تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-11-2017

گردنوں کی فصل پک چکی؟

کیا گردنوں کی فصل ایک بار پھر پک چکی؟ کیا اس عہد کا خاتمہ ہونے والا ہے؟ کیا ہم ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں؟
ہفتے کی سہ پہر خواجہ سعد رفیق ٹی وی سکرینوں پر چمکے تو ایک قاتلانہ اعتماد کے ساتھ۔ التجا میں گھلی ہوئی دھمکی‘ پھر کھلی دھمکی۔ پھر ٹی وی میزبانوں کی مذمت‘ جو ان کے بقول نون لیگ میں کیڑے ڈالتے ہیں۔ ایک دعویٰ پھر دوسرا۔ پھر یہ اعلان کہ وزارتِ عظمیٰ سے نکالے گئے نواز شریف مخالفین کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ سبحان اللہ۔
نواز شریف کو لوگوں نے کیا اس لیے ووٹ دیئے تھے کہ مخالفین کی گردنیں ناپیں؟ ان اینکروں کے بارے میں کیا خیال ہے‘ جو میڈیا سیل اور نون لیگ کے ایما پر‘ عمران خان اور دوسروں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے ایک کارندے نے‘ لکھنے کی جسارت کی کہ نوے فیصد اخبار نویس پرلے درجے کے بے غیرت ہیں۔ ان میڈیا گروپوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ان کے حلیف ہیں۔ جو ایک فوج کی طرح اپنے اور نواز شریف کے مخالفین پہ یلغار کیے رکھتے ہیں۔ گویا وہ شودر ہوں۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بندِ قبا دیکھ
کوئی دن تھا کہ ایم ایس ایف کی ایک تقریب کا چند ہزار روپے کا اشتہار چھاپنے کے لیے خواجہ سعد رفیق کے پاس روپے نہ تھے۔ کوئی دن تھا کہ گجرات کے چوہدری‘ ان کے خاندان کی سرپرستی کیا کرتے۔ پھر 2004ء کے وہ ایام جب خواجہ صاحب کو دنیا بھر کی خرابیاں نواز شریف میں دکھائی دیا کرتیں۔ جب انہوں نے تحریکِ انصاف سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
پچھلے دنوں میاں صاحب سے ذاتی مراسم رکھنے والے ایک اخبار نویس نے ان سے کہا: اس آدمی سے خبردار‘ مالی اعتبار سے‘ خواجہ اب آپ کے ہم پلہ ہیں۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل بننا چاہتے ہیں۔ میں نے سوچا: سیاسی اور مالی طور پر اسی رفتار سے ترقی کرتے رہے تو ایک دن شاید وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بھی ہوں۔
محمد خان جونیجو وزیر اعظم ہو گئے تو کئی سیاسی لیڈر‘ ستارہ شناس پروفیسر غنی جاوید کو ہاتھ دکھایا کرتے کہ کیا اس میں کابینہ کی سربراہی لکھی ہے یا نہیں۔ ان میں سے ایک کو‘ میری موجودگی میں انہوں نے کہا: آپ کا ستارہ دمکنے والا ہے۔ باہر نکلے تو میں نے ان سے کہا: پروفیسر صاحب! حکومت ان کی نامقبول ہے‘ برطرف ہونے والی ہے۔ بولے: حد تو آپ کرتے ہیں۔ 500 روپے اس کفایت شعار آدمی سے مجھے وصول کرنا تھے۔ کیا میں یہ کہتا کہ اس کا چراغ بجھنے والا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے یہ حلیف ذاتی حیثیت میں‘ بہت معزز گردانے جاتے۔ آج بھی تاثر ان کا اچھا ہے۔ سب لوگ شاکی تھے کہ زرداری صاحب نے لوٹ مچا رکھی ہے۔ میرے احتجاج پر وعدہ کیا کہ محترمہ سے وہ بات کریں گے۔ چند روز میں صدر فاروق لغاری نے انہیں چلتا کیا‘ جب سیدہ عابدہ حسین نے‘ نواز شریف کے ایما پر مری میں لغاری صاحب سے ملاقات کی۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ نواز شریف نے صدر لغاری کو نکال پھینکنے کا بندوبست کیا۔ خوددار آدمی‘ خود ہی مستعفی ہو گیا۔ مرحوم کی اولاد اب انہی کی پلٹن میں شامل ہے۔ اسی طرح ان کا گیت گاتی ہے‘ جس طرح خواجہ سعد رفیق ذوالفقار علی بھٹو کا۔ بھٹو کے عہد میں خواجہ کے نجیب والد‘ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن خواجہ محمد رفیق بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔ ان کے قاتل اسی طرح آزاد گھومتے رہے‘ جس طرح امام حسینؓ کے قاتل‘ یزید کے سائے میں۔ اقتدار‘ مقبولیت اور دولت کی تمنا آدمی کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
میں اپنا رخ اب مغرب کی طرف کرتا ہوں۔ مدینہ منورہ کی جانب اور اس نادر روزگار شاعر جامیؔ کو یاد کرتا ہوں‘ عمر بھر جو سرکارؐ کی مدح کرتا رہا‘ حتیٰ کہ مٹی اوڑھ کر سو گیا۔
از جامیِ بے چارہ رسانید سلامے
بر درگہہ دربارِ رسولِ مدنی را
ہمیشہ کی طرح سرکارؐ کا وہی فرمان یاد آتا ہے: برائی سے جب روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پہ مسلط کیے جائیں گے۔ وہ تمہیں سخت ترین ایذا دیں گے... اور اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی۔ کیا اقبالؔ کے تخیل پر اس وقت قولِ مبارک کا سایہ تھا‘ جب یہ کہا تھا۔
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
تاجروں اور سیاستدانوں کی لوٹ مار‘ قانون کی ہمہ جہت پامالی‘ ایک سے ایک بدکردار لیڈر کی کرامات کے ہنگام‘ فوج نے ملک کو بچا رکھا ہے‘ آئین اور سیاست نے نہیں۔ لیڈروں نے تو ہوائوں تک کو گدلا کر دیا۔ اللہ کی آخری کتاب پر ایک اور شہادت مہیا کر دی ''بحروبر فساد سے بھر گئے اور یہ آدمی کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے‘‘ ایک قطرہ خالص دودھ اور ایک قطرہ صاف پانی میسر نہیں۔ بازار میں بکنے والی 30 فیصد سے زیادہ دوائیں جعلی ہیں۔ پنجاب کے ڈیڑھ سو انسپکٹروں میں سے‘ جن کا کام دوا فروشوں کی نگرانی ہے‘ 54 بدعنوان قرار پائے ہیں۔ ان کے ساتھی اور مددگار جو موت بیچتے ہیں۔ کراچی کا لیڈر ''را‘‘ کا ایجنٹ اور ہزاروں انسانوں کا قاتل نکلا۔ عمر بھر اس کی جوتیاں اٹھانے والے‘ اب یہ کہتے ہیں کہ ہم اس سے الگ ہو گئے۔ ہمیں اب پارسا مانا جائے۔ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں درندوں کا مقابلہ فوج نے کیا۔ افغانستان اور بھارت جن کی پشت پر تھے۔ مذہبی‘ سیاسی پارٹیاں جن کے لیے جواز ڈھونڈا کرتیں‘ نواز شریف جن سے مذاکرات کے علمبردار تھے۔ عمران خان نے‘ جن کے لیے پشاور میں دفتر کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔
آزادیء کشمیر کے لیے سیاستدان تنکا توڑنے کے روادار بھی نہیں۔ قوم کو بھارتی عزائم سے آگاہ نہیں کرتے۔ رہے نواز شریف تو بھارتی چینل چیختے ہیں کہ ان پر ہندوستان نے بہت سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اسی سانس میں ان کا مدبر کہتا ہے کہ 2018ء تک‘ پاکستان کو وہ چار ٹکڑوں میں بانٹ دیں گے۔ فوجی قیادت سے سابق وزیر اعظم نے فرمائش کی کہ کابل سے آگے تک ریلوے لائن بچھانے میں مدد دی جائے۔ وہاں تک جہاں بھارتی صنعت کار کوئلے کی کانیں رکھتا ہے۔ وہی صاحب دہلی میں وزیر اعظم پاکستان جس کے گھر تشریف لے گئے تھے‘ صاحبزادے کے ہمراہ!
اگر کچھ امید ہے تو فوج اور عدالتوں سے۔ اگر یہ قوم اللہ سے معافی مانگے۔ اگر اس کے دانشور اور علماء توبہ کریں۔ ادراک کریں کہ جرائم اور گناہ‘ خیانت اور کذب بیانی کا خاتمہ‘ تعلیم‘ تربیت اور حسن کردار کے نمونے پیش کرکے ہی ممکن ہے‘ چیخ و پکار سے نہیں‘ مولانا طارق جمیل کے وعظ سے نہیں۔
سیاستدان ہی حکومت فرمائیںگے‘ جیسا کہ ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ فوج کا یہ کردار ہی نہیں‘ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ بس یہ کہ لوٹ مار سے باز آئیں۔ قانون کا احترام کرنا سیکھیں۔ جان لیں کہ اگر عدالتوں کا وہ تمسخر اڑائیں گے‘ قومی اداروں کو پامال کرکے‘ بلیک میل کرکے اقتدار کی مسند پہ براجیں گے تو انجام ان کا بھی برا ہو گا۔ انارکی پھیلتی ہے تو کوئی بھی بچا نہیں کرتا۔ کوئی شہنشاہِ ایران بھی نہیں‘ امریکہ جس کی پشت پہ کھڑا تھا۔ کوئی سوویت یونین بھی نہیں‘ جس کے حاکموں کو خدائی اختیارات حاصل تھے۔ 
عجیب لوگ ہیں‘ کسی چیز سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیاء الحق‘ پرویزمشرف‘ ایک کے بعد دوسرا حکمران رسوا ہوتا ہے۔ سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ کیا گردنوں کی فصل ایک بار پھر پک چکی؟ کیا اس عہد کا خاتمہ ہونے والا ہے؟ کیا ہم ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved