''برف کی چادر‘‘ فرزانہ انجم ہاشمی کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس کی قیمت 300 روپے ہے۔ ٹائٹل پر برف پوش پہاڑ کی تصویر ہے جو شاید یقین دہانی کے لیے ہے کہ کتاب کا نام یونہی نہیں رکھ لیا گیا۔ کتاب کا انتساب اسریٰ‘ حسنین‘ زودان‘ دیا‘ احمد‘ سمیع‘ آسیہ‘ ادیب‘ زارا‘ زین‘ زایان‘ ہادی‘ لائبہ‘ حنا‘ مریم‘ علینا‘ شفا‘ خدیجہ‘ سعد‘ سارہ ریان‘ محمد علی‘ اشعر... نئی نسل کے نام ہیں جن سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ مستقبل میں باہمی اخوت‘ محبت‘ صداقت اور انصاف کے دیے روشن کرے گی۔ انشاء اللہ۔
فلیپ (اندرونی) پر درج اطلاع کے مطابق فرزانہ انجم ہاشمی نے جامعہ کراچی سے ایم اے اُردو (گولڈ میڈل) کیا۔ اس کے بعد خود درس و تدریس سے وابستہ ہوئیں‘ ساتھ ہی ساتھ ''اردو میں قومی شاعری کا ارتقا‘‘ کے موضوع پر جامعہ کراچی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے کام کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ اپوا کالج میں پڑھایا۔ اس دوران رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور آزاد کشمیر چلی گئیں۔ چند برس بعد واپسی ہوئی اور پھر درس و تریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ عرصہ نجی تعلیمی ادارے سے پڑھایا۔ اس کے بعد ڈیفنس اتھارٹی کالج برائے خواتین سے وابستہ ہوئیں اور پھر وہیں سے ریٹائرمنٹ ہوئی۔ یہ اُن کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ پہلا مجموعہ ''مہندی کی خوشبو‘‘ 2011ء میں شائع ہوا۔ فلیپ پر چھپی پروفیسر سحر انصاری (تمغۂ امتیاز‘ ستارۂ امتیاز) کی رائے کے مطابق ''فرزانہ انجم کی شاعری ان کے داخلی جذبات اور ذاتی کیفیات کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے موجودہ شاعرات میں سے کسی کو بھی اپنا رول ماڈل نہیں بنایا۔ اسی لیے ان کی شاعری پر کسی کے موضوعات پر اسلوب کی چھاپ نہیں ہے۔ فرزانہ نے اپنی بات اپنے انداز میں کہی ہے اور یہی ان کی کامیابی اور شعر گوئی کا جواز ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں غنائیت کا عنصر صاف نظر آتا ہے۔ ''برف کی چادر‘‘ فرزانہ انجم کے نسائی جذبوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ان کی بعض نظمیں روایتی اظہار سے ہٹی ہوئی ہیں۔ ان کی شاعری میں خاندانی اور انسانی رشتوں کی اہمیت بطور خاص اُجاگر ہوتی ہے۔ یہ اس لیے بھی قابلِ توجہ اور لائقِ مطالعہ ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں خاندانی بندھن ٹوٹ رہے ہیں اور انسانی رشتے تیزی سے بے وقعت ہو رہے ہیں‘‘۔
پسِ سرورق افتخار عارف کی رائے اس طرح سے درج ہے۔ سلام و رحمت
آپ نے اپنی کتاب ''مہندی کی خوشبو‘‘ مرحمت فرمائی اس کا شکر گزار ہوں۔ ان شاء اللہ میں بھی استفادہ کروں گا اور دیگر احباب اور نقاد بھی فیضیاب ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ آپ کے لفظ کو تاثیر کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
افتخار عارف (ستارۂ امتیاز‘ ہلالِ امتیاز)
صدر نشین ادارہ فروغ قومی زبان‘ 14 اکتوبر 2010ء
اس کے بعد جناب انور مقصود کی رائے کچھ اس طرح سے ہے :
''مہندی کی خوشبو‘‘ میں فرزانہ انجم ہاشمی کی شاعری نظر سے گزری۔ غزل کہنا جانتی ہیں۔ ان کی شاعری میں نہ مضطر نظر آئے‘نہ جان نثار اور نہ جاوید اختر جبکہ وہ ان کے رشتہ دار ہیں۔ فرزانہ کا نام یہاں اچھی شاعری کرنے والی خواتین میں ایک اور اضافہ ہے۔
دل کی رعنائیاں جب بکھرنے لگیں
میرے آنگن میں پُورا چمن آ گیا
میری طرف سے فرزانہ انجم ہاشمی کو ''مہندی کی خوشبو‘‘ پر مبارکباد
انور مقصود اگست 2016ء
برادرم انور مقصود بنیادی طور پر مزاح نگار ہیں‘ تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مندرجہ بالا رائے انہوں نے پُوری سنجیدگی سے دی ہے اور لگے ہاتھوں چند مشہور بھارتی شعراء سے ان کی رشتہ داری سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ البتہ ایوارڈز انہیں بھی یقینا ملے ہوں گے جنہیں مخفی رکھ کر انہوں نے قارئین کی حق تلفی کی ہے۔ نیز اُمید ہے کہ برادر عزیز افتخار عارف نے ''مہندی کی خوشبو‘‘ سے کافی استفادہ کر لیا ہو گا اور اگر نہ کیا ہو تویہ کام فوراً سرانجام دے لیں تاکہ ان کی شاعری میں مزید نکھار پیدا ہو سکے‘ تاہم میں نے فوری طور پر یہ کام شروع کر دیا ہے تاکہ میری شاعری بھی کسی شمار و قطار میں آ سکے۔ اور‘ اب آخر میں مسعود احمد کے دو شعر :
اس ماحول میں ہنسنا رونا ایک سا ہے
اُٹھنا بیٹھنا جاگنا سونا ایک سا ہے
رنگ ہُوا ہے ایک لہو اور پانی کا
ان کے ساتھ نہانا دھونا ایک سا ہے
کچھ جگہ بچ گئی ہے اس لیے خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل
کس کس کو شکایت کیجیے
اور کس سے رعایت کیجیے
پیسہ نہیں‘ موبائل ہی سہی
اب کچھ تو عنایت کیجیے
ہوں بہت ہدایت یافتہ
مجھ کو نہ ہدایت کیجیے
دل پر جو ابھی گزری ہی نہیں
اس کو بھی روایت کیجیے
بھرپور ہے اتنا جسم اگر
اتنی نہ کفایت کیجیے
دشمن بھی مرے پھرتے ہیں بہت
اُن کی بھی حمایت کیجیے
دل کے رستے ہیں کھلے ہوئے
جس سے سرایت کیجیے
باہر بھی علاقہ آپ کا ہے
اندر بھی ولایت کیجیے
افسانۂ دل اچھا تھا‘ ظفرؔ
کچھ اور حکایت کیجیے
آج کا مقطع
رہیں تو خیر‘ مگر کھائیں گے کہاں سے‘ ظفرؔ
تبھی دکان بنا لی ہے گھر بناتے ہوئے