فلیش بیک کے طور پر گزرے منظر کی رُوداد بیان کررہاہوں۔ سیاہ کالی رات ڈھلتے ڈھلتے صبح کے دامن سے چمٹ رہی تھی ۔ میںوینا ملک کے بیڈروم کم ڈرائنگ روم میںموجود اسے ایک نئے شو کا آئیڈیا سنارہاتھا۔ وینا سے یہ سیشن رات گیارہ بجے شروع ہواتھااور اس وقت لگ بھگ تین بج رہے تھے۔مجھے یاد ہے اس رات جب میںوینا کے گھر آرہاتھا تو بارش اس قدر شدید تھی کہ گاڑی کے شیشوں کو تیزی سے صاف کرتےWipers بھی راستہ نہیں دکھارہے تھے۔لیکن میںوینا کے گھر یوں پہنچاتھاجیسے انگریزی فلموں میں)Warrior جنگجو) اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔ میں نے پورچ میں گاڑی پارک کی تو چاروں اطراف سے بارش زوروں پر تھی ۔میں نے دیکھا ویناملک اورایک عدد ہٹا کٹا سکیورٹی گارڈ چھتری تھامے کھڑا ہے۔میں نے گاڑی سے باہر نکلنے کے لئے دروازہ کھولاتو بارش میںیوں تورنت بھیگا جیسے آنجہانی راج کپور فلم میں فوراََ اپنی ہیروئن کو بھگویا کرتے تھے۔وینا ملک نے یہ منظر دیکھا تو سکیورٹی گارڈ سے چھتری چھین کر مجھ پرتان دی۔میں پلک جھپکتے گھر کے اندر یوں داخل ہواجیسے کوئی پناہ گزین ہوں۔ موقع محل کے مطابق اسے گھس بیٹھیا بھی کہاجاسکتاہے۔لیکن میںتو اپنی ڈیوٹی پر تھا اورمیزبان مجھے خود جی آیاں نوں کہنے کے لئے شدید بارش میںگھر کے باہر کھڑی تھی۔ اب میں وینا ملک کے ساتھ گھر کے اندر تھا اورسکیورٹی گارڈ باہر۔ڈیفنس میںواقع یوں تو اکثر گھر تعمیر کا نادر نمونہ کہلانے کے لائق ہوتے ہیںلیکن وینا کے گھر کا انٹیریئر دیکھ کر میںحیران رہ گیاتھا۔گھر کے درودیوار ،چھتیں ،فرش اوران پر سجایاگیافرنیچر ایک رائل ُلک دے رہاتھا۔میں گھر کا بھیدی تھا‘ سمجھ گیاکہ کہیں کوئی لنکا ڈھے گئی ہوگی۔ میرے لیے امارت کی اس کہانی کو سمجھنا کوئی مشکل نہیںتھا کیونکہ اس گھر کی رونقیں گواہی دے رہی تھیں کہ کم از کم کوئی دوچار آشیانے اُجڑے ہیں یا پھر کسی پوری ہاوسنگ سکیم کے فنڈز یہاں خرچ کردیے گئے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے غالب یاد آگئے، میرزا نے کہا تھاکہ ع میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی وینا ملک کا گھر یُوں لگ رہاتھاجیسے اس کی تعمیر میں ’’متحدہ عرب امارات‘‘ نے فنڈنگ کی ہو۔ گھر کے کونوں کھدروں میںرکھے گئے شوپیس چیخ ،چیخ کر اپنی قیمت بیان کررہے تھے،دنیا کی مختلف ثقافتوں کی نمائندہ یہ مورتیاں اورنوادرات‘ وینا کاگھر مجھے کوئی عالمی عجائب گھر لگ رہاتھا۔اس لمحے مجھے جنرل پرویز مشرف کے چاکلیٹ وزیر اعظم شوکت عزیز یاد آئے۔ قبلہ اپنے لبرل اور روشن خیال دور کے خاتمے پر قیمتی نوادرات اپنے ساتھ لے گئے تھے جو انہیںبطور وزیر اعظم مختلف ممالک سے تحائف کی شکل میں دیے گئے تھے۔ اسی اثناء میں سکن ٹائٹ جینز اورہائی نیک پہنے ملازمہ ہاتھوں میں تولیہ تھامے وینا ملک کے پاس آئی ۔ بھیگی ہوئی وینا ملک نے اپنے بال خشک کرتے ہوئے کہا۔۔۔مسٹر میر ! آپ بھیگ چکے ہیںاپنا آپ خشک کرلیں‘ کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے‘ اس گھر میںچونکہ کوئی مرد نہیںرہتا اس لیے آپ کو مردانہ کپڑے نہیںدے سکتی‘ اگر میکسی پہننے کو دل چاہے توپورا وارڈ روب حاضر ہے‘ یہ کہتے ہوئے وینا گیلی نائٹی بدلنے اندر چلے گئی۔ میںگھر میںدکھائی دینے والی امارت اورجمالیات کا جائزہ بھی لے رہاتھا اوروینا ملک کے ادا کیے جملے کے بارے میںبھی سوچ رہا تھا کہ…اس گھر میںکوئی مرد نہیں رہتا… سوچ بچار کے بعد وینا ملک کے جملے میںصرف یہ ترمیم کرسکاکہ… اس گھر میںکوئی مرد مستقل نہیںرہتا… آج یہ کالم لکھتے ہوئے وینا ملک کی زندگی کی کہانی اورسکرین پلے پر غور کروں تو فروری کی وہ رات اورزمانہ اس کی زندگی کا ’’ہاف ٹائم‘‘ دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کے پہلے ہاف میںوہ راولپنڈی کے علاقہ ٹنچ بھاٹا سے ڈیفنس تک پہنچی تھی اوراس کے بعد وہ بھارت گئی اورپھر ایک کے بعد ایک نیا ریکارڈ قائم کرتی گئی۔ وینا سے میر اتعلق کچھ ایسا رہاہے جسے انگریزی ادب کی اصطلاح میںLOVE and HATE(محبت اورنفرت ) کارشتہ قرار دیاجاسکتا ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ وینا ملک سے مجھے بی جی نے متعارف کرایاتھا۔ویناملک نے لاہور آتے ہی نجانے کیسے بی جی کے دل میںجگہ بنالی تھی۔بی جی نے وینا ملک کا’’ کیس‘‘ مجھے ریفر کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہاتھاکہ ’’طاہر بھائی اس لڑکی کو اُٹھانا ہے‘‘۔حسنِ اتفاق یہ ہواکہ ان دنوں میں جس روزنامہ سے وابستہ تھا اس کے کلچرل ونگ کے زیراہتمام ہدایتکار سیدنور ’’شومین‘‘ انائونس کرنے کا پروگرام منعقد کرانے کی تیاریوں میںمصروف تھا۔میںنے بی جی کے کہنے پر وینا ملک کو اس میگا ایونٹ کی ہوسٹ بنانا چاہا۔اس میگا ایونٹ میںفلم انڈسٹری کا ایک ،ایک تکنیک کار اورتمام سٹارز جلوہ گر ہورہے تھے۔ میں پورا ایک ہفتہ بی جی کے بوتیک میںویناملک کو میزبانی کی ریہرسل کراتا رہا۔ وینا ملک سکرپٹ یاد کرنے سے زیادہ مجھے پڑھنا چاہ رہی تھیں۔ ایک دن وینا ملک میری آٹھ سو سی سی گاڑی میں بیٹھی تھی۔ مجھ سے کہنے لگی… میرصاحب! دُور سے آپ بڑے ماڈرن لگتے ہیں قریب آئیں توپتہ چلتا ہے آپ تو ایک پینڈو (دیسی شخص) ہیں… میںنے وینا سے کہا تھا… میں گجرانوالہ سے ہوں یہ رنگ میرے ساتھ رہتا ہے… بالی وڈ میںنت نئے ’’ریکارڈز‘‘ قائم کرنے والی اداکارہ نے اس تقریب میںبھی ایک نیاریکارڈ قائم کیاتھا۔ریکارڈ یہ تھاکہ اس نے تقریب میںآنے والے بیسیوں میگاسٹارز میں سے صرف ایک شخصیت کو سٹیج پر مدعو کیا اور پھر چُھپ گئیں۔ میںاس تقریب کا منتظم اعلیٰ تھا اورمیں نے انڈسٹری کے سٹارز کو بلامعاوضہ وہاں مدعو کررکھاتھا۔ اس ساری سچوئشن میںوینا ملک نے میرے ساتھ وہی کیاجو پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ پانچ سال تک ایم کیوایم کرتی آئی ہے۔میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس پروگرام کی میزبانی کی اوروینا ملک تیسری صف میںبیٹھی یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ ایک دوسال بعد وینا ملک ایک ٹی وی چینل کے لیے پروگرام کی ہوسٹ کے طور پر نمودار ہوئیں۔پروگرام کے پروڈیوسر میرے دوست محسن جعفر تھے جن کے ٹیلی فون پر میںنے اداکارہ میرا سے درخواست کی کہ وہ ایک ٹی وی پروگرام کے لیے انٹرویو دے دیں۔میرا نے ہوسٹ کانام پوچھا میںنے بتایا‘ ایک نئی لڑکی وینا ملک ہوسٹ ہے۔مجھے یہ بھی یاد ہے جب میرا اور وینا ملک کاآمناسامنا ہواتو مجھے میرا کا ٹیلی فون موصول ہوا۔ وہ غصّے سے لال پیلی انگریزی، اردواورپنجابی میں گالیاں دے رہی تھی۔ میںنے میرا سے دریافت کیاکہ کیا ہُوا ہے؟ اس پر میرا نے وینا کو گالیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ… یہ چڑیل انٹرویو کرنے نہیںمجھ پرجادو کرنے آئی ہے… میرا نے بتایاکہ یہ لڑکی منہ میںکچھ پڑھ کرمجھے پھونکیں ماررہی ہے… میراکا خیال تھاکہ وینا ملک کو کسی بنگالی بابانے گائیڈ کیاہے کہ اگر وہ جادو کا یہ مخصوص منتر پڑھتے ہوئے میرا پر پھونک دے تو اس کاساراسٹارڈم اس میں گُھس آئے گا ۔ میں نہیںمانتا کہ وینا ملک نے میرا کا سٹارڈم چُرایاہے لیکن یہ سچ ہے کہ وینا ملک‘ میرا سے متاثر تھی۔شوبز کی پاکستانی مارکیٹ میںکام کرتے ہوئے ویناملک کروڑپتی ہوچکی تھی مگر وہ نئے ریکارڈز قائم کرنے کیلئے بالی وڈچلی گئی۔انٹر نیٹ پر دکھائی دینے والاویناملک کا پہلا’’ریکارڈشوٹ‘‘ نامورکرکٹر کے ایک فوٹوگرافر بھائی نے اداکارہ کی فرمائش پر گلبرگ کے ایک سٹوڈیو میں کیاتھا۔ٹیٹو تنازع ہویا ایک سوپینتیس والا نیاریکارڈیہ سب اس کے اپنے مائنڈ کی ’’ڈرٹی پکچر ‘‘ ہے۔ کرکٹر محمدآصف کی طرف سے وینا ملک کے ایک کروڑ 35لاکھ روپے ہڑپ کرنے کا ڈرامہ ٹاک شوز میں جان بوجھ کررچایاگیاتھا۔ راولپنڈی کے ٹنچ بھاٹا سے لے کرممبئی کے لوکھنڈ والا کے فلیٹ تک پہنچتے ہوئے وینا ملک نے جو پایااور جوکچھ کھویاوہ دونوں’’ریکارڈز ‘‘ ہیں… اگلی کہانی پھر سہی۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved