''ابو ابو!ہر دو چار دن کے بعد‘ چالیس پچاس کاریں ‘ ایئر پورٹ کی طرف کیوں نکل جاتی ہیں؟ اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ایک دو گھنٹوں کے بعد واپس‘ شہر کا رخ کر لیتی ہیں۔ ان کے اندر کون ہوتے ہیں؟یہ ایک ہی دن میں اتنی بڑی تعداد کے ساتھ اکٹھے ہی ایئر پورٹ کیوں جاتے ہیں؟ اور پھر وہاں سے قطار بنا کر شہر کی طرف آنے لگتے ہیں؟‘‘
''بیٹے !یہ بہت بڑے مقدمے میں پھنس گئے ہیں۔جس کی تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد پیشیاں پڑتی ہے اور پھر مقدموں میں پھنسے ہوئے‘ ایک ہی خاندان کے چند لوگ کبھی باری باری آتے ہیں اور کبھی اکٹھے کاروں میں بیٹھ جاتے ہیں‘‘۔
''ان کے خاندان کے لوگ کتنے ہیں؟‘‘
''بس بیٹے‘جب سارا خاندان ‘ایک ہی کام کے پیچھے لگ جائے تو انہیں کون روک سکتا ہے؟‘‘
''سوچتا تومیں بھی یہی ہوں کہ ایک ہی مقدمہ‘ ایک ہی کچہری‘ ایک ہی کاروبار‘ ایک ہی خاندان‘کچھ لوگوں کو گھر میں بھی رہنا چاہئے۔ کام کاج کے لئے کچہری کے بجائے کہیں اور جانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔بجلی کا بل بھی دینا ہوتا ہے۔گیس کا بل دینے کے لئے بھی قطار میں لگنا پڑتا ہے۔قطار کو دیکھنے والے بھی بہت ہوتے ہیں۔ ان لوگوں پر کیا مصیبت پڑتی ہے ؟ کہ روز کے روز چالیس پچاس کاروں میں ایئر پورٹ جاتے ہیں اور گھنٹے دو گھنٹے بعد‘کاروں کا قافلہ واپس شہر کی طرف چلنا شروع کر دیتا ہے۔کیا یہ صرف کاریں دکھانے آتے ہیں؟‘‘
''ساری کاریں لے کر ایئر پورٹ بھی جاتے ہیں۔ جب واپس آتے ہیں تو بھی ساری کاریں قطار میں لگا کر واپس آتے ہیں۔ٹی وی کا ایک نیا نیا چینل کھلا ہے۔ وہ تو کسی کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتا۔ بچوں میں بھی اچھی خاصی قیمتی چیزیں تقسیم کرتا ہے۔اور بڑوں کو کاریں اور طیارے تک بانٹ دیتے ہیں۔ اگرکاروں کی قطار لے کر جاتے ہیں اور اتنی ہی کاروں میں واپس آجاتے ہیں تو روز روز کاریں ایئرپورٹ لے جانے اورپھر واپس آنے میں فائدہ کیا ہے؟‘‘
''ابو! کچھ نہ کچھ کام تو ہونا چاہئے؟‘‘
''میرے ذہن میں تو اور ہی باتیں آرہی ہیں۔‘‘
''تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
''میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اتنے سارے لوگ‘ کاروں کا لمبا قافلہ بنا کر ایک ہی جگہ کیوں جاتے ہیں؟ اور ایک ہی جگہ واپس بھی آجاتے ہیں؟ کیا ان کے ہوش و حواس ٹھیک ہیں؟‘‘
'' بیٹے ان سے زیادہ درست ہوش و حواس پورے ملک میں کسی کے پاس نہیں۔یہ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد الیکشن لڑتے ہیں...‘‘
''یہ تو کاروں میں خالی ہاتھ جاتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس آجاتے ہیں۔یہ کرتے کیا ہیں؟‘‘
''یہ بڑا مشکل کام کرتے ہیں۔ نہ خود کچھ کرتے ہیں ‘ نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں۔ آدھے اسمبلیوں میں بیٹھ کر حکومت چلاتے ہیں اور انہی میں سے آدھے‘ باقی رہ جانے والوں کو تنگ کرتے ہیں۔ آستینیں چڑھا کر دکھاتے ہیں۔ منہ چڑاتے ہیں۔ایک آدمی کھڑے ہو کر دوسروں سے کہتا ہے کوئی چیز شرم بھی ہوتی ہے۔ کوئی حیا بھی ہوتی ہے... جب یہ سارے لوگ چھٹی کر کے‘ باہر نکلتے ہیں تو اپنی کاروں میں جلدی جلدی بیٹھ کر‘ کوئی پر اسرار محلے کی طرف نکل جاتا ہے۔ کچھ رات گئے تک یہ پتہ کرنے چلے جاتے ہیں کہ کوئی چیز شرم بھی ہوتی ہے؟۔ کوئی حیا بھی ہوتی ہے؟‘‘۔
''ابو کوئی یہ چیزیں ڈھونڈنے میں بھی کامیاب رہا ؟‘‘
''بیٹے یہاں تو ہم ترس گئے۔ اپنی زندگی لیڈر کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے گزاری ۔ ہمارے سامنے ایسے ہی بازار ہیں۔ا یسے ہی دکاندار ہیں۔ اور ایسے ہی جیب کترے ہیں‘‘۔
''ابو!کیا آپ کا بچپن بھی میری طرح گزارا؟‘‘
''نہیں بیٹے! ہم نے جس انگریز کے زمانے میں بچپن گزارا۔ وہ برے نہیں‘ اچھے لوگ تھے۔ ٹھیک ہے وہ ہمارے ملک سے پیسہ لے کر جاتے تھے لیکن یہاں پر ہسپتال بھی بناتے تھے۔ سکول بھی بناتے تھے۔نوکریاں بھی دیتے تھے اور پولیس میں کوئی رشوت لیتا‘ تو اسے سبق بھی سکھا دیتے تھے۔ہم نے ہندوئوں سے بھرے ہوئے ملک میں برابر کے حقوق لئے۔ہمارے لیڈر قائداعظمؒ تھے۔ شہید ملت لیاقت علی خان تھے۔ سردار عبدالرب نشترتھے‘ اوران کا حال بتائوں کیا تھا؟
''کیا تھا ابو؟‘‘
''شہید ملت لیاقت علی خان کو جب گولی مار کے شہید کیا گیا تو ان کی جیب سے چند روپے اور گھر کے اندر ڈیڑھ دو سو روپے تھے۔ اور پنجاب کے گورنر‘ سردار نشتر کا بیٹا‘ گورنر ہائوس سے سائیکل پر بیٹھ کر‘داتا دربار کے قریب سنٹر ل ماڈل سکول جا یا کرتاتھا۔
''لیکن ابو ‘قائداعظمؒ کے بنائے ہوئے ملک میں‘ متوسط طبقے کے خاندان کے بچے 56 گاڑیوں میں گھر سے نکلتے ہیںتو کئی طرح کی پولیس ہمیں دھکے دے کر‘ سڑک سے دور پھینک دیتی ہے۔لیڈر جب شہر کا رخ کرتے ہیں تو سڑکیں اور بازار خالی کرا لئے جاتے ہیں‘‘۔
''لیکن بیٹے جب ہمارے قائداعظمؒ سڑک پر چلتے۔ لیاقت علی خان کسی جلسے میں جاتے تو یہ رہنما اور عام لوگ‘ گھل مل جایا کرتے‘ جیسے ایک دوسرے کے پیارسے بھرے ہوئے سینے‘ خلوص اور محبت کی گرمی سے جڑ جایا کرتے ہیں‘‘۔
''ابو میں آج سے دعا کیا کروںگا کہ یا اللہ!ہمیں ایسے ہی لیڈر دے دو جو آزادی کے وقت ہوا کرتے تھے‘‘۔