تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     01-11-2017

مسلم لیگ ن کا مخمصہ

چودہ برس پہلے کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے افتتاح کے لیے لاہور آئے۔ افتتاحی تقریب کے بعد جنرل صاحب اپنے وزیرخزانہ شوکت عزیز ، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور صحافیوں کی معیت میں ائیرپورٹ کا معائنہ کررہے تھے کہ ان سے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے بارے میں سوال ہوا ‘ جنرل صاحب ایک لمحے کو رکے، پیچھے مڑکر صحافیوں کی طرف دیکھا ، تھوڑا مسکرائے اور کہا، ''اب وہ دونوں تاریخ کا حصہ ہیں‘‘۔ اس جواب کے بعد اگلے سوال کی نوبت ہی نہ آئی کیونکہ وہ تیزی سے آگے بڑھ گئے اور سکیورٹی اہلکاروں نے ان کے گرد حصار بنا کر صحافیوں کو دور کردیا۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا، ان کی تراشی ہوئی ق لیگ سیاست کے میدان میں ان کی لڑائی لڑ رہی تھی اور ان کی ہر معقول و نامعقول بات کا عوام کے سامنے بے باکانہ دفاع کرتی تھی۔ میر ظفراللہ جمالی جیسا شخص جو آج کل قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑا ہوکر اس کی توہین کر گزرتا ہے، اس زمانے میں ان کو اپنا ''باس‘‘ کہا کرتا تھا۔ اس ماحول میں جب ان کے منہ سے یہ بات نکلی کے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو قصۂ ماضی بن چکے ہیں تو یقین مانیے کہ سننے والوں کے پاس ان کی بات مان لینے کے سواکوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ یوں بھی نواز شریف دس سال سیاست میں حصہ نہ لینے کی شرط پر سعودی عرب میں تھے، بے نظیر بھٹو اپنے مقدمات کے خوف سے لندن میں تھی اور آصف علی زرداری جیل میں۔ اس لیے ان کی بات ٹھیک ہی لگتی تھی کہ نواز شریف بھی تاریخ کے دھندلکے میں کہیں گم ہوچکے ہیں۔مگر تین سال جی ہاں صرف تین سال میں حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ نواز شریف اور بے نظیر حقیقت بن کر سامنے نظر آنے لگے اور جنرل پرویز مشرف سیاسی طور پر تحلیل ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نواز شریف جومحض ایک سیاسی ہیولیٰ بن چکے تھے ایک بار پھر ٹھوس حقیقت کا روپ دھارنے لگے اور تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوگئے۔ 
نواز شریف کے ڈوبنے ابھرنے کے مناظر کی تفصیلات سے جو لوگ واقف ہیں ان کے لیے یہ تسلیم کرنا ممکن نہیں کہ وہ اٹھائیس جولائی کے عدالتی فیصلے کے بوجھ تلے سے نہیںنکل سکیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ نواز شریف اپنی چھاتی پر پڑے نااہلی کے اس پتھر کو کسی نہ کسی طرح سرکا لیں گے اور ایک بار پھر وزیراعظم بن جائیں گے۔یہ سب کیسے ہوگا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ احتساب عدالتوں میں ان پر چلنے والے مقدمات کا انجام کیا ہوگا اور کس طرح وہ خود کو کسی منفی نتیجے سے بچا پائیں گے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت جب گری تو گرانے والوں پر انہیں قانونی اور سیاسی برتری حاصل تھی ، دوسرے ان کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت اتنی نااہل ثابت ہوئی کہ یہ سیاسی برتری جلد ہی انہیں واپس اقتدار میں لے آئی۔ جنرل پرویز مشرف کے مقابلے میں نواز شریف کو اخلاقی برتری حاصل تھی کیونکہ ایک آمر ان کے بارے میں جو بھی کہتا اسے نہایت آسانی سے جھوٹ قرار دیا جاسکتا تھا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہے۔ چند ابتدائی جھٹکوں کے بعد ملک کا نظام آگے بڑھ رہا ہے۔عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں۔ فوج حالات پر نظر رکھتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کررہی ہے۔ گویا سوائے نواز شریف کے پاکستان کے حالات ہر کسی کے لیے نارمل ہیں۔ ان کے لیے ذاتی طور پر نااہلی کا زخم ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جارہا ہے ۔وہ اچھی طرح جانتے کہ یہ زخم آئندہ عام انتخابات سے پہلے پہلے نہ بھرا تو عین ممکن ہے ان کی سیاست اس کی تاب ہی نہ لاسکے۔ یہ زخم کیسے بھرے گا ؟اس سوال کا جواب نواز شریف کے پاس الگ ہے اور شہباز شریف کے پاس الگ۔ نواز شریف طوفان اٹھا کر راستہ نکالنا چاہتے ہیں اور شہباز شریف موجوں سے بچ بچا کر نکل جانے کو محفوظ خیال کرتے ہیں۔شہباز شریف کی رائے کے ساتھ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی قوت ہے تو نواز شریف کے پاس ووٹوں کا خزانہ جس کے بل پر لوگ منتخب ہو کر پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں۔ رائے کا یہ اختلاف اٹھائیس جولائی کے بعد نواز شریف کی لاہور واپسی کے لیے جی ٹی روڈ اور موٹر وے کی بحث سے شروع ہوا اوربڑھتا بڑھتا باقاعدہ اختلاف بن گیا ہے۔ 
اختلاف کی دوسری وجہ مریم نواز ہیں۔ مریم بی بی بظاہر نواز شریف کی سیاسی جانشین ہیں اس لیے سیاسی مخالفین کا مستقل ہدف بھی ۔ نواز شریف نااہل نہ ہوتے تو مریم نواز کو شاید مسلم لیگ ن آئندہ کچھ عرصے میں اپنی مستقبل کی لیڈر کے طور پر قبول کرلیتی۔ مگر اس وقت ان کی وجہ سے پارٹی کی سینئر لیڈرشپ شدید اضطراب کا شکار ہے۔ یہ اضطراب اتنا بڑھ چکا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ان کی کابینہ کے چند وزراء نے مجبور کردیا کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف سے بات کرکے ''مریم نواز بمقابلہ حمزہ شہباز‘‘ مسئلہ حل کریں۔ اس پر شاہد خاقان عباسی نے شہباز شریف کو واضح لفظوں میں بتایا کہ پارٹی نواز شریف کے بعد شہباز شریف کو ہی قیادت کا اہل سمجھتی ہے، اگر قیادت مریم یا حمزہ کی طرف منتقل ہوئی تو پارٹی کے سینئر لوگ بھی آئندہ الیکشن سے دست کش ہوکر اپنے بچوں کو آگے کردیں گے پھر اس کا جو بھی انجام ہو۔ شاہد خاقان عباسی کی بات سن کر شہباز شریف نے واضح طور پر مستقبل کی قیادت کے بارے میں بحث ختم کرنے کے لیے کردار اداکرنے کا وعدہ بھی کرلیا مگر خودمختار اور پختہ عمر بچوں کی بے لگام خواہشات کو قابو میں رکھنا کتنا مشکل کام ہے ، یہ وہی جانتے ہیں جن کے بچے جوان ہیں۔ اس کا ثبوت شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کی ملاقات کے چند روز بعدمریم بی بی کے ایک امریکی اخبار کو انٹرویو کی صورت میں سامنے آگیا، لیکن بہرطور شہباز شریف نے یہ ممکن بنا لیا کہ دو دن پہلے لندن میں ہونے والے تین بڑوں کے اجلاس میں کوئی ''بچہ شریف‘‘ شامل نہیں ہوا۔ 
قاعدہ ہے کہ چھت نہ رہے تو دیواریں بھی زیادہ دیر سلامت نہیں رہتیں۔ مسلم لیگ ن کے لیے نواز شریف کی حیثیت ایک چھت کی طرح ہے، اگر نواز شریف نااہل ہی رہے تو اس کی دیواریں بھی زیادہ دیر تک سلامت نہیں رہیں گی۔ نواز شریف صرف وزارت عظمٰی سے نااہل ہوئے ہیں تو ان کی جماعت کی دیواریں لرزنے لگی ہیں۔ کچھ لوگ دبے لفظوں میں چودھری نثار علی خان کو درست سمجھتے ہیں تو کچھ کھلم کھلا مریم نواز کی جارحانہ حکمت عملی کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ البتہ طے ہے کہ مسلم لیگ ن کے وزراء اور اراکین ِ اسمبلی کی بھاری اکثریت آہستہ روی کی قائل ہے۔ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی، ہر پیشی پر احتساب عدالت کے سامنے کھڑے ہوکر عدالتی نظام پر سوالیہ نشان اٹھانا، سازش سازش کا واویلا کرنا یا باربار مجھے کیوں نکالا کا سوال اٹھانا ، سیاسی نظام میں ردعمل پیدا کرتا ہے۔ اسی ردعمل کے ممکنہ غیر جمہوری نتائج کی نشاندہی چودھری نثار علی خان بھی کررہے ہیں، شاہد خاقان عباسی بھی اور شہباز شریف بھی۔ نواز شریف صدمے کی کیفیت میں جن لوگوں سے غمگساری کی توقع لگائے بیٹھے تھے انہیں ناصح بنتے ہوئے دیکھ کر بے مزہ توہورہے ہیں مگر پوری طرح سمجھ نہیں پارہے۔ حالات کی بہترین اور بروقت تفہیم نواز شریف کی سیاست میں کامیابی کی بنیاد ہے ، نجانے کیوں اس بار وہ دیرکیے دے رہے ہیں؟ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کا جمہوری نظام چلتا رہا تو ان کے لیے بھی واپسی کا راستہ نکلے گا اور مریم نواز کے آگے بڑھنے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ طوفان اٹھا دینے سے یا زخم کریدتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved