باادب باملاحظہ ہوشیار‘ بہت بڑا تماشا لگنے والا ہے‘ ایسا کہ لوگ جی ٹی روڈ والے تماشے کو بھول جائیں گے۔ مزاحمت ہو گی اور پُوری پُوری کیونکہ سابق وزیراعظم کے پاس اور کوئی آپشن پچا ہی نہیں‘ اور یہ وہ کر نہیں سکتے کہ آرام آرام سے عدالتی کارروائی بھگتیں اور دیگر ملزمان سمیت اپنی کارگزاریوں کے گھاٹ اتر جائیں۔ یہ ان کی افتاد طبع ہی کے خلاف ہے۔ وہ ماشاء اللہ لوگوں کو سڑکوں پر لائیں گے اور احتساب عدالت کو زیادہ سے زیادہ غیر معتبر کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ مائنس ون فارمولہ اُنہیں ہرگز قبول نہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے یہ اصطلاح پارٹی کے اندر یا باہر کہیں سے بھی سنُنے میں نہیں آئی۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے سابق وزیراعظم کے پاس اور کوئی بھی آپشن نہیں رہ گیا۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘ چنانچہ وہ پیش بندی کے طور پر یہی ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ انہیں ایک سازش کا نشانہ بنایا گیا ہے‘ اسی لیے اُن کا نیا نعرہ یہ ہے کہ اُن کا فیئر ٹرائل نہیں ہو رہا جبکہ یہ تو وہ اور مریم نواز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ فیصلے کہاں سے آ رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ وہ سیاسی شہادت کا رتبہ ضرور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ فوجی نہ سہی‘ عدالتی شہادت ہی سہی اور اس کا ثبوت آپ کو آئندہ چند ہی دنوں میں ملنے والا ہے‘ خاطر جمع رکھیں۔
چوہدری نثار نے کہا تو ہے کہ پارٹی میں دو دھڑے ہیں‘ اعتدال پسند اور مزاحمتی۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پارٹی میں ایک ہی دھڑا ہے اور وہ ہے مزاحمت پسند۔ میاں شہبازشریف‘ جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مزاحمت کے خلاف ہیں‘ ان کی بھی برین واشنگ کر دی گئی ہے اور انہیں سمجھا دیا گیا ہے کہ اس طوفان میں آپ کے بچنے کے آثار بھی صفر کے برابر ہیں اور اعتدال کا راگ الاپنے کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ آپ کے لیے حدیبیہ پیپر ملزکیس ہی کافی رہے گا‘ اوپر سے ماڈل ٹائون انکوائری بھی کھلنے والی ہے جو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو گا‘ وغیرہ وغیرہ اس لیے آپ شہبازشریف کو بھی نوازشریف ہی کا ہم نوا پائیں گے شائدبلکہ اُن سے بھی چار ہاتھ آگے۔
شہبازشریف کو یہ بات بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نوازشریف کے بغیر اُن کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ نہیں بنا سکتے کیونکہ عوام میں مقبولیت نوازشریف کی ہے اور نوازشریف کے بعد اس کا فائدہ مریم نواز تو اٹھا سکتی ہیں‘ کوئی بھی اور نہیں‘ بیشک ان کی اپنی بھی صورتحال ان دوسروں سے مختلف نہیں ہے۔ یہی معاملہ چوہدری نثار کا بھی ہے وہ جتنے بھی اعتدال پسند ہوں۔ نوازشریف کے بغیر اُن کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے شریف برادران کے آئوٹ ہونے کے بعد نواز لیگ میں کسی بھی آدمی کے رہ جانے کی ہرگز کوئی اُمید نہیں کی جا سکتی۔
سو‘ نظر یہی آ رہا ہے کہ نوازشریف عوام کو اس ''بے انصافی‘‘ کے خلاف سڑکوں پر نکالیں گے جس کے جواب میں عمران خان بھی اپنے اعلان کے مطابق یہی کچھ کریں گے‘‘ اور عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر آپس میں ٹکرائے بغیر بھی رہ نہیں سکیں گے اور پھر وہ کچھ ہو گا جو نوازشریف چاہتے ہیں اور جس کی پلاننگ شروع ہی سے انہوں نے کر بھی رکھی ہے اور جو دما دم مست قلندر ہو گا وہ صرف نوازشریف ہی نہیں۔ عمران خان کو بھی سوٹ کرے گا اور یہ دونوں کی مجبوری بھی ہے۔
تاہم‘ یہ نوازشریف کے لیے بھی خیر اور سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔ انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ بات کہاں تک جائے گی اور خدانخواستہ اس کے مصداق بھی ہو سکتی ہے کہ ع
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
نوازشریف کو یہ تو یاد ہو گا ہی کہ وہ جب بھی برسراقتدار آئے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ ہی کے کندھوں پر سوار ہو کر آئے ہیں اور وہ ہر بار تخت پر سے اُتارے بھی اسی کے طفیل گئے ہیں۔ اب وہ اُتر تو پہلے ہی چکے ہیں اور ہل من مزید کی تکرار بھی کر رہے ہیں‘ اس لیے ؎
آپ بھی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
ایک بات کا خیال دوسرے فریق کو بھی رکھنا ہو گا‘ اور وہ یہ کہ اگر موصوف کو گاڈ فادر کا لقب مل چکا ہے تو وہ گاڈ فادر بن کر بھی دکھا سکتے ہیں‘ یہ کوئی حکومت یا جماعت نہیں‘ باقاعدہ ایک مافیا ہے‘ اور وہ مافیا جس کے پاس دولت بھی بے حساب ہو‘ کچھ بھی کر سکتا ہے‘ اس لیے اور باتوں کے ساتھ ساتھ مقابل فریق اور ان کے بال بچوں کی سکیورٹی کو بھی سخت اور فول پروف بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک بپھرا ہوا اور بھوکا شیر جو کچھ کر سکتا ہے اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔
نوازشریف فیملی کے لیے خیر اور سلامتی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ مزاحمت کو یکسر ترک کر کے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں نہ صرف یہ بلکہ ان اداروں اور قوم سے اپنی غلطیوں کی معافی بھی مانگیں اور عہد کریں کہ آئندہ اس طرح کی کسی شکایت کا موقعہ نہیں دیں گے اور جو کچھ کھایا پیا ہے قوم کو واپس کر دیں۔ مطلب یہ کہ اگر ہزاروں لوگ پلی بارگیننگ کر کے اپنی جان چھڑا چکے ہیں تو نوازشریف کیوں نہیں۔ بیشک یہ موصوف کی افتاد طبع کے خلاف ہو گا لیکن اگر وہ واقعی تاجر ہیں‘ تو تاجر کبھی گھاٹے کا سوا نہیں کرتا اور نہ ہی اُسے کرنا چاہیے۔ وہ اپنی پالیسیوں سے بھی دست کش ہو سکتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہیں۔
یہ معروضات اس لیے اور صرف اس لیے ہیں کہ ہم نوازشریف کو کھونا نہیں چاہتے۔ اس ٹوٹی پھوٹی جمہوریت میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ یہ کوئی دھچکا برداشت کر سکے کہ بار بار کی مداخلت کی وجہ سے کوئی قابل ذکر سیاسی لیڈر پیدا ہی نہیں ہو سکا۔ سو‘ ایک سُدھرا ہوا نوازشریف قوم اور ملک کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ انتہا پسندی موصوف کو کسی خوفناک گڑھے میں تو گرا سکتی ہے سرخرو ہرگز نہیں کروا سکتی ؎
مانیں نہ مانیں جان جہاں‘ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
آج کا مطلع
دریا میں اُترنا نہ کنارے سے نکلنا
مُشکل ہے بہت خواب تمہارے سے نکلنا