کل والے کالم میں متعدد کتابوں کا تذکرہ تھا کیونکہ کتابیں زیادہ ہوتی ہیں اور کالم کا دامن نہایت تنگ‘ تاہم‘ ان میں کچھ کتابیں یقیناً ایسی تھیں جن کا ذکر ذرا تفصیل سے کیا جاتا جن میں انجم سلیمی کی نظموں کا مجموعہ ''ایک قدیم خیال کی نگرانی میں‘‘ اور زیرنظر غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ''بادل جھکتے پانی پر‘‘ جس کے خالق محمود ناصر ملک ہیں۔ اس پر نذیر قیصر‘ شکیل عادل زادہ اور منیر نیازی کی تحسینی رائے موجود ہے۔ دیباچوں اور سرورق کے اندر اور باہر دی گئی آراء کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی کہ یہ زیادہ تر گمراہ کن ہوتی ہیں اور جن کا مقصد محض تعریف و توصیف ہوتا ہے‘ حتیٰ کہ وہ آراء جو میری کتابوں پر دی گئی ہیں‘ بلکہ وہ آراء بھی جو میں نے دوسروں کی کتابوں پر دے رکھی ہے اور ان کا مقصد بھی ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ کتاب کم ازکم غزلوں کی حد تک میں نے پڑھی ہے اور اسے لائن لائق اعتناپایا ہے۔ یہ اچھی شاعری ہے لیکن کیا شاعری کا محض اچھا ہونا ہی کافی ہے؟ ہمارے گردوپیش زیادہ تر اچھی شاعری ہی تخلیق کی جا رہی ہے جبکہ شاعری کی کتاب تو ایک چیلنج ہوتی ہے۔ یعنی کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ میں اس نام نہاد شاعری کی بات نہیں کر رہا جو محض رفتگاں کی جگالی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ تاہم شعر تو وہ ہے جو آپ کے اندر کوئی چھوٹا طلاطم تو پیدا کرے اور جسے آپ آگے چلانا بھی ضروری سمجھیں کہ شاعری تو ایک پیرایۂ کا اظہار کا نام ہے جس کی ایک صنف یہ بھی ہے کہ دوسروں سے مختلف ہو اور نام لیے بغیر بھی کہا جا سکے کہ یہ فلاں کا شعر ہے۔ شعر کا ایک قبول صورت پتلا بنا دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اس میں جان بھی ڈالنی ہوتی ہے۔ جاندار شاعری اسی کو کہتے ہیں اور جاندار شاعری ہمارے ہاں ہو بھی رہی ہے۔ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ زیرنظر شاعری میرے حساب کتاب میں آتی ہے یا نہیں‘ یہ بات بھی نہیں کہ بقول میرؔ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ اچھا شعر کہہ سکنا یا نہ کہہ سکنا اور بات ہے تاہم مجھے اتنا زعم ضرور ہے کہ شعر کے بارے رائے دے سکوں۔
اس کتاب کے جو اشعار میرے انتخاب میں آئے ہیں‘ پہلے اُن کا بیان ہو جائے :
یقین آتا نہیں مجھ کو گماں بھی تو نہیں جاتا
بدن میرے ترے اندر کہاں کی خاک اُڑتی ہے
....................................
وہ سارے شہر میں اک کم سخن ہے
اُسی سے گفتگو کے سلسلے ہیں
....................................
بنائیں گے کوئی اب اور ہی صورت تعلق کی
یہ وصل و ہجر اپنے درمیاں رہنے نہیں دیں گے
....................................
گھُٹن ہر روز بڑھتی جا رہی ہے
ہوا سے دُور ہوتے جا رہے ہیں
....................................
گو محبت ایک پل میں کھو گئی
دل کو سمجھانے میں اک عرصہ لگا
....................................
یاں ہوا تو چلتی ہے
بادباں نہیں کھلتے
ابھی مٹھی میں تھوڑا آسماں ہے
ابھی قدموں کے نیچے کچھ زمیں ہے
اس کتاب میں کچھ فنی معاملات بھی ہیں۔ ان کا ذکر بھی ہو جائے۔ مثلاً پہلے شعر کے مصرعہ ثانی میں تعقیدِ لفظی ہے جو اس طرح سے ہے کہ بدن میرے ترے اندر کہاں کی خاک اُڑتی ہے‘ یہ اس طرح ہوتا تو بہتر تھا‘ مرے تیرے بدن اندر کہاں کی خاک اڑتی ہے۔ علاوہ ازیں کئی مصرعے خارج ازوزن ہیں‘ اور یہ وہ عیب ہے جو ہرگز قابل معافی نہیں ہے۔ مثلاً کتاب کے صفحہ 27 کے دو شعر دیکھیے جو خارج ازوزن ہیں :
شور کیسا تھا‘ بہائو کیسا تھا
رات دریا کا کٹائو کیسا تھا
اور دوسرے شعر کا یہ مصرعہ
لوگ کیسے تھے‘ الائو کیسا تھا
اس شعر کے دونوں مصرعے خارج ازوزن ہیں
مرے اردگرد جو حصار تھا وہ نہیں رہا
مجھے خود پہ کچھ اعتبار تھا وہ نہیں رہا
بلکہ اس سے اگلے شعر کا پہلا مصرعہ خارج ازوزن ہے۔
وہ جو دھوپ تھی کسی خیال کی اُسے کھو دیا
اسی طرح اس غزل میں سے یہ دو مصرع بھی خارج ازوزن ہیں ع
وہ جو درد دل بے شمار تھا وہ نہیں رہا
اور
مری ساری عمر کی جستجو بے ثمر گئی
صفحہ 48 پر جو مطلع ہے اس کا قافیہ ہی نہیں ہے ؎
شام کا منظر مجھے اچھا لگا
ڈوبتا سورج مجھے اچھا لگا
اسی طرح صفحہ 56 کی غزل کا ایک شعر ہے ؎
بچپن کی آوازوں کو
شہرِ خواب میں زندہ کر دے
اس کے پہلے مصرعے میں ایک رُکن کم ہے جبکہ صفحہ نمبر 97 پر درج غزل کا یہ مصرعہ
لکیر ہاتھوں میں اپنے وہ نہیں تھی
جس میں ہاتھوں کی ''ہ‘‘ وزن سے باہر ہو گئی ہے۔بہتر تھا کہ ملک صاحب کتاب کا مسودہ کسی دوست مثلاً نذیر قیصر ہی کو دکھا لیتے تاکہ وہ ان عیوب سے پاک ہو جاتا۔
اس کے علاوہ کتاب کا نام ''بادل جھکتے پانی پر‘‘ بھی محل نظر ہے۔ شاعر کی اس سے مراد یہ ہے کہ پانی پر جھکتے بادل لیکن موجودہ صورت میں تو اس کا مطلب یہی نکلے گا کہ جھکتے پانی پر بادل ہیں جبکہ جھکتا پانی بجائے خود محل نظر ہے!!
آج کا مطلع
ترے لبوں پہ اگر سُرخیٔ وفا ہی نہیں
تو یہ بنائو‘ یہ سج دھج تجھے روا ہی نہیں