بنگلہ دیش کی ظالم حکمران حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو پھانسیاں لگا کر یا جیلوں میں بند کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ موجودہ امیر جماعت جناب مقبول احمد اور ان کے ساتھیوں کو بھی جھوٹے مقدمات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ مقبول صاحب کی عمر 80سال ہے۔ شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض کے ساتھ انھیں کمر کی شدید تکلیف ہے۔ ان کو علاج کی سہولت حاصل نہیں۔ الٹا طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی جارہی ہیں۔ بنگلہ دیش جماعت کے سابق امیر جناب پروفیسر غلام اعظم آج سے تین سال قبل 91سال کی عمر میں جیل ہی میں موت سے ہم کنار ہو کر شہادت کی وادی میں اتر گئے تھے۔
پروفیسر صاحب کی حسین یادیں آج بھی دل میں تازہ ہیں۔ (پروفیسر صاحب کی نظر بندی سے قبل) تین مختلف مواقع پر ان سے برطانیہ میں ملاقات ہوتی رہی۔ کیا لکھوں، ان ملاقاتوں کا لطف و سرور ناقابل بیان ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور بی این پی کی مخلوط حکومت قائم تھی۔ میں برطانیہ کے دورے میں مختلف مقامات پر گیا۔ وہاں میرا قیام ریڈلے نزد نیلسن میں ہوتا ہے۔ مانچسٹر چوںکہ یوکے اسلامک مشن کا بڑا مرکز ہے اور ریڈلے سے زیادہ دور بھی نہیں، اس لیے یہاںکئی پروگرام ترتیب پاتے ہیں۔ یہاں دو جامع مساجد میں یو کے اسلامک مشن کے مراکز قائم ہیں۔ ایک مدینہ مسجد ہے اور دوسری مسجد خضریٰ۔ پروگرام کے مطابق مدینہ مسجد میں خطبہ جمعہ سے فارغ ہوا تو دوست، احباب ملنے کے لیے آگے بڑھے۔
اس دوران میرے ممدوح پروفیسر غلام اعظم ایک نوجوان کے کندھے پہ ہاتھ رکھے میری طرف آرہے تھے۔ میں سب دوستوں کے درمیان سے بڑی عقیدت و محبت سے اُس جانب متوجہ ہوا اور آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ فرمانے لگے: ''مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ آپ کا خطبہ جمعہ آج یہاں ہوگا، بہرحال بڑی خوشی ہوئی ہے کہ اللہ نے ملاقات کا موقع دے دیا۔‘‘ اس ملاقات کے دوران پروفیسر صاحب نے کہا: ''چلو میرے ساتھ ظہرانے میں شامل ہوجاؤ‘‘۔ میں نے عرض کیا: ''آج تو طے شدہ پروگرام ہے، میں ان شاء اللہ دو دن بعد اتوار کے روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا۔ ‘‘ ان کے ساتھ جو نوجوان تھا، وہ ان کا بھتیجا تھا، جس کا تعارف انھوں نے کروایا۔ ساتھ ہی فرمایا: ''میرے تین بیٹے بھی برطانیہ میں میقم ہیں۔‘‘ پھر اپنے گھر کا پتا نوٹ کروایا اور فرمایا کہ میں تمھارا انتظار کروں گا۔
میرے لیے یہ دعوت نعمت غیر مترقبہ تھی۔ مجھے پروفیسر صاحب سے بنگلہ دیش کے حالات اور جماعت اسلامی کی پیش رفت کے بارے میں معلومات کا بہت شوق تھا۔ میں وعدے کے مطابق اپنے عزیز میاں اویس سرور کے ساتھ ان کی گاڑی میں ریڈلے سے چلا اور پروفیسر صاحب کے گھر پہنچا۔ وہ سراپا انتظار تھے۔ کھانا میز پر لگ چکا تھا، جو خاصا پرتکلف تھا۔ ہر چیز سے نفاست ٹپکتی تھی جو پروفیسر غلام اعظم صاحب کا زندگی بھر کا معمول رہا۔ کھانے کا تو ایک بہانہ تھا اصل میں تو یادوں کے دریچے کھولنا مقصود تھا۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا : ''مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ تم نے اپنے خطبے کو انگریزی زبان میں بھی پیش کر دیا۔ یہاں کی نوجوان نسل اُردو اور بنگلہ سے زیادہ انگریزی زبان سمجھتی ہے۔ ‘‘
اُس دور میں جماعت اسلامی اور بی این پی کے اتحاد کو بنگلہ دیش اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی اور انھی کی حکومت قائم تھی۔ بنگلہ دیش کی اس مخلوط حکومت میں جماعت اسلامی کے دو وزراء تھے۔ پروفیسر صاحب فرمانے لگے : ''آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے دو ساتھی امیر جماعت جناب مطیع الرحمن نظامی اور قیم جماعت علی احسن محمد مجاہد مخلوط حکومت میں شامل ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ دونوں کی کارکردگی نہ صرف بنگلہ دیش میں بلکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں کے نزدیک بھی مثالی اور بے داغ ہے۔ یہ جماعت کے لیے بہت بڑا کریڈٹ ہے۔ مجھے پہلے بھی میڈیا کے ذریعے یہ معلومات ملتی رہتی تھیں مگر پروفیسر صاحب کی زبانی سن کر میں بہت خوش ہوا۔ مربّی اور استاد اپنے تربیت یافتہ ساتھیوں اور شاگردوں کی کامیابی پر مسرور تھا! استاد اور مربی اپنی منزل پہ پہنچ گیا ہے اور شاگردانِ رشید کے قافلۂ سخت جان کے کئی قیمتی ہیرے بشمول نظامی صاحب و مجاہد صاحب بھی شہادت سے ہم کنار ہوگئے ہیں۔ باقی ابتلا و آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔
میرے ایک سوال پر پروفیسر صاحب اپنے بارے میں بتانے لگے کہ میری خواہش اب یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں اپنے تحریکی نوجوانوں کی فکری اور علمی تربیت کروں۔ دوسرے دینی قوتوں کو آپس میں متحد کرنے کے لیے کچھ مزید کام کرسکوں۔ گفتگو کے دوران میں نے پوچھا ایک مرتبہ آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اللہ نے آپ کو چھ بیٹے عطا فرمائے، مگر بیٹی کی رحمت سے محروم رکھا۔ اب بتائیے کہ آگے آپ کے گھر میں پوتیوں کی رحمت آئی ہے؟ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے: ''اچھا آپ کو یہ بات یاد ہے جو میں نے آپ کو کئی سال قبل کہی تھی! اللہ نے مجھے پوتیوں کی نعمت سے نوازا ہے۔ ‘‘مجھے یاد نہیں کہ پروفیسر صاحب نے مختلف بیٹوں کی صاحبزادیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے چھ یا آٹھ پوتیوں کا ذکر کیا تھا۔ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، مگر اس عظیم انسان نے حدیث کی روشنی میں یہ بات اپنے دل میں محسوس کی تھی کہ بیٹی اللہ کی رحمت ہے اور اس کی اچھی تربیت کرنے کے نتیجے میں قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے پناہ اور نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نصیب ہوگی۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور عالم اسلام کے حالات پر کافی دیر گفتگو رہی۔
پروفیسر صاحب کے ہر بیٹے کا نام عبداللہ ہے اور ہر ایک کے ساتھ ایک اور اسم معرفہ لگا کر اسے ممیز کیا گیا ہے۔ الاعظمی بھی نام کا حصہ ہے۔ سب سے بڑے بیٹے عبداللہ مامون الاعظمی ہیں، جو اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک جدہ میں سالہا سال سے اعلیٰ منصب پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان سے بھی کئی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ایک بار ہمارے پاس منصورہ بھی تشریف لائے تھے۔ دوسرے بیٹے عبداللہ امین الاعظمی ہیں۔ تاجر ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ تیسرے بیٹے کا نام عبداللہ مومن الاعظمی ہے، جبکہ چوتھے بیٹے بریگیڈئیر جنرل عبداللہ امان الاعظمی ہیں۔ موصوف کو پروفیسر صاحب کی وفات کے بعد بنگلہ دیش کی ظالم حکومت نے اٹھا لیا۔ وہ اب تک لاپتہ ہیں۔
پانچویں بیٹے عبداللہ نعمان الاعظمی بھی برطانیہ میں مقیم ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر عبداللہ سلمان الاعظمی پی ایچ ڈی ہیں اور آج کل وہ بھی برطانیہ میں ہوپ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ملاقات کے وقت پروفیسر صاحب کے پوتے پوتیوں کی تعداد۲۵ کے لگ بھگ تھی۔ پروفیسر صاحب کی اہلیہ محترمہ عفیفہ اعظم بقیدِ حیات ہیں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔ اس عظیم خاتون نے پروفیسر صاحب کا ساتھ ایک مثالی بیوی کی حیثیت سے ہر مشکل میں خوب نبھایا۔محترمہ عفیفہ اعظم جماعت کی رکن اور حلقۂ خواتین کی مربّیہ رہی ہیں۔ اب عمر کافی ہوچکی ہے، اس لیے ان کی سرگرمیاں بہت محدود ہوگئی ہیں۔ طالبات و خواتین ان کے گھر پر ان سے راہ نمائی لینے کے لیے آتی رہتی ہیں۔ پروفیسر صاحب کے قید و بند کے زمانے میں پورا خاندان محترمہ بیگم غلام اعظم کی پرعزم شخصیت سے حوصلہ پاتا رہا ہے مگر احباب کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر صاحب کی جدائی کے صدمے اور بیٹے کی گمشدگی نے ان کو خاصا نڈھال کر دیا ہے جبکہ بڑھاپا بذاتِ خود ضعف کا سب سے بڑا سبب ہوتا ہے۔
پروفیسر صاحب سے بنگلہ دیش میں ای میل سے رابطہ رہتا تھا۔ گرفتاری کے بعد یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا تھا۔ ان کے خلاف جو لچر الزامات لگائے گئے اور جو جعلی ٹریبونل کا ڈرامہ کھیلا گیا، اس نے حسینہ واجد کی گھٹیا ذہنیت اور جماعت اسلامی کے راہ نمائوں کی عزیمت و عظمت کو پوری دنیا کے سامنے واشگاف کر دیا ہے۔پروفیسر غلام اعظم صاحب کے خلاف فیصلہ فرعونیت کی بدترین مثال تھا۔ بنگلہ دیش کے حالات سے باخبر ہر شخص جانتا ہے کہ یہ کوئی عدالت یا انصاف کا فیصلہ ہر گز نہیں تھا۔ جماعت کے ہر راہ نما کے خلاف طے شدہ فیصلوں کا اعلان کیا جاتا رہا ہے۔ یوں آج یہ عظیم شخصیت حدیث پاک کی روشنی میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوچکی ہے۔
پروفیسر صاحب سے ان کی سزا سے قبل ان کے اہل خانہ کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے اپنے اہل و عیال سے کہا کہ انھیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنا معاملہ احکم الحاکمین کے سپرد کر دیا ہے۔ پروفیسر صاحب کے صاحبزادے عبداللہ امان اعظمی جو بنگلہ دیش فوج میں بریگیڈیر جنرل تھے اور جن کا مختصر تذکرہ اس سے قبل کی سطور میں آچکا ہے، اپنے والد سے ملاقات کے بعد بڑے پر عزم اور مطمئن تھے۔ انھوں نے کہا کہ میرے والد نے پوری زندگی ایک کھرے انسان اور سچے مسلمان کی طرح گزاری ہے۔ ان کے دامن پہ کسی قسم کا کوئی دھبہ نہیں۔ ان کے بدخواہ منہ کی کھائیں گے اور پروفیسر غلام اعظم کا نام ہمیشہ تاریخ میں جگمگاتا رہے گا۔ بنگلہ دیش کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کی پوری زندگی اسلام کے غلبے کی جدوجہد اور انسانیت کی خدمت میں صرف ہوئی ہے۔ ان کے خلاف استغاثہ نہ کوئی ثبوت پیش کرسکا ہے، نہ دستاویز۔ سرکاری گواہوں نے اپنی گواہی میں بھی کوئی مستند یا چشم دید شہادت پیش نہیں کی۔