تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     31-10-2017

پانی سر سے اونچا نہ ہو جائے

ٹرمپ انتظامیہ کی سی پیک اور دہشت گردی کے حوالے سے دی گئی دھمکیوں کے تناظر میں‘ اس سے قبل کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے ‘ چین اور پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے ایک ساتھ کھڑے ہو کر امریکہ اور بھارت کو بغیر کسی ڈر اور جھجک کے یہ پیغام دینا چاہئے کہ'' تم جو کچھ کرو گے اس کا اسی طرح سے جواب دیا جائے گا‘‘... چین کو چاہئے کہ اقوام عالم کو بتا دے کہ اگر شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام اور میزائل امریکہ اور اس کے حلیفوں کیلئے خطرناک ہوتے جا رہے ہیں تو بھارت کے آئے روز کئے جانے والے ایٹمی میزائلوں کے تجربے بھی خطے میں طاقت کے توازن کو بری طرح سے بگاڑ رہے ہیں... اگر شمالی کوریا سے عالمی امن کو خطرہ ہے تو کیا بھارتی حکومت کی طرف سے ایٹمی آبدوزوں کی وصولی راجستھان کے صحرائوں میں کسی میوزیم میں سجانے کیلئے کی جا ری ہے ؟ بھارت کا نیا ایئر چیف اپنے عہدے کا چارج لیتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں دنیا کو بتاتا ہے کہ '' ہم چین اور پاکستان دونوں کے اندر تک سرجیکل سٹرائیک کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں‘‘ اگر بھارت کا رویہ اور وجود خطے کے لیے خطرہ بن چکا ہے تو پھر شمالی کوریا کی طرح بھارت کو لگام ڈالنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کو ایک مشترکہ اعلامیے کے ذریعے دنیا بھر کے عوام کو خبردار کرنا ہو گا کہ اگر یورپی یونین‘ امریکہ اور بھارت نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا نام لیتے ہوئے پاکستان سمیت کسی دوسرے ایٹمی ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی جسارت کی تو اس سے برصغیر اور جنوبی ایشیا کا ہی نہیں‘ دنیا بھر کا امن تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا ۔
امریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر دفاع جیمز میٹس نے سی پیک پر گلگت بلتستان پر نریندر مودی کے چھوڑے ہوئے جس شوشے کی تائید کر تے ہوئے اسے بین الاقوامی ایشو بنا کر پیش کیا ہے‘ یہ مودی کی اس تقریر کا حصہ ہے جو اس نے پندرہ اگست کو لال قلعہ دہلی میں کی تھی۔ مودی نے اپنے دوستوں کو اس خطاب میں یہ پیغام دیا تھا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگ مجھ سے رابطے کر رہے ہیں میں انہیں مایوس نہیں کروں گا ...ان منصوبوں کے بارے میں ‘میں نے اپنے جن خدشات کا اظہار دو اقساط میں شائع ہونے والے ایک مضمون'' ٹرمپ مودی اور اسرائیل‘‘ میں کیا تھا ان کی ابتدا امریکی وزیر دفاع James Mattisنے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے یہ دھمکی دیتے ہوئے کر دی ہے کہ ''CPEC کا روٹ گلگت بلتستان کے ایسے علا قے سے گزرتا ہے ‘ جس کے بارے میں بھارت دعویٰ کرتا آ رہا ہے کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ جموں وکشمیر کا حصہ ہے اور اس پر پاکستان نے زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے ...یہ وہ امریکہ کہہ رہا ہے جس نے مودی کے گلگت پر دعوے کے حوالے سے اپنا پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر متنازعہ علاقہ ہے ۔ ستمبر کے اوائل میں بھارت کے آرمی چیف بپن راوت نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ '' بھارتی فوج چین اور پاکستان دونوں سے بیک وقت نپٹ سکتی ہے‘‘...پھردو دن بعد بھارتی ایئر فورس کے نئے چیف نے اپنے عہدے کا چارج لینے کی تقریب میں کہا '' ہم چین اور پاکستان دونوں میں سرجیکل سٹرائیک کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔ امریکی وزیر دفاع نے سینیٹ کمیٹی کے ذریعے دنیا بھر کو پیغام دے دیا کہ امریکہ '' ون روڈ ون بیلٹ‘‘ کی منطق کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا...کیونکہ یہ روڈ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علا قے سے گزرتا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کا یہ بیان امریکہ کے اس دیرینہ دعوے کا مکمل یو ٹرن ہے جو اس نے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کو غاصب قرار دیتے ہوئے اب تک اختیار کیا ہوا تھا۔امریکہ کے سیکرٹری ڈیفنس کا سینیٹ کمیٹی کے سامنے دیا جانے والا بیان کہ '' امریکہ ،ون روڈ ون بیلٹ کی منطق کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘ اس امر کا عکاس ہے کہ امریکہ ،بھارت اور افغانستان کو اپنے ساتھ شامل کرکے سی پیک اور گوادر منصوبے کو روکنے کیلئے آخری حد تک جا سکتا ہے، دوسرے لفظوں میں امریکی سینیٹ اور وزیر دفاع نے سی پیک سے پیچھے ہٹنے کیلئے پاکستان کو صاف اور واضح الفاظ میں دھمکی دی ہے۔
انڈین High Brid War Operativeکلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیانات کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا ستمبر میں بھارتی وزیر اعظم مودی سے ملاقات کرتے ہوئے اسے افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے اشتراک کی دعوت دینا سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ امریکی انتظامیہ کی اکثریت اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت خود افغانستان کی این ڈی ایس کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔
Andrew Korybko کا Trump unveiled an anti- CPEC Strategy, Not an Afghan One کے عنوان سے26 اگست2017 کو شائع ہونے والا آرٹیکل سامنے رکھیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں مزید چار ہزار امریکی فوجی بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ یہ تعداد بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔ دراصل یہ اشارہ تھا کہ امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر سی پیک اور گوادر کے خلاف آپریشن کرے گا۔ اینڈریو اپنے آرٹیکل میں لکھتا ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے شروع کئے گئے آپریشن ضرب عضب کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی کہ کس طرح بغیر کسی بیرونی مدد کے پاکستان کی فوج اپنی حدود کے ہر حصے سے داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ ایساف ، نیٹو اور امریکہ کا جدید ترین اسلحہ ‘ سیٹیلائٹ اور جاسوسی کی اعلیٰ ترین سہولتوں اور دولت کے انبار سے لدی ہوئی اس کی میرینز سولہ برسوں میں افغانستان سے طالبان کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں ۔
اقوام عالم سے پوچھاجائے کہ نائن الیون کے بعد اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا بھر سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے گروپوں کوختم کرنے کی سزا دینا مقصود ہے؟جب امریکہ پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے طے کئے گئے سپورٹ فنڈ کی ادائیگی روک رہا ہے تو پھر پاکستان سے سی پیک کے نام سے جینے کا حق چھیننے کی کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے ایک روزہ دورہ کابل کے تیسرے دن افغانستان کے سابق طاقتور صدر حامد کرزئی نے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کرنے والا اور داعش کو افغانستان میں لانے والا امریکہ کے علا وہ اور کوئی نہیں...ایک بہت ہی اچھا سوال کرتے ہوئے حامد کرزئی نے پوچھا کہ...امریکہ، نیٹو اور ایساف کے لائو لشکر کے ہوتے ہوئے داعش کس طرح افغانستان میں نمو پاتی رہی، اس کے لوگ کس طرح کابل ، تورا بورااور اس کے نواح میں پہنچتے رہے؟ اب یہی سوال اگر افغانستان کی موجو دہ حکومت سے پوچھا جائے کہ جناب والا: آپ کے ہوتے ہوئے مولوی فضل اﷲاور تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے مختلف لشکر کس طرح پنپ رہے ہیں؟ وہ کن کی پناہ میں ہیں اور انہیں کون سہولیات پہنچا رہا ہے؟افسوس تو یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے پاکستان پر میثاق جمہوریت کے ٹھیکیداروں کی جانب سے مسلط کی گئی قیا دت نے پاکستان کو تنہا کر کے رکھ دیا ہے شاید اسی لئے مودی نے قومی دن پر کی گئی تقریر میں کہہ دیاتھا کہ ہم پاکستان کو تنہا کر کے رکھ دیں گے...اور آج اسی صورت حال کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved