تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-11-2017

کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت

بحر میں دریا میں اُتر چکے تو دیکھنے والوں کو یقین آئے گا۔ وقت کا سمندر بہرحال خاموش رہے گا۔ زبان حال سے اگرچہ دائم وہ پکارتا رہے گا۔ 
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے‘ اتنا ہی وہ خاموش ہے
شعیب بن عزیز کے سب شعر نقل نہ ہوئے تھے۔ چند ایک بچ رہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
لے یہاں تازہ شکستوں کی لکیریں رقم کر
تونے جو اس ہاتھ پہ لکھا ہوا تھا‘ ہو گیا
شعیب کا نام ایک عالی قدر پیغمبر کے نام پر رکھا گیا۔ اس نام کا نتیجہ ہے‘ الٰہیات‘ غیرمعمولی یادداشت اور قوّتِ متخیلہ کی زرخیزی۔ نام رکھنے سے سب خصوصیات تو نہیں آتیں۔ یہ نہیں کہ 
اگر کوئی شعیبؔ آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
نبوت کا توخیر‘ اب سوال ہی کیا۔ عظمت کے لیے بہرحال‘ آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ بہرحال فکر کو راست رکھنا ہوتا ہے۔ اللہ کی رحمت اس میں مددگار ہوتی ہے۔ پیغمبروں کا کیا مقام‘ فقط ان پہ رشک ہی کیا جاسکتا ہے‘ہاں البتہ قادیان کا غلام احمد ۔ منیر نیازی سے پوچھا گیا کہ شاعری کی تاریخ میں فلاں آدمی کا مقام کیا ہے۔ ارشاد کیا: وہی جو 1,24,000 پیغمبروں میں غلام احمد قادیانی کا۔
چالیس برس ہوتے ہیں۔ پنجاب سیکرٹریٹ میں کسی کو مغالطہ ہوا یا شاید کسی نے کہانی تراشی کہ شعیب بن عزیز‘ قادیانیوں سے رہ و رسم رکھتے ہیں۔ ایک کم بخت نے افواہ پھیلائی کہ انہی میں سے ایک ہیں۔ غلام گردش میں وہ بدنہاد لپک کر آگے بڑھااور یہ کہا ''آپ تو ہمارے بھائی ہیں۔‘‘ شاعر رُکا مگر اس نے یہ کہا ''آپ کو مغالطہ ہوا۔ میرے چہرے پر جو پھٹکار پڑی ہے‘ اس کے اسباب دوسرے ہیں‘‘۔
اللہ نے انسانوں میں کمزوریاں شاید اسی لیے رکھی ہیں کہ غضب میں طوفان نہ ہو جائیں‘ ورنہ کوئی بھی پہاڑ کے بوجھ تلے کچلا جاتا۔ اردو کا وہ محاورہ کیا ہے: اب آیا‘ اونٹ پہاڑ کے نیچے۔
شہبازشریف کا قافلہ پاکستان سے لندن کے لیے روانہ ہوا تو اس نے تہیہ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ریلوائی کے وزیر خواجہ سعد رفیق سمیت‘ سبھی نے۔ یہ کہ ایک مطالبہ بہرحال منوایا جائے گا۔ عدالتی فیصلے سے مجروح اور پابند‘ نوازشریف اگر نہیں تو شہبازشریف ان کے جانشین ہوں گے۔ منگل کی شام تک خبر یہ تھی کہ قائداعظم ثانی نے انہیں دھتکار دیا ہے۔ جواب طلبی کی اور برا بھلا کہا۔ پوچھتے رہے کہ آپ کو اس انداز میں سوچنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ بدھ کی صبح طلوع ہوئی تو خبر آئی کہ وہ مان گئے اور بالکل ہی مان گئے۔
کچھ نہ کچھ اس کے آثار منگل کی شام ہی سے ہویدا تھے۔ خواجہ سعد رفیق نے اعلان فرما دیا تھا کہ محترمہ مریم نواز اور مکرّم حمزہ شہباز شریف لیگ والوں کے بہن بھائی ہیں‘ لیڈر نہیں۔ لیڈر نوازشریف ہیں یا شہبازشریف۔ بدھ کی سویر یہ انکشاف ہوا کہ عملاً تو شہبازشریف ہی واقع ہوئے ہیں۔ وزیراعظم بھی وہی ہوں گے۔ اِلاّیہ کہ نوازشریف غالب آئیں۔ اگر وقت کی بساط پلٹ ڈالیں۔ اگر تاریخ کا پہیہ وہ اُلٹا گھما دیں۔ تاریخ کا پہیہ کون الٹا گھما سکتا ہے؟ وقت کی بساط‘ شاعر عبدالحمید عدم کے سوا کون پلٹا سکتا ہے؟ جس نے کہا تھا:
کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اُٹھا کے لا
اور جس نے یہ کہا تھا:
میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا
فیض احمد فیضؔ کی طرح‘ عدمؔ یہ التزام اس طرح کرتے کہ پہلی ضرب پڑتے ہی‘ بادہ و جام کی پناہ ڈھونڈتے‘ خواہ یہ آغازِ سحر ہی کیوں نہ ہو۔ گرامی قدر استاد انیس احمد اعظمی‘ عید کی سویر‘ عدمؔ سے ملنے گئے تو انہیں اسی حال میں پایا۔ لحاف اوڑھے‘ بستر پہ دراز‘ عالمِ پرواز میں۔
اے جذبۂِ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لئے دوگام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
شعر اچھا ہے ‘ہر بار قابل تحسین۔ مگر یہ کہ منزل کبھی مسافر کے پاس نہیں آتی‘ مسافر کو منزل پہ پہنچنا پڑتا ہے۔ فقط ریاضت اور منطق ہی سب کچھ ہوتا تو آدمیت سائنس دانوں کی دہلیز پہ جھکتی۔ فقط ادراک‘ الفاظ اور حسنِ بیان ہی سب کچھ ہوتے تو شاعروں کی اُمتیں ہوا کرتیں‘ انبیاء کی طرح غالب کی اقتدا میں برصغیر اس کا راگ الاپتا ۔
ہم موحد ہیں‘ ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
امتیں جب مٹ گئیں‘ اجزائے ایماں ہو گئیں
جہالت کی اقسام میں سے ایک یہ ہے کہ ادبی جمالیات کو زندگی کی تمام تلخ و شیریں سچائیوں کا متبادل مان لیا جائے۔ اپنے عصر کا فہم پانے کے لیے سرسید احمد خان کو غالبؔ کی ضرورت تھی۔ مسلمانوں کو زمانے کے ساتھ رواں رہنے کے لیے سرسید احمد خان کی تجویز کردہ کڑوی دوا نگلنے کی۔ اگر انکار کردیا ہوتا تو ہمار ا انجام افغانستان کے ساتھ رقم ہوتا۔ سرسید احمد خان نے شہنشاہ اکبر کی رُوداد ''دربار اکبری‘‘ کا ترجمہ کیا تو غالبؔ نے کہا: کیا دیوانے ہوئے ہو‘ دنیا بدل گئی اور اب تک عالی جناب ماضی میں زندہ ہیں۔
مسلمانوں کا المیہ یہی ہے ‘ وہ ماضی میں جیتے رہنے کے تمنائی ہیں۔ جناب ابوطالب مسلمان ہوگئے تھے یا نہیں۔ سیدنا علیؓ ابن ابی طالب اور امیر معاویہؓ کے تنازعے میں کیا ایک حق پر تھے یا دونوں ہی؟ جناب ابو طالب کے اسلام کا فیصلہ کبھی نہ ہو سکے گا۔ بالفرض ہوجائے تو کیا‘ اُمت کا درد زائل ہو جائے گا؟ سیدنا علیؓ ابن ابی طالب حق پر تھے۔ 99 فیصد مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں‘ خواہ وہ اعلان نہ کرتے پھریں۔ اس اتفاق رائے سے‘ حاصل کیا ہوا؟ اہل بیت ؓسے عناد رکھنے والا‘ گم کردہ راہِ منکرینِ حدیث کا چھوٹا سا ٹولہ اس کے باوجود‘ اپنا کاروبار خوبی سے چلا رہا ہے۔ صرف پی ٹی وی ہی نہیں ایک ایک چینل پہ جگمگا رہا ہے۔ 
گزشتہ چند ماہ کے دوران ایک ایک قدم پہ چوہدری نثار علی خان کا تجزیہ درست ثابت ہوا۔ جذباتی اور جنونی لوگوں کے سوا‘ سب ان سے متفق ہیں۔ فائدہ ادھورا ہے۔
بحر میں دریا میں اتر چکے تو دیکھنے والوں کو یقین آئے گا۔ وقت کا سمندر بہرحال خاموش رہے گا۔ زبان حال سے اگرچہ دائم وہ پکارتا رہے گا۔ 
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے‘ اتنا ہی وہ خاموش ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved