تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     02-11-2017

Finish it!

عہدِ حاضر کی سیاست میں مستعمل دوالفاظ کا مفہوم میرے لیے ناقابلِ فہم ہو تا جا رہا ہے۔یہ الفاظ ہیں:مفاہمت اور تصادم۔
اپنے اور غیر ، سب نوازشریف صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اداروں کے ساتھ تصادم سے گریز کریں۔شہبازشریف صاحب کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست کے علم بردار ہیں۔یہ دو الفاظ بہت کثرت سے استعمال ہو رہے ہیں مگر مجھے خیال ہو تا ہے کہ یہ الفاظ جن کی لغت کا مستقل حصہ ہے،وہ بھی اس تضاد سے واقف نہیں جو ان الفاظ کے استعمال سے ان کے موقف میں در آیاہے۔
تصادم کے لیے کم از کم دو فریق ضروری ہیں۔ زیادہ کی قید نہیں۔جب نوازشریف صاحب کو یہ مشورہ دیا جا تا ہے کہ وہ تصادم سے گریز کریں تو اس کا ایک مفہوم تو لازم ہے:مشورہ دینے والا جانتا ہے کہ کم از کم ایک دوسرا فریق بھی ہے۔ایک تو معلوم ہے: نوازشریف۔یہ دوسرا کون ہے؟ایک ہے یا کئی؟چوہدری نثار علی بھی نوازشریف کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ تصادم سے گریز کریں۔اس کے ساتھ وہ اس پر بھی اپنی دو ٹوک رائے دے چکے کہ اس سارے قضیے میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج کے ساتھ تو کوئی تصادم نہیں۔گویایہ کوئی اور ہے۔
تو کیایہ عدلیہ کے ساتھ تصادم ہے؟اب عدلیہ اپنے فیصلے کر رہی ہے۔ نوازشریف صاحب عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ عدالتی فیصلے سے متاثر ہونے والا ہر آ دمی یہی کہتا ہے۔اس میں تصادم کہاں ہے؟پھر وہی بات کہ اگر عدالت فریق نہیں ہے تو تصادم کیسا؟پھر تو یہ عدالتی فیصلے سے متاثر ایک فریق کا واویلا ہے اور بس!
اب آئیے مفاہمت کی طرف۔ اس کے بھی کم از کم دو اجزائے ترکیبی لازم ہیں: ایک اختلاف اور دوسرا ایک سے زیادہ فریق۔مفاہمت کے لیے پہلے سے کسی جھگڑے کا وجود ضروری ہے۔جھگڑا نہیں ہے تو مفاہمت کیسی؟اب جھگڑے کے لیے قضیے اور دوسرے فریق کا ہونا لازم ہے۔سوال یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب کس کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں؟جھگڑا کس کے ساتھ اور کس بنیاد پر ہے؟یہ ہمیں بتایا گیاہے کہ فوج تو فریق نہیں۔تو کیا وہ عدالت سے مفاہمت چاہتے ہیں؟
اب اگلا سوال یہ ہو گا کہ عدالت سے مفاہمت کا کیا مطلب ہے؟عدالت تو قانون ا ور انصاف کے مطابق فیصلے دے رہی ہے۔عدالت سے مفاہمت کا مفہوم اس کے سوا کیا ہو سکتاہے کہ آپ عدالت کی ساکھ کو چیلنج کر رہے ہیں۔آپ بین السطور یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت سے معاملہ ہو سکتا ہے۔کیا شہبازشریف صاحب کے نزدیک مفاہمت کا یہی مطلب ہے؟
مفاہمت اور تصادم کے الفاظ استعمال کرنے والے معلوم نہیں اپنے موقف کے اس تضاد سے واقف ہیں یا نہیں؟جب تک وہ دوسرے فریق کے وجود کا اعلان نہیں کرتے،ان کی گفتگو کے یہ الفاظ مبہم ہیں۔انہیں بتانا پڑے گا کہ نوازشریف کس کے ساتھ تصادم کی راہ پر ہیں اور شہبازشریف کس سے مفاہمت چاہتے ہیں؟ان پراس سوال کا جواب بھی لازم ہے کہ نوازشریف سے وہ کیا چاہتے ہیں اور یہ کہ نوازشریف کیا چاہتے ہیں؟نوازشریف کا ایک موقف اعلانیہ ہے۔کیا وہ اس کے علاوہ بھی کچھ چاہتے ہیں؟
تصادم اور مفاہمت کی بات میں بھی کرتا ہوں۔میرے کالموں میں بھی یہ الفاظ پائے جاتے ہیں۔میں لیکن واضح ہوں کہ اس تصادم میں ایک سے زیادہ فریق ہیں اور ہر کوئی انہیں جانتا ہے۔میں قضیے کی نوعیت سے بھی واقف ہوں۔میں جب عصری سیاست کے تناظر میںمفاہمت کی بات کرتا ہوں تو مجھے معلوم ہے کہ یہ کس کے ساتھ مفاہمت کی بات ہو رہی ہے اور اس مفاہمت سے کیا مراد ہے۔
پاکستان کی سیاست اور میڈیا کا مسئلہ اب یہ ہو گیا کہ لوگ ادھوری بات کہتے اور لکھتے ہیں۔سیاست بھی علامتی ہے اور صحافت بھی۔ہر کسی کے سینے میں راز ہیں مگر کوئی اُگل نہیں رہا۔نوازشریف کہتے ہیں کہ وہ بہت سے راز چھپائے ہوئے ہیں۔چوہدری نثار علی خان کے پاس بھی بہت سے راز ہیں کہ کس طرح قومی سلامتی کو خطرات درپیش ہیں۔قوم کو مگر کوئی یہ نہیں بتا تا کہ یہ راز کیا ہیں؟قومی سلامتی کو کیا خطرات درپیش ہیں اور قوم کو اس صورتِ حال میں کیا کر نا چاہیے؟ 
میرا احساس ہے کہ جو لوگ باخبر ہیں یا صاحبانِ اختیار ہیں،انہیں پہیلیاں نہیں بُھجوانی چاہئیں۔ انہیں واضح لفظوںمیں اپنی بات کہناچاہیے۔اس وقت ناگزیر ہے کہ قوم میں درپیش مسائل کے بارے میں بڑی حد تک ہم آہنگی ہو۔ اس کے بعد سیاسی راہنما دو ٹوک لہجے میں یہ بتائیں کہ ان کے پاس ان مسائل کا حل کیا ہے۔ قوم کی اکثریت جس حل کو درست سمجھتی ہے،اسے قبول کر لیا جائے۔ مزید ابہام خرابی میں اضافے کا سبب بنے گا۔
میڈیاکا غالب حصہ نوازشریف صاحب کی یک طرفہ کردار کشی پر مامور ہے۔معاملات تہمت سے بھی آگے نکل چکے۔یہی لوگ بے یقینی بھی پھیلا رہے ہیں۔ملکی معیشت کے بارے میں ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ چند لمحوں کی مہمان ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ نوازشریف صاحب کو اس کا نقصان ہو یا نہ ہو،ملک کو ضرور ہو گا۔حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ملک اور لوگوں کو زیادہ اذیت میں نہ رکھا جائے۔جو بات ہے،وہ صاف کہہ دینی چاہیے۔ان حالات میں کون کس کو جواب دہ ہے؟کون کس کا محتسب ہے؟
میرے نزدیک اس وقت کشمکش اپنے عروج پر ہے۔ اس کشمکش میں ایک فریق نوازشریف صاحب ہیں اور دوسرا 'مقتدر حلقے‘۔ان ہی کے درمیان تصادم ہے اور ان ہی میں مفاہمت کی ضرورت ہے۔اب ایک بات لازم ہے۔ مفاہمت کی بات کرنے والے واضح لفظوں میں بتائیں کہ ان کے پاس اس کا فارمو لہ کیا ہے؟مفاہمت، ظاہر ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوگی۔اس فارمولے کے تحت دونوں فریق ایک دوسرے کو کیا دے سکتے ہیں؟ اگر یہ فارمولہ تنازع کے تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو گا تو مفاہمت ہو جا ئے گی۔
ہماری تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں مو جود ہیں۔ماضی قریب میں بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف کے درمیان ہونے والا ایک این آر اوبھی ایسا ہی ایک فارمولہ تھا۔یہ کوئی مثالی معاہدہ نہیں تھا مگر ملک کو بھنور سے نکالنے کے لیے ناگزیر تھا۔ ہمارے لوگ قوم سے کبھی سچ نہیں کہتے۔مقتدر قوتوں سے رات کے اندھیروں میں معاملہ کرنے والے این آر او کی مخالفت کرتے ہیں۔قوموں کو ایسے معاہدوں کی ضرورت پڑتی ہے۔تاہم لازم ہے کہ یہ اعلانیہ ہوں تا کہ قوم حقیقت سے واقف ہو۔
چوہدری نثار علی خان جیسی سیاسی شخصیات اپنے بارے میں یہ تاثر قائم کرنا چاہتی ہیں کہ وہ 'ذاتی مفاد‘ کی اس سیاست میں فریق نہیں۔ان پرزیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا تجویز کردہ حل قوم کے سامنے رکھیں۔وہ بتائیں کہ وہ جس مفاہمت کی بات کر رہے ہیں،اس میں دوسرا فریق کون ہے اورفریقین کے مابین مفاہمت کی صورت کیا ہو گی۔میرا خیال ہے کہ ان کی بات توجہ سے سنی جائے گی ا ور امید کی جا سکتی ہے کہ ان کے فارمولے کو پذیرائی ملے۔محض 'مفاہمت‘ اور' تصادم‘ کی بات صرف ابہام پیدا کررہی ہے۔ 
بھٹو صاحب کے بارے میںغالباً کرنل رفیع صاحب کی روایت ہے کہ پھانسی سے پہلے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جن کا مقصد ان کی اذیت کے دورانیے کو طویل کر نا تھا۔ اس سے تنگ آکر انہوں نے کہا:Finish it (اس تماشے کو ختم کرو)۔کہتے ہیں کہ یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔میں بھی اربابِ بست و کشاد سے یہی درخواست کروں گا کہ وہ قوم کی اذیت کے لمحات کو کم کریں اوراز رہِ کرم:Finish it۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved