ اختیار شمار ہوتی ہیں۔ میڈیا نے جو سلوک 'صدر‘ آصف زرداری اور 'وزیر اعظم‘ نواز شریف کے ساتھ کیا، وہ ابھی یادوں سے محو نہیں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ اب بھی انہیں بااختیار سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اہلِ صحافت کو جان و مال کا تحفظ فراہم کر سکتی ہیں۔ اب منتخب حکومت زیادہ سے زیادہ ایک مقدمہ ہی درج کرا سکتی ہے۔
ہمارے ساتھ ان دنوں ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ کچھ صحافی بے لگام ہیں اور کچھ کو لگام ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایک نقطۂ نظر بیان ہو سکتا، دوسرا نہیں۔ اہلِ سیاست کو آپ جو کہنا چاہیں شوق سے کہیے۔ اس کے لیے آپ کے الفاظ پر کوئی گرفت ہے نہ خیالات پر۔ منتخب حکومت پر تنقید کرکے، آپ چاہیں تو ان لوگوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں‘ جنہیں تاریخ بطلِ حریت کہتی ہے۔ جیسے ظفر علی خان یا ان سے پہلے محمد علی جوہر۔ اگر کوئی اہلِ سیاست کی حد سے کوئی باہر قدم رکھنا چاہے تو اسے یاد رہنا چاہیے کہ دنیا میں کوئی آزادی مطلق نہیں ہوتی۔ وادیٔ سیاست سے باہر کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں قدم رکھنا ممنوع ہے۔ آخر قومی مفاد بھی کوئی چیز ہے۔
کالم نگار یا مضمون نویس کے پاس تو علامت کا سہارا موجود ہے‘ مگر وقائع نگار کیا کرے؟ وہ بے چارہ کوشش کرتا ہے کہ 'مقتدر حلقے‘ ، 'نادیدہ ہاتھ‘ یا اس طرز کے الفاظ کا سہارا لے مگر کہاں تک۔ یوں اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہتی۔ اسے حقیقت نگاری کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ یہیں سے اس کی آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ یہ آزمائش کتنی کٹھن ہے، اس کا اندازہ احمد نورانی جیسا کوئی صحافی ہی کر سکتا ہے۔
اگر ادب اور صحافت علامت کا سہارا لینے پر مجبور ہوں‘ تو زندہ معاشروں میں خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے۔ لوگوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ سماج کا ارتقا رک گیا ہے اور جبر کی ہوا چل پڑی ہے۔ سب سے پہلے اہلِ دانش متوجہ ہوتے ہیں۔ آج حکومت کہتی ہے کہ ریاست کو ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے۔ یہ بیانیہ تشکیل نہیں پا سکتا جب تک اجتماعی معاملات کے مروجہ تصورات زیرِ بحث نہ آئیں۔ ان پر کچھ طبقات کی اجارہ داری ہے۔ جب کوئی انہیں موضوع بنانا چاہتا ہے، اس کی جان خطرات میں گھر جاتی ہے۔ اس صورتِ حال میں کوئی نیا بیانیہ کیسے تشکیل پا سکتا ہے؟
آج معاشرہ ایک بار پھر اس عہد میں داخل ہو چکا جسے علامتی اظہار کا دور کہنا چاہیے۔ ایک طرف لوگ مجبور ہیں کہ علامتوں کے ساتھ گفتگو کریں۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ گفتگو آداب سے بے نیاز ہے۔ آپ جو چاہیں کہہ ڈالیں۔ کوئی اخلاقی قدر آپ کا راستہ روک سکتی اور نہ کوئی حکومتی ادارہ۔ اس سے جو اضطراب پیدا ہو رہا ہے، اس کا بروقت اندازہ کرنا ضروری ہے۔ اظہار اگر مشکل ہو جائے تو جذبات جمع ہوتے رہتے ہیں اور ہم اس وقت کو ٹال نہیں سکتے‘ جب یہ جذبات اپنے اظہار کے لیے ہر طرح کی پابندی سے آزاد ہو جائیں۔
معاشرے اور ریاست، دونوںکو صورتِ حال کی نزاکت کا احساس نہیں ہے۔ معاشرہ بری طرح منقسم ہے۔ کچھ ریاستی ادارے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔ بے یقینی ہے اور اسے ہوا دی جا رہی ہے۔ ملک تیزی کے ساتھ اس پٹڑی سے اتر رہا ہے جس پر گزشتہ چار سالوں میں بمشکل چڑھا تھا۔ دہشت گردی کم ہو گئی تھی، معیشت سنبھل رہی تھی اور توانائی کا بحران ختم ہو رہا تھا۔ اس کے ساتھ CPEC جیسے منصوبوں نے عوام میں امید پیدا کر دی تھی۔ یہ امید دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں اظہارِ خیال بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کو تادیر گوارا نہیں کرنا چاہیے۔ لازم ہے کہ معاشرے اور ریاست کے مابین، اس موضوع پر مکالمہ ہو۔
یہ کیسے ممکن ہے؟ بطور نقطۂ آغاز میرے پاس ایک تجویز ہے۔ ریاستی اداروں اور سی پی این ای یا اے پی این ایس کے تعاون سے ایک کانفرنس منعقد کی جائے۔ اس کا موضوع ہونا چاہیے ''اظہارِ رائے اور قومی سلامتی‘‘۔ اس میں وہ ٹھوس تجاویز سامنے آنی چاہئیں جن سے اظہارِ رائے کی آزادی کو بطور قدر مستحکم کیا جا سکے۔ اگر معیشت اور سلامتی کے تعلق پر کانفرنس ہو سکتی ہے تو صحافت اور سلامتی کے تعلق پر کیوں نہیں ہو سکتی؟ 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved