تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-11-2017

ترقیٔ معکوس

ہمارے ہاں اوّل تو معاملات ہلے جلے بغیر ایک ہی جگہ پر کھڑے ہیں اور برسوں بلکہ عشروں بعد بھی اپنی جگہ پر جمے کھڑے ہیں۔ دنیا اس دوران کہیں کی کہیں پہنچ گئی مگر شاباش ہے ہماری ثابت قدمی پر کہ ہم وہاں سے رتی برابر بھی نہیں ہل رہے۔ مجھے سدا سفر درپیش رہتا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی ترقی سے آگاہی ہوتی رہتی ہے‘ دوسری طرف ہمارے ہاں جیسا کہ بتا چکا ہوں ایک عجیب ٹھہرائو سا ہے۔ دنیا ترقی کر رہی ہے مگر ہم ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔ عشروں سے ایک جمود طاری ہے۔ اگر ترقی ہو رہی ہے تو اسے آپ بلاخوف و خطر ''ترقی معکوس‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ لوگ آگے جا رہے ہیں جبکہ ہم پیچھے کی طرف...
گذشتہ ایک ہفتے سے مسلسل سفر میں ہوں۔ ملتان سے لاہور‘ لاہور سے ناروے جانا تھا سوچا کہ اس طویل سفر سے پیشتر پانچ سوا پانچ گھنٹے کے سفر میں تھوڑی بچت کر لی جائے اور ہوائی سفر کے ذریعے اس کو مختصر کر لیا جائے مگر یہ ممکن نہ تھا۔ ملتان سے لاہور اب ہفتے میں صرف پروازیں جاتی ہیں۔ سوموار اور بدھ کے روز۔ بقیہ پانچ دن چھٹی ہے۔ کبھی ملتان سے لاہور روزانہ پرواز جایا کرتی تھی۔ پھر چار دن ہوئی۔ اور اب صرف دو دن یہ ترقی معکوس کی ایک مثال ہے۔
خیر ملتان سے لاہور پہنچا۔ لاہور سے اوسلو (ناروے) سے اگلے روز سٹاونگر۔ پھر سٹاونگر سے واپس اوسلو۔ اوسلو سے کوپن ہیگن (ڈنمارک) وہاں سے سویڈن اور پھر واپس کوپن ہیگن۔ یہ تو وہ سفر تھا جو کر لیا ہے ابھی کل علی الصبح یہاں سے مالاگا (سپین) روانگی ہے۔ وہاں سے پیرس (فرانس) پھر برطانیہ اور وہاں سے امریکہ۔ لیکن ابھی فی الحال صرف لاہور۔ لاہور سے اوسلو کے لیے پی آئی اے کی پرواز تھی۔ ڈیپارچر لائونج میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ہمارے پاس اپنے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی نہیں ہے۔ پوچھا کہ آخر اس پخ کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارا پاسپورٹ ماشاء اللہ سے مشین ریڈایبل پاسپورٹ ہے اور پوری دنیا میں بلا فوٹو کاپی چل رہا ہے۔ پاسپورٹ کے پہلے ہی صفحے پر ایک مشین ریڈایبل پٹی لگی ہوتی ہے جو پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہے اور پی آئی اے کے ٹکٹنگ کائونٹر پر موجود ہر کمپیوٹر پر اسے پڑھنے کا معقول بندوبست ہے مگر پی آئی اے شاید دنیا کی واحد اور آخری ہوائی کمپنی بچی ہے جو مسافر سے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی مانگتی ہے۔ لائونج میں اس مصیبت سے چھٹکارے کے لیے فوٹو کاپی والا بھی بیٹھا ہوا ہے جو یہ سہولت بازار سے دس گنا رقم پر فراہم کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اس ساری امداد باہمی کے فیوض و برکات اوپر تک جاتے ہوں گے۔ سو ہم نے بھی یہ فوٹو کاپی دس گنا رقم پر کروائی اور سائیڈ پر بیٹھے ہوئے ایک افسر کے سامنے پیش ہو گئے۔ ہم سے مراد میں اور محترم امجد اسلام امجد تھے وگرنہ یہ عاجز ابھی خود پسندی کی اس منزل پر نہیں پہنچا جہاں بندہ خود اکیلے کو بھی ہم سے مخاطب کرنے لگ جاتا ہے۔
لائونج کی ایک دیوار کے ساتھ لگی کرسیوں پر دو پی آئی اے افسران براجمان تھے۔ جونہی انہوں نے دو شرفا کو اپنی طرف آتے دیکھا وہ پیشہ ور شکاریوں کی طرح چوکس ہو گئے۔ ہم نے اپنے پاسپورٹ بمعہ فوٹو کاپی ان کے ہاتھ میں پکڑا دیئے۔ انہوں نے ہمارے پاسپورٹ کو خوب اچھی طرح دیکھا۔ فوٹو کاپی پر اچٹتی سی نظر دوڑائی اور ہم دونوں کو ویزوں والے صفحات میں انگلیاں پھنسا کر ہمارا باقاعدہ انٹرویو شروع کردیا۔ پہلی باری امجد صاحب کی تھی۔ پوچھنے لگا آپ کے پاس ڈنمارک کا ویزہ ہے اور آپ ناروے کیوں جا رہے ہیں؟ امجد صاحب نے کہا کہ ویزہ بے شک ڈنمارک کا ہے مگر یہ ''شینجن ویزہ SEHENGEN ہے اور پورے یورپ کے لئے کارآمد ہے۔ وہ افسر کہنے لگا ہمیں پتا ہے مگر پھر بھی پوچھنے میں کیا حرج ہے؟ اس پر مجھے سکھوں کا پرانا لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک سردار اپنے گھوڑے پر جا رہا تھا۔ راستے میں اسے اپنا نوکر نظر آیا۔ اس سے پوچھنے لگا اوئے بلونت سنگھا! ساڈا گھوڑا کتھے وے (اوئے بلونت سنگھ! ہمارا گھوڑا کہاں ہے؟) نوکر کہنے لگا۔ سردار جی! آپ اپنے گھوڑے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سردار نے ہاتھوں سے اپنے گھوڑے کے دونوں کانوں کو چھوا اور پھر کہنے لگا۔ پتا تے مینوں وی سی‘ پر فیر وی پچھن وچ کیہہ حرج اے (پتا تو مجھے بھی تھا۔ مگر پھر بھی پوچھنے میں کیا حرج ہے) پھر وہ پی آئی اے افسر پوچھنے لگا آپ پہلے ڈنمارک کب گئے تھے؟ امجد صاحب نے بتایا کہ چند ماہ پیشتر وہ ڈنمارک گئے تھے۔ پاسپورٹ پر لگے ہوئے بے شمار ویزے اور اس سے بھی کہیں زیادہ امیگریشن کی مہریں یہ بتا رہی تھیں کہ وہ بہت زیادہ سفر کرنے والے شخص کا پاسپورٹ پکڑے ہوئے ہے مگر وہ پھر کسی نہ کسی طریقے سے تنگ کر کے پا پھانس کر اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں تھا مگر اسے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ اب وہ میری طرف آ گیا۔
میرے پاسپورٹ پر بلجیم کا ویزہ تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں نے کہاں جانا ہے۔ میں نے کہا فی الوقت تو ناروے جا رہا ہوں۔ مجھ سے بھی وہی سوالات۔ ویزہ بلجیم کا ہے اور آپ ناروے کیوں جا رہے ہیں؟ میں نے بھی بتایا کہ یہ ویزہ سارے یورپ کے لیے کارآمد ہے اور میں اس پر یورپ کے بائیس ممالک میں سفر کر سکتا ہوں۔ وہ کہنے لگا مجھے پتا ہے۔ مگر آپ بتائیں کہ آپ نے اس سے پہلے بلجیم کے ویزے پر سفر کیوں نہیں کیا؟ میں نے کہا سفر کرنا یا نہ کرنا میری مرضی پر منحصر ہے۔ ویسے بھی ویزہ لگنے کے بعد سفر نہ کرنا جرم نہیں ہے۔ پھر پوچھنے لگا آپ نے کبھی ناروے کا پہلے سفر کیا ہے؟ میں نے کہا گزشتہ سال کیا ہے اور اس کا ویزہ بھی اسی پاسپورٹ پر لگا ہوا ہے۔ دو صفحات پیچھے ناروے کا ویزہ بھی لگا ہوا تھا۔ پھر پوچھنے لگا آپ کس کس ملک میں جائیں گے؟ میں نے کہا دو دو‘ تین تین‘ دن رکوں گا قبل اس کے کہ وہ اگلا سوال کرتا میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اب وہ باقی سوالات ناروے کی امیگریشن کے لیے چھوڑ دے وہاں بھی تقریباً اسی قسم کے سوالات پوچھے جائیں گے؟ افسر نے شرمندہ ہوئے بغیر میرے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی پر اپنے دستخط فرمائے اور ہمیں پکڑا دی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے سوائے اس کے کہ اس فوٹو کاپی والے چکر میں فوٹو کاپی مشین والے اور دستخط کرنے والے کے فائدے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نظرنہیں آیا۔ کہ دنیا کہیں پہنچ گئی ہے اور دنیا بھر میں کسی ایئر پورٹ پر پاسپورٹ کی فوٹو کاپی اور اس پر سوالات کرنے والے کسی افسر پر کم از کم اس عاجز کی تو کبھی نظر نہیں پڑی۔
اس سارے عمل کے دوران مجھے ایک اور چیز یاد آ گئی برسوں پہلے ایک بار راولپنڈی کے سیٹلائٹ ٹائون سے گزرنا ہوا۔ وہاں ایک پانی کی سرکاری ٹینکی کی دیواروں پر انتباہی نوٹس لگے ہوئے تھے ''ہیلے واٹر ورکس کی تصویر لینا سختی سے منع ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے کو حوالہ پولیس کیا جائے گا‘‘ عرصہ ہوا وہاں سے گزرنا نہیں ہوا تاہم گمان غالب ہے کہ وہ نوٹس ابھی تک لگا ہو گا۔ حالانکہ ''گوگل ارتھ‘‘ پر آپ ساری دنیا بشمول ''ہیلے واٹر ورکس‘‘ دیکھ سکتے ہیں مگر سیٹلائٹ ٹائون میں کھڑے ہو کر آپ اس ''حساس مقام‘‘ کی تصویر نہیں کھینچ سکتے۔ ہماری ساری معلومات پاسپورٹ کے پہلے صفحے پر موجود مشین ریڈایبل پٹی میں موجود ہیں اور پی آئی اے کائونٹر پر موجود کمپیوٹر میں اس پٹی کو پڑھنے کی ساری سہولت بھی موجود ہے مگر ہم عشروں پرانی روٹین کے مطابق جب دستی پاسپورٹ ہوا کرتے تھے فوٹو کاپیاں بنوا رہے ہیں۔ اس سے سب کا دال دلیا چل رہا ہے اس لیے کوئی بھی اس متروک طریقہ کار کو ترک کرنے پر نہ غور کر رہا ہے اور نہ ہی عمل۔
ترقی معکوس میں یاد آیا۔ میں نے مورخہ دو اکتوبر کو پچیس نومبر کے لیے مانچسٹر سے نیویارک کے لیے PK-711 اور واپسی کے لیے انیس دسمبر کے لیے نیویارک سے لاہور کے لیے PK-722 میں اپنی نشست بک کروائی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ پاکستان سے نیویارک کے لیے پرواز پندرہ دسمبر سے بند ہو رہی ہے۔ ابھی واپسی کی مصیبت میں ہی مبتلا تھا کہ پتا چلا یہ پرواز اٹھائیس اکتوبر کو آخری بار نیویارک جائے گی اور وہاں سے اسی روز واپس آئے گی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ میں امریکہ کیسے جائوں گا بلکہ افسوس اس ترقی معکوس پر ہے کہ چھپن سال بعد ہماری قومی ایئرلائن امریکہ کی سرزمین پر اترنے سے محروم ہو گئی ہے۔ اس سے قبل شکاگو بھی اسی طرح بند ہوا تھا۔ دیگر فالتو ایئرلائنز آہستہ آہستہ اپنے آپریشن کا دائرہ کار بڑھا رہی ہیں اور ہم ترقی معکوس کر رہے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved