تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-11-2017

زرداری نواز گٹھ جوڑ؟

مشکل وقت ہے۔ سبھی کو چوکنا رہنا ہو گا۔ عدالتوں کو‘ افواج کو‘ سیاستدانوں کو‘ان سب کو پاکستان واقعی جن کا وطن ہے۔ زرداری نواز گٹھ جوڑ کسی وقت بھی بروئے کار آ سکتا ہے۔ 
ہرگز ہر گز انتخابات ملتوی نہ ہونے چاہئیں۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے جو بھی اعتراضات ہیں‘ سیاسی پارٹیوں کو گفت و شنید سے طے کرنے چاہئیں۔ کتنی ہی مشقت کرنی پڑے‘ کرنی چاہئے۔ کوئی اصول پامال کیے بغیر کتنی ہی لچک دکھانی پڑے‘ دکھانی چاہئے۔ سبھی کو مگر نون لیگ کو زیادہ۔حکومت اس کی ہے؛ چنانچہ ذمہ داری بھی اسی کی زیادہ ہے۔
مشکل یہ ہے کہ جناب ایاز صادق اس کام کے لئے موزوں نہیں۔ سپیکرکا کردار انہوں نے کبھی ادا ہی نہیں کیا بلکہ طلال چوہدری اور پرویز رشید کی طرح وفاداری ثابت کرنے پر تلے رہے۔سپیکر اپنے فرائض ایوان سے حاصل ہونے والے اعتماد کی بنیاد پر انجام دیتا ہے۔ ملک معراج خالد‘ فخر امام‘ حامد ناصر چٹھہ اور گوہر ایوب کی طرح۔مختلف جماعتوں کو اگر اس پر بھروسہ ہی نہ ہو؟۔ ملک معراج خالد گاہے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بات نہیں مانتے تھے۔ فخر امام کی ساکھ غیر معمولی تھی۔ اپنا عہدہ انہوں نے قربان کر دیا مگر محمد خان جونیجو یا جنرل محمد ضیاء الحق کا تابعِ مہمل بننے سے انکار کر دیا۔ اس سے بھی پہلے خانیوال میں ضلعی چیئرمین کا الیکشن ہارنے پر وزارت سے مستعفی ہو کر‘ اپنی اصول پسندی وہ ثابت کر چکے تھے۔ دراصل اسی سے ان کے سپیکر بننے کی راہ ہموار ہوئی‘ وگرنہ جنرل محمد ضیاء الحق تو خواجہ آصف کے گرامی قدر والد خواجہ صفدر مرحوم کو یہ منصب سونپنے پر تلے تھے۔ وہ ان کے سایے میں مجلس شوریٰ کے سربراہ رہے تھے۔
فخر امام کے بعد‘ حامد ناصر چٹھہ آئے۔ نواز شریف انہیں کچھ زیادہ پسند نہ کرتے تھے مگر حالات کے دبائو نے انہیں مجبور کر دیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد‘ اطلاعات کے وفاقی وزیر بنائے گئے تو خودپسند ‘راجہ ظفرالحق کی روایات چٹھہ صاحب نے ترک کر دیں۔ راجہ صاحب تو حکومت کے سخت گیر کارندے اوروکیل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ یاد پڑتا ہے کہ لیاقت بلوچ نے‘ کہ تب نواز شریف کے حلیف تھے‘ ان سے کہا تھا: فخر امام کے بعد ایسا سپیکر ہی کامیاب ہو سکتا ہے‘ جو ان سے اچھی انگریزی بولتا ہو‘ جس کا احترام کیا جاتا ہو اور جو فریق دکھائی نہ دے۔
گوہر ایوب بھی گاہے آزادروی کا مظاہرہ کرتے۔ میاں محمد نواز شریف کا مزاج یہ نہیں کہ اپنے ساتھیوں کی یہ روش گوارا کریں۔ اشارۂ ابرو پہ حرکت والے ہی انہیں سازگار ہیں۔ اسی کے نتائج وہ بھگت رہے ہیں۔ ابھی کچھ اور بھی بھگتیں گے۔ دفن وہ بالکل نہیں ہوئے۔ قبر پہ گھاس اگنے کا کیا سوال؛ تاہم وہ تباہی کے راستے پر ہیں۔ اِلاّیہ کہ مخالف اپنی حماقتوں سے ان کی راہ کشادہ کر دیں۔
2013ء کا الیکشن ایاز صادق نے دھاندلی سے جیتا تھا۔ الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف فیصلہ صادر کیا۔ ضمنی انتخاب جیتنے کے لئے‘ لاہور کے مختلف حلقوں سے سولہ ہزار ووٹ ان کے حلقے میں منتقل کئے گئے۔ بروقت فیصلہ صادر ہوتا تو اب تک وہ اپنی نشست سے محروم ہو چکے ہوتے۔ ایسے آدمی کا کوئی کتنا لحاظ کر سکتا ہے۔ حلقہ بندیوں پہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے اعتراضات درست ہیں یا نادرست‘ ان کا رنج حقیقی ہے۔مزید برآں پیپلز پارٹی نے امکانات کے سب دروازے کھلے رکھے ہیں۔ زرداری ایک عظیم شاطر ہیں۔
صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر اپنی شرائط منوانے کی دونوں پارٹیاں کوشش کریں گی۔ لیکن اگر وہ دور نکل گئیں کہ الیکشن خطرے میں پڑ گئے تو نون لیگ ہی نہیں‘ وہ بھی خسارے میں رہیں گی۔
عربوں کا محاورہ یہ ہے: بوجھ اتنا تھا کہ اونٹوں نے دیکھتے ہی بلبلانا شروع کر دیا۔ نون لیگ کا عالم یہی ہے۔ الیکشن کے التوا کا ہی اندیشہ نہیں‘ اس کے اندرونی اختلافات بھی ہیں۔ گہرے‘ واضح اور یقینی۔ یہ الگ بات کہ شریف خاندان تردید کرتا رہااور کرتا رہے گا۔ معلوم نہیں یہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کا روّیہ ہے یا خلقِ خدا کو دھوکہ دے کر‘ اتحاد کا تاثر دینے کی بھونڈی کوشش۔ مصیبت بہرحال سر پہ آ پڑی ہے۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے: جو کچھ تم نے کیا ہے‘ وہ تمہارے سامنے آئے گا۔
اتنی لچک تو میاں محمد نواز شریف نے دکھائی ہے کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں چھوٹے بھائی کو وزیراعظم بنانے کا عندیہ ظاہر کیا۔ ان کا مگر بھروسہ کیا۔ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد ایک بار پہلے بھی وعدہ کر کے مکر گئے تھے۔ خاندان میں پختہ سمجھوتہ اگر طے پا جاتا ہے کہ شہباز شریف ہی آئندہ وزیراعظم ہوں گے تو مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ ہوں گی۔
دو سوال البتہ ہیں‘ کیا آسانی سے یہ سمجھوتہ نافذ کیا جا سکے گا‘ جبکہ نواز شریف ہر چیز اپنے ہاتھ میں رکھنے پہ مصر ہوں؟ ثانیاً ان کے بعد اگر شہباز شریف‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی نااہل ہو گئے تو کیا ہوگا؟ تقدیراٹل ہوتی ہے۔ فیصلے مالک کے ہاتھ میں ہیں۔
ہوائیں ان کی‘ فضائیں ان کی‘ سمندر ان کے‘ جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر‘ بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
میاں محمد نواز شریف بیک وقت عدلیہ اور فوج کو روند ڈالنے کے آرزومند ہیں۔ خاندان اور پارٹی سے غیر مشروط اطاعت کے بعد بھی۔ دانیال عزیز‘ طلال چوہدری اور پرویز رشید تو اس طرح کی وفاداری کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ مگر شہباز شریف‘ حمزہ اور چوہدری نثار کیوں کریں؟۔ انہی لوگوں کے بارے میں شہباز شریف نے کہا تھا کہ خوشامد کے سوا وہ کوئی ہنر نہیں رکھتے‘ وہ بھی کب تک اطاعت گزار رہیں گے...؟ غروبِ آفتاب تک!
کہاں کا رشتۂِ جاں اور کیسی دوستی پیارے
مبالغہ بھی کریں تو نباہنے تک ہے
صدر غلام اسحاق خان مرحوم سے ایک بار عرض کیا کہ وہ عوامی احساسات کی قوت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اس کے سوا بھی انہوں نے کئی غلطیاں کیں۔متین آدمی کا جواب یہ تھا: اسی کی قیمت چکا رہا ہوں اور خوش دلی سے۔ یہ جملہ جنرل حمید گل مرحوم کو سنایا تو انہوں نے کہا: ''مگر آخری قہقہہ غلام اسحاق خان لگائیں گے‘‘۔
عہدِ اول کے بعد‘ مسلم تاریخ کا عظیم ترین فاتح کون تھا؟آرا مختلف ہو سکتی ہیں۔ اس میں مگر کوئی شبہ نہیں کہ اخلاقی اور عسکری اعتبار سے الپ ارسلان ممتاز ترین میں سے ایک تھا۔ محمود غزنوی کے بعد مسعود غزنوی کی بکھرتی حکومت کے خس و خاشاک پر ایک عظیم سلطنت اس نے تعمیر کی۔ مسلم دنیا کا غیر متنازعہ قائد بنا۔روم کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا اور بدترین حالات میں۔
پھر وہ لمحہ اس پہ وارد ہوا جب حد سے بڑھے اعتماد نے خاک بسر کر دیا۔ دربار میں پیش کئے گئے ایک مجرم سے اس نے کہا: میں تمہاری گردن کاٹ دوں گا۔ لہجے اور انداز میں کبریائی تھی۔ پھر اپنے عہد کے نامور نشانہ باز نے پاس رکھی اپنی کمان اٹھائی۔ اس کا تیر خطا ہوا۔ سامنے کھڑے بازاری سے آدمی نے چھپایا ہوا خنجر نکالا اور فاتح کو مار ڈالا۔ زمانے کی گردش بدل گئی‘ تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ ملک شاہ نے اقتدار سنبھالا اور اسمٰعیلی یلغار سمیت کئی فتنوں کا آغاز ہوا۔
الیکشن اگر ملتوی ہوئے تو نواز شریف اور زرداری کا اتحاد لازماًوجود میں آئے گا۔نامہ و پیام جاری ہے۔ ضمانتوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور بھارت بھی یہی چاہتے ہیں۔ میاں صاحب اور زرداری صاحب کو اشارہ دیا جا چکا کہ ایسی صورت میں‘ ان کی سرپرستی کی جائے گی۔ میاں صاحب یونہی غیر معمولی اعتماد کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بھارت‘ افغانستان اور امریکہ‘ پاکستان کو دبائو میں رکھنے پر تُلے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مشکل حالات میں الطاف حسین کی طرح برطانوی حکومت ان کی سرپرستی کرے گی۔
مشکل وقت ہے۔ سبھی کو چوکنا رہنا ہوگا۔عدالتوں کو‘ افواج کو‘ سیاستدانوں کو‘ان سب کو‘ پاکستان واقعی جن کا وطن ہے۔ زرداری نواز گٹھ جوڑ کسی وقت بھی بروئے کار آ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved