تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     30-10-2017

مجھے کس نے کاٹا

درخت جب پودے ہوں تو وہ بچوں کی طرح لاڈلے ہو تے ہیں‘ اور بچوں کی طرح پیار اور حفاظت سے پلتے ہیں۔ وہ بڑے ہو جائیں تو بزرگوں کی طرح خدمت اور حفاظت مانگتے ہیں۔ آپ انہیں موسموں کی شدت پہ چھوڑ دیں تو وہ آپ کو چھوڑ کر ترکھان کے ڈیرے پر جا پہنچتے ہیں ۔
میرے سسرالی علاقے چونترہ چکری میں رام دیو نام کا گاؤں ہے‘ جو موہڑہ، گاہی سیداں، ڈھیری اور پڑیال کے موضعات سے جڑتا ہے۔ وہاں بیری کا ایک قدیم درخت تھا۔ سڑک سے 40 فٹ دور بیری کا یہ درخت کم ازکم 150 سال پرانا تھا‘ لیکن اس کی بدقسمتی یہ کہ یہ وَٹ بندی یا بنہ کے اوپر اُگ آیا۔ ڈیڑھ عشرہ پہلے میں نے اسے بچانے کی قیمت پوچھی تو شاہ صاحب (جو اب اس دنیا میں نہیں رہے) بولے: 20 ہزار۔ 4 سال تک یہ قیمت بڑھتی رہی۔ آخری بھاؤ کے نتیجے میں طے ہو ا کہ اس درخت کو 85 ہزار روپے میں زندہ رہنے دیا جائے گا۔ یہ جگہ برادرم خورشید ندیم کے گائوں چک امرال کے پاس مین روڈ پر واقع ہے۔ اِسے سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے پروگرام میں بھی محفوظ کیا۔ میں خوش خوش واپس اسلام آباد آیا۔ 2 دن بعد وِیک اینڈ تھا۔ کسی دوست نے دیہاتی آرگینک کھانے کی فرمائش کی۔ ہم پہنچے تو پتہ لگا چکری اڈے پہ واقع ٹال کا مالک بے دل خان اسے 16 ہزار روپے میں جلانے والی لکڑی بنانے کے لئے کاٹ کرلے گیا ہے۔ مجھ سے کھانا نہ کھایا گیا۔ نہ یہ سمجھ آئی کہ چرند، پرند، انسان کو موٹے سرخ بیر ، فضا کو ٹھنڈی ہوائیں دینے والا کس الزام میں مارا گیا۔ ؎
اپنی تو وہ مثال ہے جیسے کوئی درخت
دنیا کو چھاؤں بخش کے خود دھوپ میں جلے
اس وقت جو مہم ایمبیسی روڈ اسلام آباد کے زخمی درختوں کو بچانے اور مقتول درختو ں کی نوحہ گری پر رؤف کلاسرا صاحب نے شروع کر رکھی ہے‘ اس میں چھپے درد کو پیڑسے پیار کرنے والاہی سمجھ سکتا ہے۔
پچھلے سال میں نے ایک سکرپٹ لکھا تھا۔ ٹری مین کے نام سے درختوں کے حوالے سے فلم بنانے کے لیے بین الاقوامی ڈاکومنٹری بنانے کا تجربہ رکھنے والے معروف پروڈیوسر صاحب سے معاملات طے ہوئے۔ کچھ سامان منگوایا گیا اور پھر پروڈیوسر صاحب ایک انتہائی ضروری کام میں مصروف ہو گئے۔ تبلیغ،وکالت کے بعد ا ور سیاست سے پہلے مجھے درختوں کا کیسا عشق ہے یہ میرے احباب خوب جانتے ہیں۔ داد طلبی کے لئے نہیں توجہ دلانے کے لئے عرض ہے کہ میرے ہاتھوں کے لگائے ہوئے سینکڑوں نہیں ہزاروں درخت ہیں۔ میرے آبائی گھر ذیلدار ہاؤس کہوٹہ میں لگے ہوئے چیڑ کے درخت 2/3 فٹ کا تنا رکھتے ہیں جبکہ 35/40 فٹ بلندی۔ میں سال بھر اتنے کپڑے نہیں خریدتا جتنے پودے اور درخت خریدتا ہوں۔ زمیندا ری کی زبان میں پودے اور درخت میں فرق یہ ہے کہ بچہ درخت‘ پودا کہلاتا ہے‘ جبکہ 8 سے 12 فٹ بلند، 4 سے 6 انچ موٹے‘ بڑے گملے میں لگے پودے کو نرسری کی زبان میں ینگ ٹری کہتے ہیں۔ اس وقت بھی میرے آفس میں 2سو سے زیادہ پودے اور ینگ ٹری شجر کاری کے اگلے موسم میں اس سر زمین کو پاک صاف سر زمین بنانے کے منتظر ہیں۔ ایک بات سوچ کر میرا دل کا نپ اُٹھتا ہے اور وہ یہ کہ 20 کروڑ آبادی میں کتنے لوگ ہیں‘ جو سالانہ شجر کاری کے دو موسموں میں 2 پودے لگاتے ہوں۔ میرے سامنے کوئی سروے نہیں جس کے عدادو شمار دیکھ کر کوئی تبصرہ کر سکوں۔ ہاں البتہ کچھ رُلا دینے والے حقائق دیوار پر لکھے ہیں۔ یاد رکھیے ہمیں احساس نہیں‘ دھرتی ماں اس سلوک پر پہلے ہی ہم سے ناراض ہے ۔ بدلے ہوئے موسموں کے تیور ،لمبی خشک سالیاں، ساون بھادوں میں بارشوں کی کنجوسی اس ناراضی کے ثبوت نہیں تو اور کیا ہیں۔ پچھلے دنوں میں روٹین کے مقدمات میں پیش ہونے کے لیے سپریم کورٹ کے فُل بینچ میں موجود تھا۔ اس دوران درختوں کی کٹائی کے کیس کی کال ہوئی۔ کہوٹہ کا نام آنے پر چونک اُٹھا۔ تفصیلات کھلیں تو پتا چلا کہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوری کو پنڈی شہر سے ملانے والی معروف سڑک کے درخت صفائی کے نام پر حکومت نے فرنیچر کے ایک ٹھیکیدار کو بیچ دیے ہیں‘جن میں مہاراجہ رنجیت سنگھ اور گلاب سنگھ ڈوگرا کے زمانے میں لگائے گئے بڑے بڑے درخت بھی شامل ہیں۔مریڑ چوک راولپنڈی سے لے کر سواں کیمپ تک ایسے سارے صدیوں پُرانے درخت ہائوسنگ سوسائٹیوں والے کھا گئے‘جبکہ سہالہ ٹرائی اینگل سے لے کر دریائے جہلم پہ واقع گائوں آزاد پتن تک درخت کاروباری سرکار کی نظر میں آگئے۔ 4/5 اور 6 فُٹ چوڑے ٹرنک والے ان درختوں کا ریٹ لنڈے بازارکی جُرابوں والا لگایا گیا۔ یادش بخیر جی ٹی روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کے سب سے بڑے ٹرانسمیٹر کی بلڈنگ کے سامنے درختوں کی رکھ (ذخیرہ) ہوتی تھی۔ تھوڑی دور میری اماں جی کا گائوں کلیام اعوان ہے۔ یہیں کے ریلوے سٹیشن پر ہمارے نا بغہ شاعر اور قلم کار مُنو بھائی کے والد کی تعیناتی تھی‘ اور وہ کلیام اعوان کے سکول میں پڑھنے جاتے رہے۔ اس سے چند کلو میٹر آگے رکھ ماسٹرتارا سنگھ اور چکوال ریلوے لائن کا بہت بڑا جنگلی ذخیرہ تھا۔ اس روڈ پر میں نے گُجر خان، تلہ گنگ، میانوالی اور ڈی آئی خان تک بڑے تگڑے مقدمات لڑے۔ علاقے کا شاید ہی کوئی ایسا نامور خاندان ہو گا‘ جو میرا کلائنٹ نہ رہا ہو۔ یہ سڑکیں اور ان کے آ س پاس کٹی پھٹی پہاڑیاں درختوں سے خالی ہو چکی ہیں‘ بالکل چھانگا مانگا کی طرح۔ مری کے گھنے جنگلوںکو بھوربن کھا گیا۔ 17 میل سے اوسیاہ محترم حکیم محمود احمد ملک کے گھر تک گا ڑی روک کر کسی سے پوچھ لیں۔ ڈھاکہ سے پتریاٹہ تک کس نے کتنا جنگل الاٹ کروایا۔ وہاں سے درخت کا ٹے ہوٹل تعمیر کیے۔ بلڈوزر اور زمین کھودنے والی ہیوی مشینری لگائی۔ پہاڑ کھوکھلے کیے روال ڈیم کوکیچڑ بنانے والی مٹی ( salinity ) سے بھر دیا۔ لنڈے کے بھائو جنگل اپنے نام الاٹ کروانے والوں میں ایسے لوگ شامل ہیں جو بڑے فخر سے کہتے ہیں میں 5دفعہ‘6 دفعہ اسمبلی گیا۔ بغداد کے لُٹیروں کی طرح بے رحم ٹولے کی دوسری نسل کے ایک شاہ زادے نے پتریاٹہ میں 200 کنال جنگل الاٹ کروایا۔ 20 کروڑ لوگ درختوں کی کٹائی کا دیہاتی اندازہ لگائیں تو پتا چلے گا 30 کروڑ درخت سالانہ کٹتے ہیں۔ سارے محکمے مل کر سالانہ کتنے درخت لگاتے ہیں۔ اس کا کیس سٹڈی چند ہفتے پہلے گزرنے والا سرکاری شجر کاری سیزن ہے۔ بڑوں کے گھر بنا کر میونسپل عہدہ لینے والوں کی شکلیں لے کر چند پوسٹر شہر میں لگائے گئے۔ رئوف کلاسرا کے جنون کو سلام۔ مرچ مسالے والی عامیانہ خبروں کے سیزن میں جو درختو ںکے قتل پر سراپا احتجاج ہے۔ میں جا نتا ہوں اس مہم کا انجن مُستقبل کا مہد نامی وکیل ہے۔ شجرکاری کے گزرے سیزن میں،ایک سرکاری نر سری میں گیا جس کی ذمہ داری شہریوں کو مفت مشورے اور پودے دینا ہے۔ میں نے جس پودے کو ہاتھ لگایا‘ اہلکار کہنے لگا: سر یہ اہم موقعوں پر گملے سمیت بڑے چوکوں میں گاڑ دیا جاتا ہے ۔میں نے سر پکڑ لیا۔ اُف خدایا! قوم کو دھوکہ دیتے دیتے یہ کا ریگر قدرت کو بھی دھوکہ دینے لگ پڑے ہیں۔ 
اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے 2ظالمانہ فیز آئے۔ پہلا تب جب مشرف صاحب پر حملے شروع ہوئے۔ راولپنڈی پرانی جیل سے شروع کر کے شاہراہِ دستور پر ریڈیو پاکستان چوک تک‘ ان گنت درخت بڑے صاحب کے حفاظتی کانوائے کی سکیورٹی کے نام پر کاٹ پیٹ دیئے گئے اور دوسرا موجودہ‘ جب شیر درختوں پر جھپٹ پڑے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved