تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     31-10-2017

بے بسی کے آنسو

عرب ممالک کے مالدار مرد صرف بھارت ہی نہیں ‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک کی لڑکیوں کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں‘ اس کی کہانیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ البتہ زیادہ کاروبار غریبوں کی بستیوں میں ہوتا ہے۔ ایسی ہی چند کہانیاں ‘ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں شائع ہوئیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
''انڈیا کی ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ کے مشترکہ دارالحکومت‘ حیدرآباد کے غریب مسلمان خاندانوں کی لڑکیوں کی خلیجی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے امیر مردوں سے شادیوں کا سلسلہ نیا نہیں۔بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں اس مسئلے کا جائزہ لیا اور شکار ہونے والی چند خواتین سے ملاقات کر کے‘ ان کی کہانی سنی۔فرحین تعلیم مکمل کر کے نرس بننے کے خواب دیکھا کرتی تھی لیکن جب وہ صرف 13 برس کی تھی تو اس کی شادی‘ اردن سے تعلق رکھنے والے ایک 55 سالہ شخص سے کر دی گئی۔فرحین کے والد اسے ایک کمرے میں لے گئے ‘جہاں تین افراد موجود تھے۔ فرحین کو ان کے سامنے پیش کیا گیا اور پھر بتایا گیا کہ اْسی شام‘ ان میں سے ایک شخص کے ساتھ اس کی شادی ہے۔فرحین بتاتی ہے کہ ''میں چیختی رہی‘ چلاتی رہی۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میری کسی نے نہ سنی‘‘۔فرحین کی والدہ نے اسے دلہن بنایا اور یہ بھی بتایا کہ اسے شادی کے بدلے‘ 25 ہزار روپے فی الوقت اور پانچ ہزار روپے ماہانہ ملا کریں گے۔پھر ایک قاضی نے نکاح کے صیغے پڑھے اور اس کی شادی ہو گئی۔فرحین کے مطابق ‘جب اس شخص کو تنہائی میں دیکھا تو اس کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی۔اس نے بتایا ''رات جب میں روئی تو وہ مجھ پر چڑھ دوڑا اور پھر وہ تین ہفتے تک مجھ سے کھیلتا رہا‘‘۔اس کے بعد اس شخص نے فرحین سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ اردن چلے اور اس کی وہاں موجود بیویوں اور بچوں کی دیکھ بھال کرے۔
فرحین کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص پہلے سے شادی شدہ تھا۔ فرحین کے خاندان کی رضا مندی سے معاہدہ ہوا کہ وہ شخص واپس جا کر‘ فرحین کو بلانے کے لیے کاغذات بھیجے گا مگر وہ ویزا کبھی نہیں آیا۔اس نے کہا کہ ''اس تمام واقعے کے بعد پورا سال پرامن گزرا۔ میں روتی نہیں تھی اور چاہتی تھی کہ اس بے معنی زندگی کو ختم کر دوں۔ میرے خاندان نے بھی مجھے دھوکا دیا‘‘۔اس واقعے کو آٹھ سال گزر گئے لیکن فرحین ابھی بھی غمزدہ ہے۔ ہماری اْن سے ملاقات ایک غیر سرکاری تنظیم کے دفتر میں ہوئی‘ جہاں وہ پڑھاتی ہے۔وہ کہتی ہے کہ ''بوڑھے شخص سے شادی کرنے پر رشتے داروں نے مجھ پر تنقید کی اور بعض نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کی خواہشات کی تسکین نہ کر سکی‘ اس لیے اسے چھوڑ دیا گیا ‘ ‘ ۔ گزشتہ تین برسوں میں تلنگانہ پولیس سٹیشن میں‘ فرحین کا مقدمہ وہاں درج کرائے گئے ‘48 کیسز میں سے ایک ہے۔پولیس سٹیشن میں شکایت درج کروانے کے بعد‘ شادی کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔حیدر آباد کے جنوبی زون کے پولیس افسر‘ وی ستیہ نارائن نے کہا کہ ''عموماً متاثرین ہمارے پاس نہیں آتے لیکن جب شیخ چلے جاتے ہیں تو پھر خواتین رپورٹ کرتی ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ وزارتِ خارجہ سے رابطہ کرتے ہیں لیکن ان شیخ حضرات کو انڈیا لانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں‘‘۔سینئر پولیس افسر نے کہا کہ یہ مجرموں کا بہت پیچیدہ نیٹ ورک ہے جس میں دلال شادی کے جعلی سرٹیفکیٹ بنواتے ہیں۔یہ دستاویزات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ شادی ہوئی ہے۔ستمبر میں تلنگانہ پولیس نے آٹھ شیوخ پر مشتمل ایک گروہ کو گرفتار کیا۔ جن میں سے دو کی عمر 80 سال تھی اور باقی چھ کی عمر 35 سال۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعے کی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان تمام کیسز میں خواتین کی عمریں‘ 12 سے 17 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔
تبسم کی جب شادی ہوئی تو اس کی عمر 12 سال تھی۔ اسے ہوٹل لے جایا گیا جہاں اْس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور یہ کہہ کر اسے گھر بھیجا گیا کہ اْس کا شوہر جلد ویزا بھجوائے گا ۔ تبسم نے ایک سال بعد ایک بچی کو جنم دیا لیکن اس بچی کی پرورش اس کی بہن کے طور پر ہوئی۔وہ کہتی ہے''میری بیٹی مجھے بہن کہتی ہے اور ہر بار میرا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ میرے کان امی سننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں‘‘۔زیادہ تر شیخ عمان‘ قطر اور یمن سے آتے ہیں۔ بہت سی شادیوں میں تو یہ لوگ ہندوستان بھی نہیں آتے ۔15 سالہ زہرہ یتیم ہے اور اپنی دادی کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کی چچی نے اسے فروخت کرنے کے مقصد کے تحت ‘سوشل میڈیا پر اس کی تصویر استعمال کی تھی۔زہرہ کہتی ہے: ''اس رات ایک قاضی آیا اور اس نے گھر سے ہی فون کے ذریعے نکاح پڑھا دیا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میری کس کے ساتھ شادی ہو رہی تھی؟اس کے بعد ویزا آیا اور وہ یمن پہنچی ‘جہاں ایک 65 سالہ شخص نے اپنے آپ کو شوہر کے طور پر پیش کیا۔ اس کے بعد وہ شخص اسے ہوٹل میں لے گیا۔زہرہ نے بتایا کہ اس شخص نے ان کے ساتھ زبردستی کی اور اس کے بعد اس نے اسے حیدرآباد واپس بھیج دیا۔فرحین اور زہرہ جیسی لڑکیوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ شاہین نام کے این جی او کی سربراہ‘ جمیلہ اس طرح کی خواتین کی مدد کرتی ہے۔وہ بتاتی ہے کہ جس مسلم علاقے میں وہ کام کرتی ہیں‘ وہاں ایک تہائی خاندانوں نے پیسے لے کر‘ اپنی بیٹیوں کی شادی کی ہیں۔جمیلہ کا کہنا ہے کہ ''زیادہ تر خاندان غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور سکول سے ملنے والے کھانے پر بچوں کی گزر بسر ہوتی ہے‘‘۔لوگ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ پیسے کے لیے ایسا کر رہے ہیں؟ بلکہ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سماجی رسم ادا کر رہے ہیں۔یہ ایک خطرناک صورتحال ہے لیکن ایک اور کہانی دل ہلا دیتی ہے۔
روبیہ اور سلطانہ بچپن کی دوست تھیں۔ ان دونوں کی بھی شادی ہوئی ۔ بعد میں دونوں کو پتہ چلا کہ ان کی ایک ہی آدمی سے شادی ہوئی ہے۔روبیہ کی شادی 13 سال کی عمر میں عمان کے ایک 78 سالہ شیخ سے ہوئی۔اس نے روتے ہوئے کہا: ''وہ مجھے اور میری دوست کو چھوڑ گئے۔ ہمیں ہفتوں ان کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ بالآخر میری دوست نے خود کشی کر لی‘‘۔اسلامی عالم‘مفتی حافظ ابرار اس قسم کی شادی کو وہ جسم فروشی قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں: ''جو قاضی پیسے لے کر دوسرے ملکوں کے مردوں سے لڑکیوں کی ایسی شادی کراتے ہیں ‘وہ مسلمان قوم اور اسلام کا نام بدنام کر رہے ہیں‘‘۔تلنگانہ کے بچوں کے حقوق کا تحفظ کے ادارے کے ایک اہلکار‘ امتیاز علی خان چاہتے ہیں کہ اس طرح کی شادیوں کو روکنے کے لیے مساجد بھی اپنا کردار ادا کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''ہم نے مسجد کے اماموں سے یہ کہا کہ وہ خطبے کے دوران‘ اس قسم کی شادیوں کے خلاف بیداری پیدا کریں‘‘۔فرحین‘ تبسم‘ زہرہ‘ روبیہ اور سلطانہ جیسی خواتین کو ایک امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔اتنی مشکلات کے بعد بھی‘ فرحین یہ خواب دیکھتی ہے کہ ایک دن معاشرے میں خواتین کی تعلیم کے بارے میں‘ بیداری پیدا ہو اور انہیں جنس نہ سمجھا جائے۔''میرے خاندان والے اب اپنے کام پر معذرت خواہ ہیں۔ اگر یہ بیداری دوسرے گھروں میں پیدا ہو جائے تو وہ اپنی بیٹیوں کی شادی پیسے کے لئے کرنے کے بجائے انہیں تعلیم د لوائیں‘‘۔
گستاخی معاف!صرف بے بس لڑکیاں ہی اس مکروہ تجارت کا سامان نہیں بنتیں۔ سیاسی منڈی میں اور سامان بھی اسی طرح بکتا ہے۔ آسودہ حال افراد کی اپنی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ گاہک اس شعبے میں بھی اچھا مال فروخت کرتے ہیں۔جن کی آمدنی زیادہ ہو جائے وہ اقامہ بنوا لیتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved