گورے شرفا کی حکومت اسی طرح بجلی پیدا کرنے پر ڈٹی رہی تو وہ دن دور نہیں‘ جب پوری پاکستانی قوم کے چہروں کے رنگ بدل جائیں گے۔جو پہلے گورے ہیں‘ وہ سانولے ہو جائیں گے۔ جو سانولے ہیں‘کالے ہو جائیں گے۔اور جو کالے ہیں‘ انہیں یہاں پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ‘افریقہ جائیں گے اور انہیں پیک کر کے لے آئیں گے ۔یہی وہ چیز ہے جو قوموں کو کالا بناتی ہے۔کالے بڑے جفا کش لوگ ہوتے ہیں۔ بڑے محنتی ہوتے ہیں۔ان کے دانت انتہائی سفید ہوتے ہیں اوران کے منہ‘ چہرے کے کالے رنگ میں خوب کھلتے ہے۔ خواتین دن رات محنت کر کے‘ اپنے ہونٹوں کو جیسے لال کرتی ہیں‘ وہ کالے کے منہ کی لالی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔یہ بات برسبیل تذکرہ آگئی۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں کوئلے سے بننے والی بجلی کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے پنجاب کے یورپی طرز کے وزیراعلیٰ ‘ کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع کرنے والے ہیں ۔ میں نے نوے کی دہائی میں‘ چین کے ایک سے زیادہ دورے کئے تھے اور ہر دورے کے بعد‘ میرا سانولا رنگ‘ پہلے سے زیادہ گہرا ہوتا گیا۔ ہردورے کے بعد میں ڈر جاتا کہ اگر میں نے چین کے زیادہ دورے کر لئے تو مجھے کالے رنگ کی قوم میں شامل ہونے کا اندیشہ نہیں بلکہ خوف پیدا ہوجائے گا ۔ اب مجھے چین گئے کافی عرصہ ہو گیا ہے اور میں نے خدا کا شکر کیا کہ مجھ پر کالے پن کی جو یلغار شروع ہوئی تھی‘ وہ یقیناً رک جائے گی۔چین کے جن صوبوں میں کوئلے سے بجلی پیدا ہو رہی ہے‘ وہاں کارخانوں کے گردونواح میں‘ بسنے والے چینی‘ جو اچھے خاصے گورے ہوتے ہیں‘ ان کے رنگ بھی سانولے نظر آنے لگے ۔
پنجاب میں وہ بھی ساہیوال میں‘ جب آنے والے دنوں کے وزیراعظم نے‘ کوئلے سے بجلی پیدا کرنا شروع کر دی تومیں نے جس خوف سے چین جانا چھوڑ دیا تھا‘پاکستان آکر سمجھا کہ اب کالا سیاہ ہونے سے بچ جائوں گا لیکن خطرہ اپنے ہی وطن میں جنم لے رہا ہے ۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی فیکٹری لگا کر‘ لال سرخ چہروں کے قدرتی رنگ ‘گہرے گندمی کر ڈالے ہیں۔ بلکہ یوں کہیں کہ امریکہ نے جو گندم ہمیں دوستی کی بنیاد رکھنے کے لئے دی‘اس کا آٹا تو سفید ہو گیا۔ ہمارے لیڈر بھی امریکی تحفہ قبول کر کے بہت خوش ہوئے۔مگر جیسے جیسے اس امریکی گندم کا آٹا ہم کھاتے گئے‘ ہمارے خون سفید ہوتے گئے۔ آپ اپنے اہل سیاست کا جائزہ لے کر دیکھ لیں۔جب امریکی گندم پاکستان میں آنا شروع ہوئی تو پاکستان کی گندم دنیا کی خوبصورت ترین گندم میں شمار ہوتی تھی۔ہمارے ستلج‘ راوی اور چناب کے پانیوں سے نکھری ہوئی گندم‘ خوب صورت ہی نہیں‘ بے حد ذائقے دار بھی تھی۔ اگر میں پرانے دنوں کی کھائی ہوئی روٹیاں یاد کروں تو آج بھی اس گندم کو یاد کر کے منہ سے خوشگوارمہک آنے لگتی ہے ۔ بہت سے پرانے زمیندار آج بھی ‘اپنے خاندان کے لئے تھوڑے سے کھیتوں میں‘ اپنی روایتی گندم پیدا کر لیتے ہیں ۔ جب خاص مہمان آتے ہیں تو انہیں بھی اس گندم سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔
لیکن جب سے ہمارے وزیراعلیٰ نے خادم اعلیٰ بن کر‘ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ارادے پر عمل کر دکھایا ہے توسارے اہل پنجاب اپنے انجام سے ڈرنے لگے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اپنا نام خادم اعلیٰ رکھا تو ساہیوال کی ساری بستیوں میں خوف کی لہر دوڑ
گئی۔جب میاںشہبازشریف نے خادم اعلیٰ کا تخلص اختیار کر کے‘ کوئلے سے بجلی بنانے کی دھمکی دی تو گردونواح کے گندمی کسان خوف سے دھندلانے لگے۔ہمارے قصبوں اور دیہات میںکچے گھروں کے بیرونی کمروں میں‘ لوہے کی بھٹیاں لگائی جاتی تھیں اور لوہا جب سرخ ہوتا توگھر کے سارے جوان ‘سرخ لوہے کو بڑے بڑے ہتھوڑوں سے‘ پیٹ کر برتنوں کی شکلیں نکالتے۔لیکن ایسی بھٹیوں کی تعداد بہت کم ہوتی۔ لوہار سادہ لوح دیہاتیوں کے سادہ سے برتن بنا کر اپنا کام چلا لیتے۔ان بھٹیوں سے نہ تو کالی گرد نکلتی۔ بلکہ بکھرتے ہوئے دھوئیں کے اندر چمکتی چنگاریاں ‘بجھتی ہوئی ریشمی راکھ‘ ہوا کے جھونکوں پر نثار ہو جاتیں۔ان چنگاریوں کی ریشمی راکھ‘ تازہ ہوائوں سے چہلیں کر تے ہوئے‘ شہروں اور دیہات کے ماحول میں اپنی چمک یوں چھوڑتی ہوئی رخصت ہو جاتیں جیسے رات کے اندھیروں میں جگنو چمکتے ہوں۔ہمارے ملک کے موجودہ حکمرانوں میں‘ ایسے لوہار ہیںجو کوئلوں کے اندر سے چنگاریاں نکال کر‘ شہریوں اور دیہاتیوں کے منہ پر راکھ مل دیتے ہیں۔ حکمران خاندان نے ہمارے شہروں اور بستیوں پر راکھ کے بادل پھیلانا شروع کر دئیے ہیں۔ میں کوئلے سے بنتی ہوئی بجلی کا ماحول چین میں دیکھ کر آیا ہوں۔ جن قوموں نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی راہ نکالی‘ آج وہ پچھتا رہی ہیں۔ ہر چند پانی کے دھاروں سے نکلنے والی بجلی‘ کوئلے سے نکالی گئی بجلی کے مقابلے میں ہزار درجے بہتر ہے۔ اگرکوئلوں سے نکالی گئی بجلیاں ہمارے گھروں کو چمکانے لگیں تو کوئلوں کی راکھ ہمارے رنگ کالے کرتے کرتے‘ وہ حالت کرے گی کہ جب افریقہ سے آئی کرکٹ ٹیم‘ ہمارے کسی گرائونڈ میں کھیلے گی تو شائقین کے لئے پہچاننا مشکل ہو جائے گا کہ چوکا مارنے والا کھلاڑی‘ مہمان ٹیم کا ہے یا ہمارا؟
کالیاں اِٹّاں کالے روڑ
چھڑک دے بجلی زور و زور