تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     02-11-2017

حقیقت

سائنس اور مذہب میں کیا کچھ مشترک ہے اور کس قدر وہ متصادم ہیں، یہ سوال بار بار اٹھتا ہے لیکن ہزاروں سالہ تاریخی پسِ منظر سمجھے بغیر اس کا جواب دیا نہیں جا سکتا۔ ملائیت اور الحاد کی دو انتہائیں ہیں، مذہب اور سائنس کی اس بحث میں جو اپنے فائدے ڈھونڈتی رہی ہیں ۔ اس وقت، جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے، دنیا پر مغرب کا غلبہ ہے، امریکہ اور یورپ کا۔ مغرب والوں کی اکثریت بظاہر عیسائی لیکن حقیقت میں سیکولر ہے۔ پوری مغربی دنیا میں آپ نے ہم جنس پرستی کے قوانین منظور ہوتے دیکھے۔ ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگیوں میں شراب اور ہم جنس پرستی سمیت ہر قسم کی آوارگی کے لیے آزادی چاہتے ہیں۔ اس آوارگی کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا میں ایسا کوئی گھر ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہو چکا، جہاں ماں باپ نے پوری زندگی اکٹھے گزاری ہو اور بچوں نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو اولڈ ہوم میں داخل نہ کرایا ہو۔ زیادہ تر لوگ شادی نہیں کرتے۔ جو شادی کرتے ہیں، وہ دو‘ تین بار طلاق کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مغرب میں چرچ والوں کوحکومت کرنے کا موقع ملا، جیسے افغانستان میں طالبان کو ملا تھا۔ چرچ نے ہر قسم کے جبر سے کام لیا، سائنس کا گلا گھونٹ دیا ۔ گیلیلیو گیلی لی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ سب سے پہلے اس نے مشاہدہ کیا کہ مشتری کے گرد بہت سے چاند گردش کر رہے ہیں۔ اس نے کہاکہ کرّۂ ارض‘ کائنات کا مرکز و محور نہیں ہے۔ اس پر وہ نظر بند کر دیا گیا اور نظر بندی کے دوران ہی مرگیا۔ چرچ کی اس جابرانہ حکومت نے ردّعمل کو جنم دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقے نے مذہبی کتابوں میں بہت سی تبدیلی کر دی تھی۔ سائنس والوں کے لیے یہ آسان تھا کہ مسخ شدہ الہامی کتابوں کی کسی بات کو غلط ثابت کیا جا سکے۔ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ سائنس اور مذہب Mutually Exclusive تھے۔ لوگ صرف دو قسم کے تھے۔ وہ جو اندھا دھند، بغیر کسی دلیل کے مذہب کو مانتے تھے یا وہ جو دلائل کے ساتھ اس کا انکار کرتے تھے۔ 
مذہب کیا ہے؟ خدا کی طرف سے انسان سے کلام، جس میں وہ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ دنیا بنائی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سی ہدایات، مثلاً یہ کہ چوری نہ کرو، قتل کرنے والے کو سزا کے طور پر قتل کر دو وغیرہ وغیرہ۔ سائنس کیا ہے؟ کائنات جن اصولوں پر چل رہی ہے، انسان جیسے جیسے انہیں سمجھتا گیا، انہیں سائنس کے طور پر اپنے پاس درج کر تا گیا۔ یہ وہ اصول تھے، جنہیں ہر بار تجربہ کر کے درست ثابت کیا جا سکے۔ ان اصولوں کے تحت انسان نے یہ بات سمجھی کہ کششِ ثقل کی وجہ سے چیزیں زمین پر گرتی ہیں۔ سائنسز نے سورج اور اس کے سیاروں کی تخلیق کو سمجھا۔ ایڈون ہبل نے 1925ء میں یہ ثابت کیا کہ کائنات ایک دھماکے سے وجود میں آئی۔ یہ دھماکہ اس قدر خوفناک تھاکہ آج بھی ستاروں کے بڑے بڑے شہر (کہکشائیں ) خوفناک رفتار سے ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے ہیں، جیسے بم پھٹے تواس کے ذرات دور دور تک بکھر جاتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔ ان سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک ذات ہے، جو کہتی ہے کہ میری عبادت کرو۔ اس لیے کہ میں نے یہ دنیا بنائی ہے۔ اس کے بعد وہ فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان جڑے ہوئے تھے، ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔ پھر یہ کہ ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا۔ پھر وہ فرماتا ہے کہ آسمان کو ہم نے اپنے زورِ بازو سے پیدا کیا اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں۔ خدا آسمان اور زمین کی تخلیق پر بھی کھل کر بات کرتا ہے اور زمین و آسمان کی یہی تخلیق تو سائنس ہے۔ فرق یہ ہے کہ قرآن اور حدیث صرف سائنس پہ مشتمل نہیں بلکہ یہ تو زیادہ تر ان ہدایات پر مشتمل ہیں، جو کہ خالق انسان کو دیتا ہے۔ اسے بتاتا ہے کہ والدین کا احترام کرنا ہے۔ محتاجوں کی مدد کرنی ہے۔
اب جن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے پہلے کے کچھ سائنسی نظریات تھے، جو کہ قرآن میں درج ہوئے۔ ان سے میرا یہ سوال: پچھلے ڈیڑھ ہزار سال میں سائنس میں ان گنت Improvements ہو چکی ہیں۔ مثلاً ارسطو اور بطلیموس کے یہ نظریات مکمل طور پر ردّ ہو چکے کہ کرّۂ ارض کائنات کا محور و مرکز ہے۔ یونانی فلسفے کے بہت سے تھیسز مسترد ہو چکے ہیں۔ اس طرح بہت سارے غلط نظریات بھی نقل ہوسکتے تھے۔وہی کچھ کیوں بیان ہوا جو عین حقیقت ہے کہ ہم آسمان کو پھیلا رہے ہیں۔ خدا فرماتا ہے کہ زمین و آسمان جڑے ہوئے تھے اورانہیں پھاڑ کر ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت کے رائج سائنسی نظریات تو یہ تھے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ ساری دنیا اس کے گرد گھوم رہی ہے مگر خدا یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز اپنے اپنے مدار میں ایک وقتِ مقررہ تک گردش کر رہی ہے۔
قرآن زیادہ تر ہدایات (Instructions) پر مشتمل ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے اگر فلکیات کی بات بھی مذکور ہوتی تو اس دور کا ایک عام ذہن کس طرح سے اسے سمجھتا۔ اس زمانے تک انسان خلا میں نہیں گیا تھا۔ کوئی مصنوعی سیارہ تو دور کی بات، ایسی دور بین بھی نہیں تھی، جو نظامِ شمسی سے باہر دیکھ سکتی۔ اس کے باوجود آخری زمانے والوں کے لیے جو آیات نازل ہوئیں، انہیں پڑھیں تو دماغ بھک سے اڑ جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں، جب اختتام کا ذکر ہوتا ہے تو وہ فرماتا ہے: سورج اور چاند یکجا ہو جائیں گے۔ پہاڑ ایسے اڑیں گے، جیسے روئی کے گالے اڑتے ہیں۔
اس کے باوجود لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں۔ جیسے یورپ اور امریکہ میں ہم جنس پرستی سمیت ساری آزادیاں دی گئیں۔ لوگ شراب پینا چاہتے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ٹوکنے والا کوئی نہ ہو۔ بہت سے ذاتی محرومیوں کی بنا پر ردّعمل کا شکار ہیں۔ تو کرتے رہیں، اپنی مرضی۔ خدا کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ پانچ ارب مخلوقات اپنی جبلتوں کے بل پر زندگی گزار چکی ہیں، آپ بھی عقل کی بجائے جبلت پر زندگی گزار لیں۔ خدا کی شان میں ایک ذرّہ برابر کمی اس سے واقع نہیں ہوتی۔ وہ آپ سے زبردستی نہیں کر رہا کہ آپ اس پر ایمان لائیں۔ وہ آپ کو عقل و فہم دیتا ہے۔اگر وہ یہ کرنا چاہتا تو آپ کو choiceکا حق کیوں دیتا؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved