تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-11-2017

اللہ کا قانون

حکم اللہ کا ہے۔ وہی تقدیریں بناتا اور بدلتا ہے۔ کوئی کسی سے اقتدار چھین سکتا ہے اور نہ کوئی کسی کو عطا کر سکتا ہے۔ اچھے حکمران ملیں گے‘ اگر ہم نے کوشش کی۔ بے عمل رہے تو غلط کار مسلّط ہوں گے۔ یہ اللہ کا قانون ہے اور کبھی نہیں بدلتا۔
اطلاع ہے کہ عسکری قیادت اور نون لیگ میں ایک ادھوری سی مفاہمت ہو چکی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ذریعے‘ لندن میں تشریف فرما میاں محمد نواز شریف کو بتایا گیا کہ عسکری قیادت ان کے خلاف فریق نہیں۔ اس نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا اور نہ آئندہ الیکشن میں نون لیگ کے راستے میں مزاحم ہو گی۔ کسی فیصلے کے لئے عدالتوں پر دبائو ڈالا جائے گا نہ ترغیب دی جائے گی۔ اگر نواز شریف‘ ان کے بھائی اور اولاد کو نااہل قرار دے دیا جائے تو یہ ان کا اور قانون کا مسئلہ ہے۔ یہی نیب اور یہی عدالتیں عمران خاں‘ جہانگیر ترین اور علیم خان کے خلاف بھی حرکت میں ہیں۔
شاہی خاندان پر‘ پارٹی کا دبائو اس کے سوا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ درجنوں ارکان اسمبلی اور بعض وزراء تصادم کے حق میں نہیں۔ محترمہ مریم نواز اور ان کے گراں قدر والد‘ خاندان میں اختلاف کی تردید کرتے ہیں۔ واقعہ مگر یہی ہے کہ شہباز شریف علانیہ ان کے موقف سے برأت کا اظہار کر چکے۔ خوشامدی وزراء کو وہ خرابی کا ذمہ دار ٹھہرا چکے۔ حمزہ شہباز یہاں تک کہہ چکے کہ تایا جان کو وہ سمجھا لیں گے۔ 
مشکل یہ ہے کہ میاں صاحب ''سمجھنے‘‘ پر آمادہ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان سے ایک دیوتا کا سا برتائو کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل‘ بعض وزراء کی موجودگی میں چوہدری نثار علی خان نے‘ میاں صاحب کی غلطیاں گنوائیں تو انہوں نے کہا تھا: آپ کو یہ بات تنہائی میں کہنا چاہیے تھی۔ کئی بار یہی جملہ وہ شہباز شریف سے کہہ چکے۔ مراد یہ ہے کہ ٹوکا انہیں جا سکتا ہے مگر التجا اور درخواست کے ساتھ۔ غلط انہیں کبھی نہ کہا جائے۔ نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے ایک اجلاس میں‘ کئی برس پہلے جو ججوں کی بحالی کے بعد برپا ہوا تھا‘ ایک رکن اسمبلی نے کہا تھا: میاں صاحب ایسے واقعات پیغمبروں کے زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ میاں صاحب نے اس شخص کی حوصلہ شکنی سے گریز کیا تھا۔ شہباز شریف سمیت کوئی بھی دوسرا لیگی لیڈر شاید یہ گوارا نہ کرتا۔ اللہ اور رسولؐ کا فرمان یہی ہے کہ جو تمہارے منہ پر تمہاری (مبالغہ آمیز) تعریف کرے‘ اس کے منہ پہ مار دو۔ کبھی میاں صاحب ترنگ میں ہوں تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں ''میں کشمیریوں کی تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر ہوں‘‘ گویا ساٹھ برس سے مقتل میں کھڑے سید علی گیلانی اور پاکستان کا تصور پیش کرنے والے اقبالؔ ان سے کمتر تھے۔ بھائی شہباز پہ عنایات انہوں نے بہت کیں مگر یہ گوارا نہیں کہ ان کے کسی تجزیے‘ کسی اقدام میں وہ نقص کا تصور بھی کریں۔ ہر مقبول آدمی کے کان میں شیطان یہ پھونکتا ہے۔ ایک مسلمان ایسے میں استغفار پڑھتا ہے۔ جو خبطِ عظمت اور تقویٰ کا شکار ہوتے ہیں‘ وہ منہ کے بل گرتے ہیں‘ جس طرح تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے مخالفین۔ ذاتی زندگیوں میں حالانکہ‘ ان میں سے بعض اچھے تھے۔ لوٹ مار کا عادی تو کوئی بھی نہ تھا۔ ہاں مگر حبِّ جاہ کے مارے ہوئے۔ ان کی امّت اب رویا کرتی ہے‘ خود ترسی کا شکار رہتی ہے۔ 
کبھی ایک مبالغہ عام ہو جاتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف فوج کو اور فوجی انہیں ناپسند کرتے ہیں مگر 2008ء کے انتخابات میں وہ ان کے راستے میں مزاحم ہوئے اور نہ 2013ء میں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے عنان سنبھالی اور اسی ہنگام نئے چیف جسٹس نے‘ تو محترمہ مریم نواز نے فرمایا تھا: طوفان گزر گئے‘ آندھیاں تھم گئیں اور اب منزلِ مراد سامنے ہے۔
یہ ایک بچگانہ حرکت تھی۔ اس میڈیا سیل کی طرح مخالفین کی جو کردار کشی کرتا اور نتائج کا سامنا کرتا ہے۔ آزاد اخبار نویسوں‘ ججوں اور جنرلوں پر اگر کوئی تہمت تراشے گا تو وہ لاچار کیوں ہوں گے۔ بلیک میل کیوں ہوں گے۔ صاحبزادی کو مگر میاں صاحب منع نہیں کرتے۔ میڈیا سیل کے ذریعے کردار کشی اور نہ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی فرمائش پر عہدے بھی بانٹتے ہیں مثلاً سندھ کے گورنر اور ان وفاقی وزراء کا تقرر‘ شہباز شریف کے بقول جو خوشامد کے سوا کسی کام کے نہیں۔ ایک فوجی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ نون لیگی میڈیا سیل کے کچھ کارندوںکو گورنر سندھ کی سرپرستی حاصل ہے۔
جنرل تعجیل میں ہیں اور نہ دبائو کا شکار۔ اندیشہ تو سرحدوں کے باہر سے ہے ۔ امریکہ‘ افغانستان اور بھارت میں مفاہمت ہو چکی کہ پاکستان کو دبائو میں رکھا جائے۔ بلوچستان‘ کراچی اور قبائلی پٹی میں دہشت گردی جاری رہے گی۔ پاکستان پر امریکی‘ بھارتی اور افغانی الزام تراشی بھی۔ پاکستان چیختا رہے گا کہ پاک افغان سرحد پہ باڑ اور فوجی چوکیوں کے ذریعے دہشت گردوں کی آمدروفت روکی جائے۔ مگر امریکیوں اور افغانوں کو قربانی کا ایک بکرا درکار ہے۔ وہ ناکام ہو گئے اور ناکام رہیں گے۔ پاکستان کو برا بھلا کہہ کر وہ دل کا غبار نکالتے‘ اپنی اور عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ باایں ہمہ جہتی بحران کا پاکستان کو بہرحال سامنا کرنا ہے۔ دہشتگردی دم توڑ رہی ہے۔ معیشت بحال ہو سکتی ہے۔ امداد کے لئے چین آمادہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم کو بیدار کیا جائے اور اعتماد میں لیا جائے تو ہر چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے۔ سول ادارے کمزور سہی مگر خلقِِ خدا امن چاہتی ہے۔ عوام کی خوش دلانہ تائید اس فوج کو حاصل ہے‘ استحکام کے لئے‘جس نے لہو سے چراغ جلائے ہیں۔ جو ملک کا واحد جدید ادارہ ہے۔ امریکہ اور بھارت کے عزائم کو جو سمجھتا ہے اور جس کے افسروں میں ادراک اور شعور کی سطح‘ ماضی سے بہت بلند ہے۔
عسکری قیادت کو ادراک ہو چکا کہ خارجی یلغار کے ہنگام داخلی سیاست میں اسے فریق نہ بننا چاہئے۔ این آر او وہ ہرگز نہیں کرے گی۔ بلیک میل وہ بالکل نہیں ہو گی۔ اپنے فیصلے نافذ کرنے کے لئے عدالتوں نے مدد مانگی تو کسی بھی دوسرے سرکاری محکمے کی مانند‘ حکم کی وہ اطاعت کرے گی۔ 
بتایا جاتا ہے کہ شہباز شریف سے میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا وعدہ کر لیا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ محترمہ مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ میاں صاحب پارٹی کے صدر رہنا چاہیں گے۔ الّا یہ کہ عدالت انہیں اٹھا پھینکے۔ میاں محمد نواز شریف منہ سے مانیں یا نہ مانیں‘ شہباز شریف کو وزیر اعظم کے طور پہ اگر وہ قبول کرتے ہیں تو ''مائنس ون‘‘ فارمولا خود بخود نافذ ہو جائے گا۔ پارٹی اقتدار میں تبھی آ سکتی ہے‘ اگر 2018ء میں واضح اکثریت حاصل کرے۔ دھاندلی کی اسے اجازت ہو گی اور نہ کسی اور کو۔ ووٹ وہ خرید نہ سکیں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عدالت شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز کو نااہل قرار دے سکتی ہے۔ انہیں بچانے کے لئے اب کوئی نہ آئے گا۔ عدالتوں اور جنرلوں کو معطون کرنے کی بجائے‘ اپنی جنگ وہ صرف دلائل کے بل پر جیت سکتے ہیں۔ بعض مزید اخبار نویس خریدے جا سکتے ہیں‘ اشتہارات کی فراوانی سے کچھ میڈیا مالکان کے دل نرم ہو سکتے ہیں۔ عدالت اور فوج نہیں خریدی جا سکتی۔ 
چودھریوں کو طلب کیا جا چکا۔ پیپلز پارٹی کٹہرے میں کھڑی ہے۔ تحریک انصاف کے بعض لیڈر نااہل ہو سکتے ہیں۔ جج اپنی غیر جانبداری ثابت کر دیں گے‘ نیب کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال بھی۔ ہرگز ہرگز وہ بدنامی مول نہ لیں گے۔
حکم اللہ کا ہے۔ وہی تقدیریں بناتا اور بدلتا ہے۔ کوئی کسی سے اقتدار چھین سکتا ہے اور نہ کوئی کسی کو عطا کر سکتا ہے۔ اچھے حکمران ملیں گے‘ اگر ہم نے کوشش کی۔ بے عمل رہے تو غلط کار مسلّط ہوں گے۔ یہ اللہ کا قانون ہے اور کبھی نہیں بدلتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved