سابق امریکی سینیٹر‘ لیری پریسلر کی کتاب‘ Neighbours in arms کی تقریب رونمائی‘ ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی۔موضوع '' بھارت اور پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا‘‘تھا۔گفتگو میں سب سے زیادہ ذکر پاکستان کے نیو کلیئر اثاثہ جات کے حوالے سے ہوا۔سینیٹر لیری پریسلر نے اپنی اس کتاب میں ‘پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے چوری ہونے کے امکانات اور امریکی سرزمین تک پہنچنے کے مفروضے پر‘ مستقبل میں ایک ناول لکھنے اور فلم بنانے کی خواہش کااظہار بھی کیا۔
حسین حقانی سابق سفارت کار ہونے کے علاوہ‘ اب امریکہ میں جانے پہچانے صحافی بھی ہیں۔الٹی سیدھی چھلانگیں لگانا‘ ان کا دیرینہ مشغلہ ہے۔وہ بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ تقریب چند روز قبل‘ امریکہ میں منعقد ہوئی۔ وہ‘ سینیٹر پریسلر کے تازہ''تصورات‘‘ سے آگاہی حاصل کررہے تھے۔ زیر بحث سو ال یہ تھا ''امریکہ کو اگر خطرہ ہے تو وہ شمالی کوریا سے ہونا چاہئے ۔ پاکستان کے ایٹمی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر خود امریکی حکومت‘ متعدد بار اعتماد کا اظہار کر چکی ہے‘‘۔
مگر سینیٹر پریسلر قائل ہونے پر تیار نہیں۔وہ محض ایک جگہ پر اٹکے ہوئے ہیں ۔ان کا سارا خدشہ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں کے حوالوں سے ہی تھا۔سینیٹر نے پاکستانی نیو کلیئر اثاثوں کی سمگلنگ کا نقشہ‘ اس قدر مضحکہ خیزانداز میں کھینچا کہ شرکا بے ساختہ ہنس دئیے۔ سینیٹر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی پاکستان جا کر ‘چند ملین ڈالر خرچ کر کے‘ ایٹم بم خرید سکتا ہے۔ اس ایٹم بم کو بذریعہ سمندر‘ ویت نام اور وہاں سے امریکہ کے لئے روانہ کر سکتا ہے۔ دوسرا راستہ‘ ان کے نزدیک چین سے ہو کے گزرتا ہے‘ جس پر حسین حقانی کے اعتراض پر سینیٹر نے کہا کہ یہ ایٹمی ہتھیار ‘افغانستان کے راستے سے امریکہ بھی پہنچ سکتے ہیں۔ان کا اصرار تھا کہ امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ خطرہ ‘ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے ہے‘ جو امریکہ کے شہروں پر گرائے جا سکتے ہیں۔
حسین حقانی نے سوال کیا کہ کیا آپ کو اصولی طور پر‘ تمام برصغیر کو‘ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہئے ؟ صرف پاکستان ہی پر آپ کا اعتراض کیوںہے؟
اس سوال کے جواب میں سینیٹر پریسلر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایٹمی ہتھیاروں کی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم چند لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔جو منتخب عوامی نمائندے نہیں۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے‘ ایٹمی حملے کا حکم دینا ہو تو انہیںکم از کم پندرہ لوگوں کو اعتماد میںلینا ہو گا۔جن میں و ز یر دفاع‘ وزیر خارجہ‘ جوائنٹ چیف آف سٹاف اور ایوان نمائندگان کے سپیکربھی شامل ہیں ۔ پاکستان میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ کہتے تو ہیں کہ یہ پاور ان کے صدر یا وزیراعظم کے پاس ہے۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کونسل کی پانچ ایٹمی طاقتوں کے علاوہ‘ کسی ملک کو بھی ایٹمی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن بھارت‘ پاکستان اور شمالی کوریا‘ بہر حال ایٹمی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور جو ممالک یہ طاقت ‘ایک دفعہ حاصل کر لیں‘ ان میں سے کوئی دستبردار نہیں ہوتا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی خواہش سے یہ کام ہو پائے گا؟
سینیٹر نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے تجاویز‘میں نے اپنی کتاب کے آخر میں لکھ دی ہیں‘ جو یہ ہیں۔''پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دے دیا جا ئے ۔ بھارت کو خطے میں برتری کی حیثیت دی جائے اور سیکرٹری خارجہ ٹلرسن ‘ دہلی میں یہی پیغام دے کر گئے۔‘‘میں نے اپنی کتاب‘ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ان تمام لوگوں کو ارسال کی ہے‘ جنہوں نے برصغیر سے متعلق امریکی پالیسی تشکیل دینا ہے۔
سینیٹر پریسلر کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ٹرمپ‘ بھارت کے لئے بہترین ‘امریکی صدر ثابت ہوں گے۔ پاکستان پر اعتبار نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ‘ انہوں نے یہ بتائی کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ''پریسلر امینڈمنٹ ‘‘کے ڈرافٹ کی تیاری میں پاکستان راضی تھا۔ پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔کیونکہ اس وقت پاکستان‘ امریکی کانگرس کے سامنے اور حکومت سمیت دنیا بھر سے یہی کہتا تھا کہ ''پاکستان کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارداہ نہیں‘جو بعد میں غلط ثابت ہوا‘‘۔سینیٹر پریسلر نے مزید کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو میں خود امریکہ بھی ملوث رہا ہے ۔ واشنگٹن میں نہ صرف ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان جنگ چھڑی رہتی ہے بلکہ پوری دنیا کی حکومتیں‘ ایجنسیاں اور بااثر افراد‘ یہاں پر مہنگی ترین پی آر او‘ بہترین لافرمز کے ذریعے‘ امریکی پالیسیوں پر نہ صرف اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ رازداری سے اپنے مقاصد بھی حاصل کر لئے جاتے ہیں۔ان دنوں ایٹمی طاقت کے استعمال کے بارے میں ترقی یافتہ ممالک میں زبردست بحث چل رہی ہے۔(جاری)