تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-11-2017

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان اور جواد شیخ

...اس کے علاوہ حضرت کا شمار اصحابِ طریقت و شریعت میں بھی کیجئے تو بیجا نہ ہو گا۔ نہایت نیک دل انسان ہیں۔ پابند صوم صلوۃ‘ مجھ پر بڑا کرم فرماتے ہیں۔ دلی میں ٹیلی فون کا سلسلہ بڑا غلط ہے۔ مختلف قسم کی آوازیں آتی رہتی ہیں‘ گھنٹی بج رہی ہے جیسے ہمارے ہاں مصروف فون کی آواز آتی ہے۔ محمود صاحب کو تیسرے چوتھے دن کراچی سے بات کرنے کا موقعہ ملا‘ وہ بھی لڑ جھگڑ کر۔ ٹیلی فون پر بابر صاحب کے صاحبزادے فیروز ملے۔ میں نے پوچھا پشتو جانتے ہو۔ بولے سمجھ لیتا ہوں‘ بول نہیں سکتا۔ بابر صاحب کو‘ پاکستان چھوڑنے کی اس سے بڑی سزا کیا مل سکتی ہے۔ جب زبان ہی اپنی نہ رہی تو کیا رہ گیا۔ معلوم ہو چکا تھا لہٰذا میں نے یہی صبح کا وقت بہتر جانا اور تیار ہو کر چندن گیسٹ ہائوس سے نیچے اُتر آیا۔ ساغر اپارٹمنٹ کے پہلو ہی میں گلِ رعنا ہے‘ لیاقت علی خاں مرحوم کا بنگلہ۔ آزادی کے بعد اس عمارت سے سفارت خانے کا کام لیا گیا۔ لُٹے پٹے مسلمان پُرانی دِلّی سے بھاگ کر اسی عمارت میں پناہ لینے کے لیے پہنچتے اور دروازے تک پر قتل ہوتے رہے۔ اندر گھُس کر بھی آزاد ہندو غارت گری کرتے تو روکنے والا کون تھا۔ مسلمانوں میں دلی میں دل کا بہلاوا اگر کچھ تھا تو سفارت خانے کی یہی عمارت تھی اور اس کا احاطہ۔ یہیں سے پرانے قلعے میں لوگ منتقل ہونا شروع ہوئے اور بڑی بے کسی اور ذلت کے دن کاٹ کر پاکستان کٹتے مرتے آئے۔ ہمارے چھوٹی بحر میں اُردو غزل کے اُستاد حیرت شملوی بھی اسی پڑائو میں جیتے مرتے رہے لیکن وہ فوری طور پر پاکستان نہ آ سکے تھے۔ برسوں کے بعد سن ساٹھ اکسٹھ عیسوی کی سردیوں میں کپکپاتے ہوئے لاہور‘ سکھر اور پھر کراچی درگاہ عبداللہ شاہ غازی بخاری پر جا کر دم لیا اور دیا بھی۔ گلِ رعنا میں اب بھی سفیر کبیر پاکستان قیام پذیر ہیں اور ہمارا سبز ہلالی پرچم اپنی بہار دکھاتا رہتا ہے۔ رات کو ہلکی بارش ہو جانے کے کی وجہ سے ایک لطیف سی خُنکی فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ انڈیا گیٹ سے ہوتا ہوا میں پنڈارہ روڈ پر آ گیا۔ بابر صاحب آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ پشتو کے سربراہ ہیں غالباً خبریں نشر کرتے ہیں‘ بہرحال ہیں وہیں کہیں۔ میاں یہ اٹھانوے بی کس طرف ہے۔ بچے نے پہلے تو اپنی نوعمر بہن کی طرف دیکھا پھر بولا اٹھانوے بی سے آپ کا مطلب نائنٹی ایٹ بی ہے‘ بالکل یہی۔ راستہ اُس نے بتایا لیکن مجھے بھٹکتا ہوا دیکھ کر وہ لڑکی دوڑتی ہوئی خاصی دور تک میرے پیچھے پیچھے آئی اور انکل اُدھر نہیں! اِدھر کہہ کر واپس چلی گئی۔ میں اس حُسن اخلاق سے متاثر ہوا۔ بابر صاحب کے گھر کا دروازہ ایک سیاہ رُو دکنی چھوکری نے کھولا‘ زبان اس کی اب بھی دکنی ہے دہلوی نہیں۔ وہ کوئی ملازمہ نہیں تھی۔ دوسری منزل پر سرکاری مکانوں میں رہائش پذیر ہیں
بابر صاحب۔ بڑے تپاک سے ملے‘ چائے وائے ان کی بیگم خود لے کر آئیں‘ کشمیرن ہیں‘ امیر حمزہ صاحب شنواری نے باتوں باتوں میں بیگم بابر کا ذکر بھی کیا تھا‘ یہی کہ بابر کی بیوی سے بنتی نہیں‘ بیزار ہیں۔ بابر حکام رس ہیں۔ ایک علی گڑھ کا سند یافتہ ضرورت مند بھی آ گیا۔ وہی بولے چلا گیا‘ میں یہ سوچ کر گیا تھا‘ بحثوں گا ان سے۔ مگر میں نے دیکھا اب وہ دم خم نہیں رہا۔ بحیثیت مجموعی وہ مسلمانوں کے غم میں گھلتے رہتے ہیں۔ پاکستان سے اخراج ان کی پسند نہ تھا۔ کہتے تھے جیسے ہی آزادی ملی ہمیں جھوٹے مقدموں میں دھر لیا گیا‘ قتل کے الزامات۔ جج کا نام بھی بتایا تھا بابر صاحب نے‘ مجھے یاد کہاں رہتے ہیں نام۔ جج صاحب سے بابر کہتے تھے میں نے کہا‘ آپ بھی پٹھان ہیں‘ مقامی اور ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر آپ مقتول اعزہ کو بُلا لیجئے‘ وہ میرے آپ کے سامنے آ کر کہیں کہ بابر قاتل ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ مجھے پھانسی پر نہ لٹکایا جائے‘ یہ تو نہ ہوا۔ بات آخر یہاں تک پہنچی کہ تم کانگرسی ہو‘ تمہیں رہنے کے لیے نیک چلنی کی ضمانت دینا ہو گی۔ میں نے لاکھ کہا‘ میں یہیں پیدا ہوا‘ پلا بڑھا اور اب رہنا ہے‘ میرا سیاسی کے ساتھ ساتھ اخلاقی کردار کیا ہے‘ وہ بھی آپ جانتے ہیں۔ اُدھر سے ضمانت پر اصرار۔ اِدھر سے انکار۔ عافیت اسی میں نظر آئی کہ دلی چلو‘ یہاں اور تو کوئی خدمت بن نہیں آتی۔ ہر صبح اپنے چھجے پر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہوں۔ میری آواز دُور دُور تک جاتی ہے۔ ہندو مسلم یکساں محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ قربانی کے بکرے اکیلے بابر ہی نہیں کھاتے‘ اُن کے غیر مسلم پڑوسی بھی انتظار دیکھتے رہتے ہیں‘ بلکہ عید کا انتظار کون کرے‘ بیچ بیچ میں بھی تقاضا کر کے بکرے حلال کرائے جاتے رہتے ہیں۔ بابر صاحب کا لب و لہجہ پختون ہے‘ دہلوی نہیں۔ اس لیے لطف دے جاتا ہے۔مری کیفیت دیکھ کر وہ یوں کہیے مایوس ہوئے۔ پنڈارہ روڈ پر ہی کہیں ساغر نظامی بھی رہتے ہیں۔ دس بجا چاہتے تھے اور میں یہ کہہ کر رخصت ہونے لگا‘ پھر کسی وقت حاضر ہوں گا‘ فرمایا فون کر کے آنا۔ مجھے یہ قید اچھی نہیں لگی اس لیے دوبارہ جانا ممکن نہ ہوا۔
حسن عسکری صاحب نے موٹر نہیں‘ ہمارے شایان شان ایک چھوٹی لاری بھجوائی جسے تیس روپے روزانہ پر ایک ہندی مسلم چلا رہا تھا اور دلی کے تمام راستوں‘ سے باخبر تھا۔ میرے نٹ کھٹ ساتھیوں کے مزاج کی اُفتاد سے اندیشے طرح طرح کے تھے۔ میرا مشورہ یہ تھا اب مانگے تانگے کی سواری وصول کر ہی لی گئی ہے تو کیوں نہ شہر سے ہٹ کر جو تاریخی مقامات ہیں اُن کی سیر دیکھ لی جائے ورنہ حالت یہ تھی مہمان خانے کی چھٹی منزل پر کھڑے ہو کر اختر فیروز فرماتے تھے دیکھو وہ رہا سامنے پرانا قلعہ۔ ہاں میں ہاں رئیس کیوں نہ ملاتے۔ قطب مینار کی تاریخی حیثیت کی گفتگوئیں اخبارات میں اکثر چل نکلتی ہیں۔ مسلمان کہتا ہے قطب الدین ایبک کا کارنامہ ہے۔ ہندوستانیوں نے آزادی کے بعد کچھ تاریخی گھپلے کئے ہیں۔ دوچار مہینے گزرتے ہیں مینار میں بجلی غائب ہونے سے ایسی بھگڈر مچی کہ متعدد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لیے جب ہم وہاں پہنچے تو اُوپر جانے کا راستہ مقفل پایا۔ مینار کے آس پاس تو کئی کھنڈر موجود ہیں عمارتوں کے لیکن یہ بلند و بالا مینار تن تنہا کھڑا ہے۔ سیدھی سپاٹ زمین پر کوئی کرسی کوئی چبوترہ کچھ نہیں۔ خاکی رنگ کے پتھر پر قرآنی آیات اُبھری ہوئی ہیں۔ خوش نویسی مسلمانوں کا حصہ رہی ہے اور عربی رسم الخط میں تو طرح طرح کے کمالات ہر جگہ بکھرے پڑے ہیں...
اور‘ اب آخر میں جواد شیخ کا بھیجا ہوا یہ شعر ؎
اب یاد رکھ کہ تجھ سے توقع نہیں کوئی
اب بھُول جا کہ تجھ پر بھروسا کروں گا میں
آج کا مطلع
چڑھتے ہوئے دیکھا نہ اُترتے ہوئے دیکھا
اندر ہی کسی موج کو مرتے ہوئے دیکھا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved