دس برس بعد وہیں جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے یہ سفر شروع کیا تھا۔
اگرچہ بہت سارے لوگ کہیں گے کہ وہیں جا کھڑے ہوئے جہاں 1958ء میں تھے۔
دس برس قبل نواز شریف آکسفورڈ سٹریٹ لندن میں لگائے گئے دربار کی صدارت کرتے ہوئے جو گفتگو کرتے تھے وہ آج سے الٹ ہے۔ اس وقت وہ فرماتے تھے‘ کافی دفعہ وزیراعظم بن لیا‘ اب پاکستان جا کر انقلاب لائیں گے۔ اس انقلاب میں سے وہ تیسری دفعہ وزیراعظم بنے ...مگر نکلا کیا؟ لندن کی جائیدادیں ‘ پاناما اور پھر اقامہ۔ ملک کا وزیراعظم دبئی میں ورک پرمٹ لے کر باقاعدہ نوکری کرتا رہا۔ پھر بھی پوچھتے ہیں‘ وزیراعظم ہوتے ہوئے بیرون ملک نوکری کا ورک پرمٹ رکھنا کون سا بڑا جرم ہے؟ بات تو ٹھیک ہے اگر ملک کے دو سابق وزیرداخلہ کے بچے برطانوی اور امریکی شہری ہوں اور وہ ہمیں امریکیوں اور برطانیوں کے خلاف جنگ لڑنے پر تیار کرتے رہے ہوں اور موجودہ وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی ایسا ہی پرمٹ لے رکھا ہو تو پھر وزیراعظم کا اقامہ نکل آئے تو کیا خرابی ہے؟
وزیرخارجہ بھی ورک پرمٹ پر چل رہے ہیں۔ وزیراعظم سے لے کر وزیروں کی فوج بیرون ملک ورک پرمٹ پر چل رہی تھی اور پوچھا جارہا ہے کون سا غلط کام کر لیا۔ عدالتوں میں ان کے خلاف کیسز ہیں لیکن مجال ہے کسی وزیر سے پوچھا گیا ہو کہ جناب آپ کے پاس سعودی عرب اور دبئی کا ورک پرمٹ ہے تو یہاں کیا کر رہے ہیں؟ جائیں وہاں نوکری کریں۔ ان کے لیے کسی ملک کا وزیراعظم ہونا، وزیرخارجہ یا وزیرداخلہ ہونا بڑا اعزاز ہے یا دبئی اور سعودی عرب میں کسی کمپنی کا مینیجر لگنا ؟ ان سب کو پتہ ہے اس قوم میں یہ احساس اتنی جلدی نہیں جاگے گا۔ اسی لیے تو پاکستانیوں نے آٹھ ارب درہم کی جائیداد دبئی میں خرید لی اور کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔ ان سب کے پاس دبئی کے اقامے ہیں جنہوں نے اربوں کی جائیدادیں دبئی میںخریدیں۔ مال پاکستان سے بناتے ہیں اور ٹرانسفر دبئی اور لندن ہوتا ہے اور پھر وہ ہمارے سامنے فخر سے ہمارا ملک چلانے اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کی قسمیں بھی کھاتے ہیں۔
دوسری طرف نواز شریف لندن میں بیٹھے اس طرح کے منصوبے بنا رہے ہیں جو ان کی پارٹی کے اپنے لیڈرز بھی ماننے کو تیار نہیں۔ نواز شریف فرماتے ہیں‘ میں نہیں تو پھر کوئی اور بھی نہیں۔ وہ شاہد خاقان عباسی سے ایسی فرمائشیں کررہے ہیں جو وہ پوری نہیں کرسکتے کیونکہ شاہد خاقان عباسی ایک کاروباری انسان ہیں۔ وہ گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے۔ انہیں اندازہ ہے نواز شریف تو اس میں بچ جائیں گے لیکن وہ پھنس جائیں گے۔ ویسے بھی پہلے بھی نواز شریف نے جنرل مشرف کے ساتھ وہی کام کر کے دیکھ لیا تھا جو وہ وزیراعظم عباسی سے کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال وہی پیدا ہوتا ہے ملک کے لیڈروں کو ذاتی مفادات عزیز ہیں ورنہ دیکھا جائے تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہورہی ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا کہ پیپلز پارٹی کا وزیراعظم عدالت نے فارغ کیا تو بھی قیامت نہیں آئی۔ نوازشریف بھی عدالت سے فارغ ہوئے تو نیا وزیراعظم آگیا۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ چل رہے ہیں۔
ویسے نواز شریف کو کیوں لگتا ہے ان کے جانے بعد اکانومی کا بیڑا غرق ہوگیا ہے؟ تین ماہ میں ایسا کون سا کام ہوا ہے جس سے نواز شریف نے اپنے ہی وزیراعظم اور کابینہ کو معاشی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا؟ نواز شریف دور میں کون سے دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ باقی چھوڑیں جب اسحاق ڈار نے ڈاکٹر وقار مسعود کے ساتھ مل کر پانچ سو ملین ڈالرز کے یورو بانڈز نیویارک میں فلوٹ کیے تو دنیا کا مہنگا ترین ریٹ ملا۔ جب اسحاق ڈار سے پوچھا گیا کہ پوری دنیا وہ بانڈز لینے سے بھاگ گئی تو آپ نے کیوں خریدے تو جواب ملا تھا‘ نواز شریف چاہتے تھے کہ پاکستان کی معاشی حالت کو ٹیسٹ کیا جائے کہ سرمایہ کار کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔ اس بھروسے کو چیک کرنے کا نتیجہ یہ نکلا پاکستان کو اب اس پانچ سو ملین ڈالرز پر چار سو دس ملین ڈالرز کا سود ادا کرنا ہے۔ کسی نے ڈار صاحب سے نہیں پوچھا کہ جب پتہ چل گیا تھا مارکیٹ بہت مہنگی ہے اور سوا آٹھ فیصد سود پر قرضہ مل رہا ہے تو نہ لیتے۔ کیسے نہ لیتے مہنگا قرضہ کیونکہ سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں انکشاف ہوا تھا کہ ستر اسی ملین ڈالرز پاکستان سے بھیج کر وہ بانڈز خریدے گئے کیونکہ اس کا ریٹرن اتنا زیادہ تھا کوئی بھی اپنی پوری جائیداد بیچ کر وہ خریدتا۔ جب پوچھا گیا ان پاکستانیوں کے نام بتائیں جنہوںنے اسحاق ڈار کے یورو بانڈز سے فائدہ اٹھایا، اس پر سیکرٹری فنانس ڈاکٹر وقار مسعود سینیٹر پر چڑھ دوڑے‘ آپ کو جرأت کیسے ہوئی نام پوچھنے کی اور سارے سینیٹر دب کر بیٹھ گئے۔
انہی نواز شریف کے دور میں پینتیس ارب ڈالرز کا قرض لیا گیا اور اب صرف اس سال بیس ارب ڈالرز سود اور دیگر کی مد میں ہم نے ادا کرنے ہیں اور خزانے میں نواز شریف اور ان کے سمدھی ڈار صاحب نے صرف تیرہ ارب ڈالر چھوڑے ہیں۔
پیپلزپارٹی برآمدات پچیس ارب ڈالرز پر چھوڑ گئی تھی اور اب بیس ارب ڈالرز سے بھی نیچے آ گری اور نواز شریف کا خیال ہے ان کے دور میں معیشت اوپر جارہی تھی۔ ایک گھنٹے میں اسحاق ڈار نے بنکوں سے مہنگے قرضے لے کر ساڑھے تین ارب ڈالرز آئی پی پیز کو ادا کیے جن میں بقول آڈیٹر جنرل آف پاکستان ایک سو نوے ارب روپے زیادہ ادا کیے گئے۔ فوٹو کاپیوں پر اربوں ادا ہوئے۔ آئی پی پیز کا بتیس ارب روپے جرمانہ ادا کیا لیکن حکومت کو جو آئی پی پیز نے بائیس ارب روپے جرمانہ ادا کرنا تھا‘ وہ معاف کردیا۔ انہی آئی پی پیز کا ایک efficiency test ہونا تھا لیکن وہ انہوں نے عدالت سے سٹے لے کر نہیں کرنے دیا۔ اس کے باوجود ساڑھے تین ارب ڈالرز کی ادائیگی ایک گھنٹے میں کی گئی۔ باقی چھوڑیں ایل این جی ٹرمینل پر اینگرو کو جو ڈیل دی گئی وہ حیران کردیتی ہے کہ حکومت پاکستان پندرہ برس تک روزانہ اینگرو کو دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر ادا کرے گی چاہے ان کا فلوٹنگ گیس ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو اور کئی کئی دن تک وہ ٹرمینل استعمال نہیں ہوتا اور ہر ماہ گھر بیٹھے وہ کروڑوں ڈالر وصول کررہے ہیں۔
کیا یہ وہ معاشی انقلاب تھا جو نواز شریف لا رہے تھے یا شہباز شریف پنجاب میں اپنے پسندیدہ بیوروکریٹس کو نوازنے کے لیے لارہے تھے؟ لاہور میں ساٹھ پرائیویٹ پبلک کمپنیاں بنا کر جو ڈاکا مارا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ڈیرھ سو ارب روپے وہ کمپنیاں کھا گئی ہیں اور اب ایک کے بعد دوسری انکوائری کمیٹی بن رہی ہے جس کے سربراہ اور ممبران بھی وہی ہیں جنہوںنے یہ ڈاکے مارے ہیں۔ جس بیوروکریٹ کی اوقات چند ہزار روپے تنخواہ بھی نہیں تھی‘ اسے پندرہ سے بیس لاکھ کے پیکیج پر بھرتی کر کے کمپنی کا سربراہ بنا دیا گیا اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیب ان کمپنیوں کا ریکارڈ قبضے میں لے کر آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آڈٹ کراتا اور اس سکینڈل میں ملوث لوگوں کی گرفتاریاں ہوتیں۔ ان بابوئوں کی سمجھداریاں ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے آڈٹ بھی آڈیٹر جنرل سے نہیں کرانا بلکہ تھرڈ پارٹی کرے گی جس کو ادائیگیاں بھی یہ خود کریں گے اور مرضی کی رپورٹس لیں گے۔
نواز شریف نے بیرون ملک سو سے زیادہ دورے کیے۔ وہ بتا سکتے ہیں ان دوروں سے پاکستان کو کتنے معاشی فائدے ہوئے؟ کتنی ہماری ایکسپورٹ بڑھی اور کتنا بیرون ملک سے سرمایہ پاکستان آیا؟ بھارتی وزیراعظم نے دبئی کا ایک دورہ کیا اور ستر ارب ڈالرز کے پراجیکٹس کے معاہدے پر دستخط کر گیا۔ قطر گیا تو وہاں بھارتی لیبر کا معاہدہ کیا گیا۔ لمبی تفصیل ہے۔ نواز شریف کے دوروں کے بعد پاکستان میں کتنی سرمایہ کاری ہوئی‘ اس کا کچھ پتہ نہیں ۔ صرف سی پیک کا چورن بیچا جارہا ہے جس کے مہنگے قرضے کے اثرات بعد میں آئیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے نواز شریف کے ان چار سالوں میں صرف دبئی میں پاکستانیوں نے آٹھ ارب درہم کی جائیدادیں خرید لیں۔بیرونی سرمایہ خاک پاکستان آتا، الٹا اآٹھ ارب درہم یہاں سے نکل گئے اور ہمارے پنجاب برانڈ چی گویرا فرماتے ہیں ان کے دور میں اکانومی ترقی کررہی تھی.. !
آخری بات : پنجاب میں زکوٹا جنوں کی نسلوں کی قسمت بدلنے کے لیے بنائی گئی کمپنیوں کا میگا سکینڈل آنے کے بعد اس کے سرکاری ریکارڈ کو آگ لگنی ناگزیر ہوگئی ہے۔ دیکھتے ہیں کب لگتی ہے۔ نہ رہے گا بانس‘ نہ بجے گی بانسری ... جاگدے رہنا ... سجنو تے مترو...!