تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     30-10-2017

روک سکو تو روک لو!

ینگ ڈاکٹر سے میرا پہلا سوال یہی تھا‘ آپ لوگ ہر دوسرے روز ہڑتالیں کیوں شروع کر دیتے ہیں‘ لوگ آپ کو مسیحا سمجھتے ہیں لیکن آپ انہیںتڑپتا چھوڑ کر ایمرجنسی کو تالا لگا دیتے ہیں اور خود احتجاج کو نکل جاتے ہیں۔کیا اس رویے پر آپ کو شرمندگی محسوس نہیں ہوتی ؟ کیا آپ سفید کوٹ کی توہین نہیں کر رہے؟ 
ڈاکٹر نے زور کا قہقہہ لگایا‘ میری طرف دیکھا اور بولا۔ آپ بھی تصویر کا ایک رخ دکھا رہے ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتے ہمارے ملک کی نوے فیصد بیماریوں کی بڑی وجوہات میںغربت‘ جہالت‘ بے روزگاری‘ معاشرتی ناہمواری ‘صحت و صفائی کے ناقص انتظامات اور سب سے بڑھ کر خوراک کی بدپرہیزی ہے لیکن ہم لوگ معاشرے کی خامیوں اور ناہمواریوں کو بھی ڈاکٹروں کے سر ڈال دیتے ہیں اورکوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے۔آپ جانتے ہیں کہ ملک کے پچانوے فیصد لوگ جو پانی پیتے ہیں اس میں گندگی‘مضرکیمیائی اجزا اور خطرناک پلاسٹک کمپائونڈز شامل ہوتے ہیں یہ پانی جب خون میں شامل ہوتا ہے اوریہ خون ہماری رگوں اور شریانوں سے ہوتا ہوا دل کے والو سے گزرتا ہے توایک چلتا پھرتا شخص تڑپنے لگ جاتا ہے اور اگر وہ علاج سے قبل یا دورانِ علاج جان دے دیتا ہے تو لواحقین اس کا سارا ذمہ ڈاکٹرز پر ڈال دیتے ہیں۔ جب بچے کی پیدائش کا وقت آتا ہے۔ اماں‘ساس‘جیٹھانی اور بڑی باجی دائی کو لے آتی ہیں لیکن جب بات نہیں بنتی اور بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو خاتون کوہسپتال لیجایا جاتا ہے اور علاج کے دوران کسی پیچیدگی کے باعث موت واقع ہوجاتی ہے تو اس موت کا سہرابھی ہمارے سر سجادیا جاتا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے چھ حفاظتی ٹیکوں کا کورس کرانے کی تلقین کی جاتی ہے۔لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ان ٹیکوں کو اہمیت دیتے ہیں اور جب بچہ کسی بیماری کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے تو توپوں کا رخ ڈاکٹر کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ آ پ جانتے ہیں کہ ملک میںگیسٹرونامی مرض سے لوگوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔اس مرض کی بنیادی وجہ صحت و صفائی کے ناقص انتظامات اور سیوریج کا خراب نظام ہے۔اس نظام کو درست طور پر چلانے کی ذمہ داری واساپر عائد ہوتی ہے ۔لیکن جب غلاظت بھرا یہ پانی پی کر مریض گیسٹرو جیسی بیماریوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں تو اس کا قصوروار بھی ڈاکٹر ٹھہرتا ہے۔ آپ جانتے ہیں ٹی بی کی بڑی وجوہات میںناقص غذا‘پان چھالیے کا استعمال‘ جگہ جگہ تھوکنا اور صفائی ستھرائی پر توجہ نہ دینا شامل ہیں۔آپ گلاب دیوی ہسپتال جا کر دیکھ لیں۔یہ ہسپتال ٹی بی کے علاج کے لئے مشہورہے لیکن جب یہاں جب کوئی مریض ٹی بی کا شکار ہو کر موت کی دلدل میں اتر جاتا ہے تو متوفی کے رشتہ دار آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اورڈاکٹر کوغفلت اور نااہلی کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں بازار میں گندم کی گولیاں آٹھ روپے کی قیمت میں عام دستیاب ہیں۔یہ گولیاں زہر کی سب سے خوفناک شکل ہیں۔جب کوئی جوان دوشیزہ یہ گولیاںاس وجہ سے کھا لیتی ہے کہ وہ اپنی پسند کے کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے والدین راضی نہ تھے اور حالت غیر ہونے پر جب لڑکی کو ایمرجنسی وارڈ میں لایا جاتا ہے اور جب یہ قاتل زہر مریضہ کے جسم کو ڈیڈ کر کے اسے موت کے حوالے کر دیتا ہے تو مریضہ کے رشتہ دار توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں تو اس وقت کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ اگرمتوفیہ کے والدین یہ مسئلہ اس کی زندگی میں طے کر لیتے تو آج وہ اپنی بیٹی کو سفید کفن کی بجائے سرخ جوڑے میںرخصت کر رہے ہوتے۔ آپ جانتے ہیں جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو وہ مختلف ٹوٹکوں سے اپنا علاج کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ کبھی ہومیوپیتھی تو کبھی چائینیزہربل طریقہ علاج اختیار کر لیتا ہے‘ کبھی جرمن شوابے آزماتا ہے تو کبھی فٹ پاتھ پر بیٹھے کسی نیم حکیم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اسے جانوروں اور فصلوں کی بیماریوں میں استعمال ہونیوالی ادویات کے اجزا سٹیرائڈز میں ملا کر دوا کے طور پر دے دیتے ہیں۔اس کے بعد جب اس کے گردے مکمل طور پر ناکارہ ہو جاتے ہیں اور مریض کی روح ملائے اعلیٰ کو پرواز کر جاتی ہے تو متوفی کے ورثا ساری ذمہ داری ڈاکٹر پر ڈال کر اسے کٹہرے میں لے آتے ہیں۔آ پ جانتے ہیں ذیابیطس کا کوئی مریض شوگر کنٹرول کرنے کیلئے کریلا جوس‘ لہسن‘پیاز اور چائینیز چائے کا بکثرت استعمال کرتا ہے۔لیکن جب یہ مرض کنٹرول نہیں ہو پاتا اور جسم کا کوئی حصہ زخم بن جاتا ہے توایسے شخص کی جان بچانے کیلئے اس کا وہ عضو کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ایسے میں کہا جانے لگتاہے میں ڈاکٹر کے پاس علاج کیلئے گیا لیکن اس نے مجھے معذور بنا دیا۔آ پ جانتے ہیں زیادہ تر موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتے اور بہت سے نوجوان ون ویلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔جب ایکسیڈنٹ ہوتا ہے اور مریض کومے میں چلا جاتا ہے تو ڈاکٹر کا گریبان تو سب کو نظر آتا ہے لیکن مریض کی غفلت پر کوئی غور نہیں کرتا۔ آپ حیران ہوں گے برطانیہ میں ڈاکٹروں کو ہر تیرہ گھنٹے بعد گیارہ گھنٹے کا بریک ملتا ہے اور وہاں ڈاکٹرہر چار گھنٹے کے بعد آدھے گھنٹے کیلئے آرام کر سکتا ہے لیکن یہاں ہم ایک سو اڑسٹھ گھنٹے کی مسلسل ڈیوٹی کرتے ہیں۔ اگر کبھی آدھی رات کو کرسی پر بیٹھ کر چند لمحے اونگھنے کا موقع ملے تو اسے بڑی غنیمت اور نعمت خیال کرتے ہیں۔شاید لوگ ہمیں ایسی خلائی مخلوق سمجھتے ہیںجسے نہ تو نیند آتی ہے‘ نہ بھوک لگتی ہے‘ نہ غم آتا ہے نہ پریشانی چھوتی ہے۔ ہم احتجاج کیوں کرتے ہیں اس بارے میں بھی غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ کم لوگوں کو علم ہے کہ ہم احتجاج صرف اپنے لئے نہیں کرتے بلکہ اس کا مقصد علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی طرف حکومت کی توجہ دلانا ہوتا ہے۔آپ خود بتائیں جب ایمرجنسی میں بیڈز دس ہوں اور مریض تیس آ جائیں تو ڈاکٹر اپنے گھر سے تو بیڈ لا کر وہاں نہیں لگائے گا‘ چاروناچار اسے ایک بیڈ پر تین تین مریضوں کو لٹانا پڑے گا۔ اگر ایمرجنسی میں سی ٹی سکین کی مشین چار برس سے خراب پڑی ہو اور سر کی چوٹ والے مریض کا سی ٹی سکین ضروری ہو تو اس کے لواحقین تو ہمارا ہی سر پھوڑیں گے کیونکہ اس وقت وہاں پر شہباز شریف یا سلمان رفیق تو موجود نہیں ہوں گے۔ انہیں صرف ڈاکٹر ہی ذمہ دار نظر آئیں گے کیونکہ وہ ان کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ لوگ سارا قصور ینگ ڈاکٹرز پر ڈال دیتے ہیں لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی مستری اوزار کے بغیر گھر کی تعمیر کر سکے یا کوئی مالی پانی اور دیگر اشیا کے بغیر پودوں کی نگہبانی کر سکے۔ میڈیا خود اپنا گریبان ہی دیکھ لے۔ ہر ٹاک شوز میں سیاست اور ریٹنگ کی دوڑ جاری ہے ۔ میڈیا کتنا وقت ایسے سوشل ایشوز کو دیتا ہے جو معاشرے کے لئے زیادہ اہم ہیں۔ میڈیا تصویر کا ایک رخ دکھاتا ہے لیکن حکمرانوں سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ پہلے سے موجود سینکڑوں سرکاری ہسپتالوں کی حالت درست کیوں نہیں کرتے‘ وہاں بیڈز‘ مشینری اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی کو کیوں پورا نہیں کرتے اور نئے ہسپتال تعمیر کرنے کے ڈھونگ کیوں رچاتے ہیں۔ تعلیم کا بھی پنجاب حکومت نے ایسے ہی بیڑہ غرق کیا ہے۔ کے پی کے میں عمران خان نے سرکاری سکولوں کو بہتر کیا نہ کہ پنجاب کی طرح چار پانچ دانش سکول بنا کر ٹوپی ڈرامہ کیا۔ نئے سکول اور نئے ہسپتال بنانے کا اس کے علاوہ کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ کمشن کے ذریعے مال بنایا جائے۔ ہر کسی کی تان ینگ ڈاکٹرز پر آ کر ٹوٹتی ہے لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ چار گھنٹے کے آئوٹ ڈور میں اکیلا ڈاکٹر چار سو مریضوں کو کیسے بھگتا سکتا ہے یا پھر ہسپتال کے سٹور والے مفت ادویات اگر ایم ایس کے ساتھ مل کر باہر فروخت کر دیں تو ڈاکٹر کیسے مریضوں کو ہسپتال سے مفت ادویات دلوا سکتا ہے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ غیر معیاری اور ایکسپائرڈ ادویات سے کوئی مریض جاں بحق ہو جائے یا ہسپتال کا جنریٹر خراب ہو جائے تب بھی مریض اور لواحقین ڈاکٹروں کو مارنے کو لپکتے ہیں لیکن تیس تیس برس اقتدار میں رہنے والے ان حکمرانوں کو دوبارہ ووٹ دیتے وقت عوام کو ذرا افسوس نہیں ہوتا جو اقتدار میں آ کر انہیں ہسپتال کے نام پر کھنڈر اور ادویات کے نام پر زہر بیچتے ہیں اور اس کے بعد بھی نعرے لگاتے ہیں ‘ نواز شریف اگلی بار بھی وزیراعظم بنیں گے‘روک سکو تو روک لو!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved